سُپر پاور اور اس کے حواریوں کی شہہ پر دہشتگرد اسرائیل پھر سے قتل و غارتگری پر عمل پیرا ہے ۔ امن و انسانی حقوق کے علمبرادار اور مسلمان حکمران مدہوش پڑے ہیں ۔ میں نے نصف صدی کے مطالعہ اور اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر ریاست اسرائیل کے قیام اور مقاصد کا خلاصہ 7 سال قبل تحریر کیا تھا ۔ میں ان شاء اللہ قارئین کی سہولت کی خاطر اسے اقساط میں نقل کروں گا
پیش لفظ
1932ء سے دسمبر 1947ء تک میرے والد صاحب کے کاروبار کا مرکز فلسطین تھا ۔ رہائش فلسطین کے ایک شہرطولکرم اور ہیڈ آفس حیفہ میں تھا ۔ والدہ صاحبہ کبھی قاہرہ (مصر) میں میرے نانا نانی کے پاس یا فلسطین میں والد صاحب کے ساتھ رہتیں کبھی ہندوستان ميں ہمارے ساتھ ۔ میری ایک بڑی بہن 1932ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئیں اور ایک چھوٹا بھائی اپریل 1947ء میں فلسطین میں نابلس کے ہسپتال میں پیدا ہوا ۔ ميں اپنے دادا دادی کے پاس ہندوستان ہی میں رہا
یہودی ریاست کا حق ؟
“غیر تو غیر ہوۓ اپنوں کا بھی یارا نہ ہوا” کے مصداق کچھ پاکستانی بھائیوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا حق تھا یا یہ کہ چونکہ اسرائیل بن چکا ہے اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے ۔ جہاں تک ریاست کے حق کا معاملہ ہے تو اس کی کچھ تو زمینی بنیاد ہونا چاہیئے
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسراءیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوۓ مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسراءیل میں سے نہیں تھے
حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ جس سرزمین فلسطین (بشمول موجودہ اسرائیل) پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا
حضرت موسی علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسراءیل صحراۓ سینائی میں بھٹکتے رہے یہانتک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی جس میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ اور انہوں نے بھٹکی ہوئی بنی اسراءیل کو فلسطین جانے کو کہا ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اول تو حضرت داؤد علیہ السّلام یہودی نہ تھے بلکہ قرآن شریف کے مطابق مُسلم تھے لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جاۓ تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ (بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے)
اب پچھلی صدی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ کہ میرے پاس 100 ایکڑ زمین تھی ایک جابر اور طاقتور شخص نے اس میں سے 60 ایکڑ پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ اب صلح کرانے والے مجھے یہ مشورہ دیں کہ “میری 60 ایکڑ زمین پرظالم کا قبضہ ایک زمینی حقیقت ہے اس لئے میں اسے قبول کر لوں اور شکر کروں کہ 40 ایکڑ میرے پاس بچ گئی ہے ۔” کیا خوب انصاف ہوگا یہ ؟ ؟ ؟ اور پھر اس کی کیا ضمانت ہو گی کہ وہ طاقتور شخص مجھ سے باقی زمین نہیں چھینے گا ؟
اسرائیل کے حکمران فلسطینی نہیں
