غزہ پر اسرائیل کے حملے کی کچھ جھلکیاں تو سب نے دیکھی ہوں گی لیکن اتنی مکمل صورتِ حال کسی ٹی وی نے نہیں دکھائی ۔ اصل صورتِ حال کا اندازہ کرنے کیلئے نیچے وڈیو دیکھیئے جو 22 نومبر 2012 کو رات 9 بج کر 58 منٹ پر فیس بک پر لگائی گئی ہے
اسرائیل کی اس وحشت بھری اور انسانیت سوز کاروائی کو انسانی حقوق کی علمبردار مغربی دنیا اسرائیل کا حق قرار دے رہی ہے ۔ قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ دنیا میں دہشتگرد کون ہے اور دہشتگردوں کو پالنے والے کون
میں کتنا بدقسمت ہوں کہ ان مناظر کو دیکھ کر سوائے آنسو بہانے اور اللہ سے استدعا کرنے کے کچھ نہ کر سکا
یہ دیکھنے کے بعد دل سے مسلسل آہ نکلتی ہے ۔کہتے ہیں دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پھر ہم سب کی آہ یوں بے اثر کیوں ہورہی ہے کیا کمی ہے کیا وجہہ ہے ۔۔اللہ دشمنِ مسلمان کےلئے بہت کچھ کہنے منہ پر آرہا ہے مگر ہم تو اللہ ہی کو سناتے ہیں اسی سے بدلا، رحم مانگتے ہیں اور اسی کے ہاتھ سب کچھ ہے۔۔۔
دنیا میں طاقتور اور کمزور کی جنگ جنگ نہیں ہوتی۔ یہ کیا کہ آپ طاقتور ہیں، اوپر سے نہتے لوگوں پر بم برساتے ہیں اور وہ بے بس طاقتور کر گالیاں دیتے ہوئے آگ بجھاتے ہیں، لاشیں سمیٹتے ہیں اور آہ و بکاہ کرتے ہوئے سو جاتے ہیں۔ مقابلہ تو تب ہو جب دونوں کی طاقت برابر ہو۔ دونوں کے جہاز ہوا میں لڑیں، دونوں کے علاقوں میں بم برسائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون طاقتور ہے۔
افضل صاحب
آپ نے درست کہا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ طاقتور اپنی شکست کی خفت مٹانے کیلئے ظلم و تشدد پر اُتر آتا ہے ۔ ان بے کس اور بے بس لوگوں پر ظلم و تشدد کے 68 سال گذر گئے ہیں اور اس کی پشت پناہی دنیا کی بڑی طاقتیں کرتی ہیں لیکن فلسطین ختم نہیں ہوئے ۔ دوسری طرف بغیر فلسطینیوں کی مداخلت کے امیکا میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ہمیں علیحدہ کرو
ہائے ۔ ۔ ۔ہم کب تک آنسو بہاتے رہیں گیں ۔ ۔
ہائے ۔ ۔ کب تک آنسو بہائیں !!!