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ [ہنگری] کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک [پولینڈ] کا ۔ گولڈا میئر کِیو [یوکرَین] کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک [روس] کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف [پولینڈ] کا ۔ چائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول [پولینڈ] کا تھا
اسرائیل جائز ہے تو ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان مسلمانوں کے حوالے کئے جائیں
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا ۔ (علامہ اقبال)
نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جاۓ کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے [یعنی آج سے 2617 سے 3017 سال پہلے تک] تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔
اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جاۓ گا ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان [چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح] نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟ ؟ ؟
إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُؤْمِنُونَ ۔ [3-160] ۔
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا (ف۳۰۶) اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے،
لیکن امریکی مدد اور برطانوی بخششوں پر انحصارکرنے والے،حصول زر یا طوالتِ اقتدارکیلئےاسرائیل کےسرپرست امریکی سامراج اور یہودی مفادات کیلئےکچھ بھی کرگذرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ننگِ قوم و ملت حکمران صرف اللہ کو اپنا حقیقی مقتدراعلی کب اور کیونکرمانیں گے؟ یا الہی رحم فرما رحم فرما رحم فرما ۔۔۔۔۔۔
برادر محترم افتخار صاحب ۔۔۔ آئی سلیوٹ یو سر ۔۔۔۔۔آپ اس دور کے وہ سچے قلندر ہیں جو جہل و ظلمت کی راہوں میں سچائی کی روشنی بکھیر رہا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ مولائے کریم آپ کو صحت و تندرستی عطافرمائے اور دین و دنیا میں سرفرازیاں نصیب ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ سدا خوش آباد و خوش مراد
فاروق درویش صاحب
آپ تو بمطابق اسم واقعی درویش ہیں ۔ میں تو ایک عام سا آدمی ہوں ۔ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی کوشش میں ہوں ۔ آپ جیسے بے لوث دعاگو میسر ہونا اللہ کریم کی خاص کرم نوازی ہے ۔ اسی کے بل بوتے چلتے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و رتعالٰی آپ کو ایمان صحت اور خوشحالی کے خزانوں سے مالا مال کرے
میں بھی بچپن سے ہی فلسطین اور کشمیر کے جھگڑوں کے بارے میں سنتی اور پڑھتی آرہی ہوں۔ اسرائیل کی لڑائی 5000 سال سے چلی آرہی ہے۔ اس علاقے سے ان لوگوں کو بار بار نکالا گیا ہے اور انہوں نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں سے جنگیں کی ہیں۔ جب بھی اس قوم پر برا وقت آیا اور قتل غارت ہوئی تو انہوں نے اپنی بنیادوں کی طرف دیکھا۔ دنیا میں سبھی کو حیرت کرنی چاہئیے کہ ساری دنیا کی نفرت اور ان لوگوں کو مٹانے کی شدید خواہش کے باوجود یہ ابھی تک موجود ہیں۔ ویسے یہویت کی تعلیم میں اچھی باتیں ہی ہیں۔ اصل میں مجھے تو یہودیت اور عیسائت پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ان کی تعلیمات اسلام سے کس قدر ملتی جلتی ہیں۔ فلسطین کے لوگ جو یہاں رہتے تھے ان کے ساتھ تو بہت برا ہوا ہے۔ اور اس بات کو سب جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سارے یہودی بھی یہ بات کہتے ہیں کہ اسرائیل کے کام یہودیت کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ جس طرح بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان الگ ہوئے تو کتنے ملین لوگ مرے اور سوال ہے کہ یہ ضروری تھا یا نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ ممالک دنیا کے نقشے پر بہت ساری آبادی کے ساتھ موجود ہیں اور اب ان کو اور دنیا کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ جو لوگ بنا گئے تھے وہ تو گزر گئے۔ ہمیں تو دنیا ایسے ہی وراثت میں ملی ہے۔
اور اوپر کے کچھ تبصروں کا جواب ہے کہ دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے۔ جب ہمارے پاس لاٹھی ہوتی ہے تو ہم بھی پوری بھینس اپنا حق سمجھ کر لے لیتے ہیں اور لی بھی ہیں۔ یہ ہے حضرت انسان کی سچی کہانی۔ چت بھی میری پٹ بھی میری اور انٹا میرے بابا کا۔اب یہ 2012 ہے اور دنیا کو مل کر ہی چلنا پڑے گا ورنہ سب اکٹھے ڈوبیں گے۔
ڈاکٹر لبنٰی مرزا صاحبہ
مشکور ہوں کہ آپ نے میرے بلاگ کو رونق بخشی ۔
آپ کے احساسات کی قدر کرتا ہوں ۔ البتہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ جب تک ہو گا تب تک ظُلم ہوتا رہے گا ۔ آپ نے درست کہا (باوجود انسان کی کردہ تبدیلیوں کے) انجیل اور تورات کی عبارت ابھی بھی کافی حد تک قرآن شریف سے ملتی جلتی ہے ۔ یہ بھی آپ نے درست کہا کہ (اپنے مذہب پر عمل کرنے والے) یہودی اسرائیل کی حکومت کے خلاف ہیں میرے علم کے مطابق وہ اسرائیل ریاست کے بننے کو اللہ سے جنگ قرار دیتے ہیں ۔ میں اپنی تحقیق کا خلاصہ کر رہا ہوں ۔ اِن شاء اللہ مزید 5 اقساط میں آج سے 2 ہفتوں کے اند شائع کر دوں گا ۔ اُمید ہے اسے پڑھنے کے بعد آپ اپنے گرانقدر خیالات سے مستفید فرمائیں گی ۔
ہماری بدقسمتی سمجھیئے یا کوتاہ اندیشی کہ علم کا قلم اسلام دشمنوں کے ہاتھ میں چلا گیا جسے اپنے ہاتھ میں پکڑنے کی آج بھی ہم کوشش نہیں کر رہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ قلم بردار جو ہمیں پڑھوانا چاہتا ہے ہم پڑھتے ہیں ۔
پاکستان بننے پر ہلاکتوں کا آپ نے ذکر کیا ۔ کچھ لوگ پاکستان کے بننے کو ہی غلط کہہ چکے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان تو کیا اسلام کو بھی دل سے قبول نہ کیا ۔ ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت فلسطین کے مسلمانوں سے بہتر نہ ہوتی ۔ پاکستان کا وجود (غیر مسلم دنیا جسے ختم کرنے کے درپۓ ہے) بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کی بھی ضمانت ہے ۔ مسلمانوں سے ہندوؤں کے سلوک کی ہلکی سی جھلک آپ اُوپر ”تحریک آزادی جموں کشمیر“ پر کلک کر کے پراگراف 23 تا 31 پڑھ لیجئے ۔ اگر وقت کی بہت قلت ہو تو فی الحال پیراگراف 23 اور 24 ہی پڑھ لیجے
جی بھوپال صاحب جب آپ پورا لکھ لیں تو مجھے ضرور بتا دیجئیے گا۔ اب آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ لوگ طاقت کا غلط استعمال کرتے رہیں گے۔ جیسے کہ میں اپنے اردگرد دیکھ رہی ہوں عام لوگوں کو، عربوں کو، خاص کر خواتین کو بہت سی باتیں پتہ چل گئی ہیں کہ انہیں کس طرح پیچھے رکھاگیا ہے۔ اب ہم دنیا کو واپس ایک صدی پہلے بھی نہیں لے جاسکتے۔ اب دنیا صرف آگے ہی بڑھے گی۔ تعلیم اور ترقی کے لحاظ سے۔ اب کوئی کسی مزہب کو دل سے مانے یا نہ مانے تو اس بندے یا بندی کی اپنی پسند اور مرضی ہے۔ ویسے بھی آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مزہبیت اور ذہانت میں انورس پروپورشن ہے۔ یعنی کہ لوگ جتنے ذہین ہوتے ہیں اتنے ہی کم مزہبی ہوتے ہیں۔ اور جتنے زیادہ مزہبی ہوتے ہیں ان کا آئی کیو اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ یہ تو ریسرچ سے ثابت ہے۔ تو آپ ان لوگوں کو نیچی نظر سے نہ دیکھیں۔ سوال کرنا اور سوچنا اور کسی بھی چیز کو قبول یا ریجیکٹ کردینا انسان کا پورا حق ہے۔ اور اچھے لوگ تو ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ ہندو اچھے بھی ہیں۔ برے بھی ہیں۔ اسی طرح دنیا میں باقی سب ملکوں میں، مزہبوں میں لوگ اچھے بھی ہیں اور برے بھی ہیں۔ اور ہمارے آباؤ اجداد بھی تو بدھ تھے۔ سندھ اور ہند سارا بدھ مت میں تھا اشوکا کے زمانے میں۔یہ تو جنیٹکس کی سٹڈی سے ثابت ہے کہ بر صغیر کے زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ 30 ملین تو صرف چنگیز خان کی اولاد ہیں۔ پاکستان کے دشمن بہت سارے ہوں گے۔ سب اپنا ہی فائدہ دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے لئیے کیا کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر لبنٰی مرزا صاحبہ
دنیا کو ایک صدی تو کیا ایک لمحہ پیچھے نہیں لیجایا جا سکتا لیکن آپ کا اس سے کیا مطلب ہے میری سمجھ مین نہیں آیا ۔ آپ موضوع پر رہتیں تو بہتر ہوتا ۔ آپ نے نئی بحثیں شامل کر دی ہیں ۔ قطع نظر مذہب کے آپ کے اسی تبصرہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کیا اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم تشدد نہیں کر رہا ؟
حسب نسب کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔ بعد میں کوئی آگ کا پُجاری بنا کوئی طوفانوں کا ۔ کوئی بُت پرست بنا اور کوئی زندہ پرست ۔ مگر ہر دور میں اللہ کے بندے موجود رہے اور درست سمت کی طرف اولادِ آدم کی رہنمائی کی کوشش کرتے رہے
آپ نے کہا ہے ”مزہبیت اور ذہانت میں انورس پروپورشن ہے۔ یعنی کہ لوگ جتنے ذہین ہوتے ہیں اتنے ہی کم مزہبی ہوتے ہیں۔ اور جتنے زیادہ مزہبی ہوتے ہیں ان کا آئی کیو اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ یہ تو ریسرچ سے ثابت ہے“
اللہ جانے یہ کس نے کہا اور تحقیق کی تھی ۔ یہ بھی اسی طرح لگتی ہے جیسے عراق میں ڈبلیو ایم ڈی تھے اسلئے امریکا نے حملہ کیا ۔ معاف کیجئے گا آپ نے شاید مذہبی سے مراد جنونی یا مجذوب لی ہے ۔ لیکن بات مذہبی ہونا کی نہیں بلکہ مُسلمان ہونے کی ہے اور مُسلمان وہ ہوتا ہے جو اللہ کا فرمان بمطابق قرآن اور حدیث مکمل طور پر مانے اور اس پر عمل کی پوری کوشش کرے ۔ آپ کے استدلال کے برعکس میرا مشاہدہ ہے کہ ذہانت آدمی کو ایک اچھا یعنی باعمل مسلمان بننے میں مدد دیتی ہے اور مذہب سے دور نہیں لے جاتی ۔ مذہب کو درست طور پر سمجھنے کیلئے ذہانت کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ مذہب فقط تقلید کا نام نہیں ہے اور صرف کہہ دینے سے کہ ”میں مسلمان ہوں“ آدمی مُسلمان نہیں بن جاتا ۔
شاید آپ کے کُلیئے (فارمولا) کے تحت میں ”مذہبی“ ہوں جس کا مطلب یہ ہوا کہ میں کُند ذہن ہوں کیونکہ آپ کے مطابق مذہبی رجحان اُلٹی نسبت رکھتا ہے آئی کیو سے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انٹیلیجنس قوشینٹ جسے سمجھنے کی اہلیت کہا جاتا ہے اس کا پہلا ٹیسٹ 2 آدمیوں نے 1905ء میں فرانس میں پرائمری سکول کے بچوں کیلئے بنایا تھا جس کے بعد اس کا ذکر اور استعمال بڑھتا گیا ۔
میں اللہ کے فضل سے مسلمان ہوں اور قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں ۔ میرا رجحان بچپن سے مذہب کی طرف رہا ہے ۔ میں جوں جوں تعلیم کے میدان میں منزلیں سر کرتا گیا میرا دین اسلام سے تعلق بڑھتا گیا کیونکہ علم اور تجربے کی بدولت میرا ذہن قرآن و حدیث کو بہتر سے بہتر طریقہ سے سمجھنے کے قابل ہوتا گیا ۔ اگر کم آئی کیو رکھنے والا میرے جیسا بن سکتا ہے تو پھر آئی کیو لیول کم ہی اچھی ۔ شاید آپ نے میرا مختصر تعارف جو اس بلاگ پر موجود ہے پڑھ کر اندازہ لگایا ہو کہ میں کُند ذہن ہوں یعنی کم آئی کیو رکھتا ہوں
ریسرچ آپ کو ایک دو بندوں کے بارے میں نہیں بتاتی۔ وہ بہت سارے لوگوں کا اکٹھا تجزیہ کرتی ہے۔ مزہبیت اور آئی کیو ایک جرنل نالج کا پوائنٹ ہے اور اس کو اسی طرح دیکھا جائے تو بہتر ہے۔ جو آپ نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہے کہ اسرائیل کے ظلم غلط ہیں۔ اب ہم یہاں سے آگے کیسے بڑھیں یہ سوال پوچھنا چاہئیے۔ اس لئیے اب نسل در نسل اس بات کو دھرانے سے کیا فائدہ ہے کہ اسرائیل غلط بنا اور اس کو ختم کرو۔ اس سے خون خرابا ہی ہوتا ہے۔ غریبوں کے بچے اپنی فیملی کی مدد کرنے کے بجائے لڑنے مرنے نکل جاتے ہیں۔ان کی مائیں کتنی دکھی ہوتی ہیں۔ دنیا بہت آگے بڑھ رہی ہے۔ لوگ انٹرنیٹ سے ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ اب فلسطین میں بچے مرے تو ساری دنیا کے لوگ افسوس کررہے ہیں۔ اس بات میں کون خوش ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ اور عراق میں ہتھیار نہیں تھے۔ وہ تو مجھے سپاہیوں نے اپنے منہ سے بتایا کہ ہم وہاں پہنچے تو بیرلوں پر لکھا تھا میڈ ان ہیوسٹن۔ میں نے دو سال وی اے (امریکہ کے فوجی ہسپتال) میں کام کیا ہے۔ غلط کبھی صحیح نہیں ہوتا اور جب لوگ معلومات حاصل کرلیتے ہیں تو انہیں خود ہی پتا چل جاتا ہے۔اب ہمارے لئیے یہی بہتر ہے کہ امن پھیلانے کی باتیں کریں۔ اور ایسی باتیں لکھیں جس سے لوگ ایک دوسرے میں ملتی جلتی باتیں تلاش کریں اور ایک دوسرے سے نفرت کم کریں۔
ڈاکٹر لبنٰی مرزا صاحبہ
جسے آپ تحقیق کہہ رہی ہیں وہ سائنس کے اصولول کے مطابق نہیں ہوئی تھی ۔ کچھ گرجوں میں باقاعدہ یا عام طور پر جانے والوں سے ریاضی یا تحلیلی اسلوب والے سوالات پوچھے گئے تھے مدعا یہ معلوم کرنا تھا کہ گرجا جانے والے منطقی سائنس کی کس حد تک معلومات رکھتے ہیں ۔ بعد میں ان تجزیوں کو یہ رنگ دے دیا گیا کہ مذہبی رجحان ذہانت سے اُلٹا تناسب رکھتا ہے ۔ اس طرح سروے کیا جائے میڈیکل کالجوں کا اور سوال پوچھے جائے کمپیوٹر پروگرامنگ اور ڈیم ڈیزائین کے ۔ پھر نتیجہ یہی نکلے گا کہ میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والوں کی آئی کیو بہت کم ہے ۔ بات وہیں پر آ جاتی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ کہ طاقتو جو کہے وہ درست ۔ جارج ڈبلیو بش نے علی الاعلان کہا تھا ”حقیقت وہ ہے جو ہم کہتے ہیں“۔
اب آیئے فلسطین کی طرف ۔ آپ انہی خیالات کا اظہار کر رہی ہیں جو امریکا کے ذرائع ابلاغ کہتے ہیں یعنی ظالم اور قاتل کو مظلوم کہنا اور ذمہ دار مظلوموں کو ٹحہرانا ۔ ہر ظلم کو ماضی کہہ کر ٹالا جائے اور ظلم کی امداد کی جائے کیا یہی سکھاتی ہے جمہوریت اور انسان دوستی ؟ انٹرنیٹ نے ہی یہ ظلم بچے بچے تک پہنچا دیا ہے ورنہ بارہ پندرہ سال قبل کم لوگ ہی جانتے تھے کی دنیا میں کون ظلم کر رہا ہے ۔ یہ کیسا محبت کا درس ہے کہ ہم تمہیں ماریں اور تم اُف بھی نہ کرو بلکہ ہمارے ساتھ پیار سے رہو ؟
http://davesource.com/Fringe/Fringe/Religion/Average-intelligence-predicts-atheism-rates-across-137-nations-Lynn-et-al.pdf
بھوپال صاحب آپ کے ہاتھ میں قلم ہے۔ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ہم جو بھی لکھیں وہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ اس لئیے سچائی کو سامنے لانا چاہئیے چاہے وہ دوسری قوم کے لوگ کہیں یا وہ ہمیں نہایت بری لگے کیونکہ وقت سب آہستہ آہستہ ظاہر کردیتا ہے۔کل ڈوکیومینٹری دیکھی ممبئی ٹیرر کی۔ کتنا افسوس ہوا ۔ بیچارے 20 20 سال کے گاؤں کے لڑکے تھے جن کو چڑھا کر بے گناہ انسانوں کو مارنے بھیجا گیا تھا پاکستان سے۔ اب ہمارے ملک کا کیا ہوگا اگر ہم ایسے ہی نفرت میں جھلستے رہیں گے؟آپ برا نہ مانئیے گا۔ اور شکریہ کہ آپ نے میرے تبصرے برداشت کئیے ہیں ان کو آپ مٹا بھی سکتے تھے۔
لبنٰی مرزا صاحبہ
اب آپ نے ایک اور نیا موضوع چھیڑ دیا ہے ۔ آپ اعلٰی تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے اصول اور حدود کی متواتر خلاف ورزی کر رہی ہیں ۔ آپ کے تبصروں سے تاءثر ملتا کے کہ آپ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو جھوٹا اور دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ میں آپ کیلئے دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ آپ کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
میں صرف اپنے پیدا کرنے والے ۔ زندہ رکھنے والے ۔ اور رزق مہیاء کرنے والے سے ڈرتا ہوں جو مارنے والا بھی ہے ۔ میں کسی انسان سے نہیں ڈرتا ۔ میں نے کبھی اپنی خاطر جھوٹ نہیں بولا تو کسی دوسرے کی خاطر کیوں بولوں گا ؟ جو کچھ میں صیہونیوں کے متعلق لکھ رہا ہوں اس کا وسیلہ عرب یا مسلمان نہیں ہیں بلکہ عیسائی اور یہودی ہیں جن کا تعلق یورپ اور امریکا سے ہے ۔ میں نے وہ کچھ تو لکھا ہی نہیں جو 1946ء سے دسمبر 1947ء تک میرے والد صاحب نے اپنی آنکھوں سے فلسطین میں ہوتے دیکھا تھا ۔ خیال رہے میرے والد صاحب اس دور میں برٹش نیشنل تھے اور علاقہ میں موجود برٹش آرمی کی ساری سپلائیز والد صاحب کی فرم کے ذمہ تھیں ۔ اسی لئے اُن کے پاس برٹش آرمی کا شناختی کارڈ تھا اور اسی کے سبب وہ اپنی کار میں فلسطین سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے ۔
میں نہیں جانتا کہ کس نے کسے کچھ چڑھا کر بھیجا تھا البتہ میرے علم میں ممبئی المیہ کے کچھ ایسے شواہد ہیں جن میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس المیہ کی منصوبہ بندی صیہونیوں نے کی تھی جن کا مرکز ممبئی میں ان کا کمیونٹی سینٹر تھا اور یہ معلومات بھی پاکستان یا کسی مسلمان کی بنائی ہوئی نہیں تھیں بلکہ بھارت کے ہی قابلِ اعتبار لوگوں کی تھیں جو ہندو ہی تھے