یہ 3 لفظ ہیں
”بندہ“ معنی ”اللہ کا بندہ“ مطلب ”اللہ سے ڈرنے والا“
”دا“ پنجابی ہے اُردو میں ”کا“
”پُتر“ مطلب ”بیٹا“۔ ”پُتر“ ویسے اُردو میں بھی کہتے ہیں
آدھی صدی پر محیط تجربہ سے میں نے سیکھا ہے کہ آدمی چاہے پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ اگر ”بندے دا پُتر“ ہو تو
1 ۔ درخواست کرنے یا مشورہ یا ھدائت دینے پر بات اُس کی سمجھ میں آ جاتی ہے اور درست کام کرتا ہے
2 ۔ پھر اگر اُس سے غلطی ہو جائے تو اپنی غلطی مانتا ہے
3 ۔ اگر پہلے وہ محنتی نہ ہو تو مشورہ یا ھدائت ملنے پر محنت کرتا ہے
1963ء میں جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو وہاں میرے سنیئر نے چپڑاسی سے میرا تعارف کرا کے اُسے باہر بھیجنے کے بعد کہا ”یہ میری قوم ہے ۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ کسی کیلئے اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے (یعنی ختم نہ ہو جائے)“ ۔ آج میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کا تجزیہ بالکل درست تھا
جو ”بندے دا پُتر“ نہیں ہوتے ۔ ان میں اَن پڑھ ۔ پڑھے لکھے ۔ غریب ۔ امیر ۔ مزدور اور بڑے عہدیدار یعنی کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن میں بات کرنا چاہتا ہوں گھریلو ملازموں کی ۔ ان لوگوں کو آپ لاکھ سمجھائیں ۔ کریں گے وہ اپنی مرضی ۔ آپ کا چاہے بڑا نقصان ہو جائے وہ اپنا پیسہ تو کیا ایک منٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔ دوسری بات کہ یہ لوگ اپنی غلطی کسی صورت نہیں مانتے ۔ بہت دبایا جائے تو کسی اور کے سر ڈال دیں گے
سات آٹھ سال سے ہم کھانا پکانے کیلئے عورت (باورچن) ملازم رکھتے ہیں ۔ ہر باورچن کو میری بیگم سمجھاتی ہیں کہ گیس اتنی کھولو کہ شعلہ دیگچی کے پیندے سے باہر نہ نکلے ۔ ہر باورچن زبانی ثابت کرنے کوشش کرے گی کہ وہ اس سے بھی زیادہ محتاط ہے
ہم پونے 2 سال لاہور میں رہے ۔ اللہ کی مہربانی سے وہاں ملازمہ جو ہمیں ملی وہ ”بندے دا پُتر“ قسم کی تھی ۔ اسلام آباد میں سوا 5 سال میں 4 دیگچیوں اور 2 پریشر کُکروں کی دستیاں جلائی گئیں ۔ میں نے کچھ روز قبل”حق حلال“ کے عنوان کے تحت ایک چمچے اور دیگچی کا ذکر کیا تھا ۔ اس دیگچی کی سخت پلاسٹک (Bakelite) جو آگ نہیں پکڑتا کی بنی ہوئی دستی جلنے کے باعث اُتر گئی تھی ۔ اتفاق سے میری نظر پڑ جانے کی وجہ سے دستی تباہ ہونے سے بچ گئی ۔ نمعلوم مزید کب تک چلے گی
اکتوبر کے شروع میں کچھ بھائی بہن آئے ۔ چاول زیادہ پکانےتھے ۔ بڑا چمچہ نکالا تو دستی کی ایک چفتی غائب ۔ باورچن کی جانے بلا کہ کہاں گئی ۔ کوئی جِن یا بھُوت چفتی اُتار کر لے گیا ہو گا
ایک پرانی بات یاد آئی ۔ اُس زمانہ میں صرف گھر کی صفائی اور برتن دھونے کیلئے ملازمہ ہوتی تھی ۔ دیکھنے میں اچھے خاصے مضبوط جسم کی مالک تھی ۔ میری بیگم نے کہا ”گاجریں کدوکش (shred) کر دو“۔ بولی ”میرے بازوؤں میں طاقت نہیں“۔ بیگم جو سنگل پسلی ہیں خود کرنے لگیں ۔ کچھ دن بعد بیگم نے ملازمہ سے کہا ”اُوپر جا کر پائپ کا والو (valve) بند کر آؤ تاکہ تمہارے ہاتھ دھونے کی ٹُوٹی ٹھیک کر دیں“۔ وہ بند کر کے آ گئی پھر بھی پانی بہہ رہا تھا۔ میں دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ والو کو اُلٹی طرف گھُما کر توڑ دیا ہے ۔ اللہ رے یہ کیسے کمزور بازو تھے ۔ میں ایڑھی سے چوٹی تک کا زور لگاتا مگر والو اُلٹا نہیں گھُما سکتا تھا۔ اس محترمہ کمزور کے ہاتھوں مزید ہماری 2 چھُریاں اور 2 ریفریجریٹر کی برف جمانے والی ٹرے ٹوٹیں ۔ ہِیٹ پروف شیشے کی بنی کیتلی براہِ راست گرم چولہے پر رکھ کر توڑ دی ۔ درجنوں کے حساب کھانے والے اور چائے کے چمچے اور گلاس غائب ہوئے ۔ باورچی خانے میں ایک دراز میں فروٹ سلاد وغیرہ کے ٹین کے ڈبوں کے کٹے ہوئے گول ٹین کے ٹکڑے پڑے تھے ۔ بیگم نے کہا ”یہ کیا گند اکٹھا کیا ہوا ہے ۔ اسے پھینکو“۔ اگلے ماہ معلوم ہوا کہ وہ ٹین کےٹکڑے تو وہیں ہیں البتہ میں نے ایک الماری میں پیتل کا بنا ہوا مٹی کے تیل کا سٹوو ۔ سنگر سیونگ مشین کا انگلینڈ سے لایا ہوا تیل کا بھرا ہوا ڈبہ اور کئی اور کارآمد اشیاء رکھی ہوئی تھیں وہ غائب ہیں ۔ پوچھا تو نہائت معصومیت سے کہا ”آپ ہی نے تو کہا تھا پھینک دو“۔ کھانے اور چائے کی چمچیوں ۔ پانی پینے والے گلاسوں اور چائے کی پیالیوں کی الگ داستان ہے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ٹوٹا یا کب گم ہوا
کہاں تک سُنو گے کہاں تک سناؤں ۔ ۔ ۔ بس کرتا ہوں
(در پردہ بیان ۔ ہماری بیگم صاحبہ کا اصول ہے کہ ہم کسی پر چوری کا الزام اُس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک ہم خود اُسے چوری کرتے نہ پکڑیں ۔ چنانچہ ہم ملازمہ کے کمرے کی تلاشی لے کر مسروقہ مال بھی برآمد نہیں کر سکتے ۔ مزید یہ کہ جس عورت کو ایک بار ملازم رکھ لیا اُسے نکالنا نہیں ہے جب تک وہ کوئی انتہائی مُخربُ الاِخلاق حرکت نہ کرے ۔ چنانچہ ایسا ہوتارہتا ہے کہ جن دنوں ہمیں ملازمہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے عام طور پر اُنہی دنوں میں ملازمہ اپنے گاؤں چلی جاتی ہے ۔ مجھے اپنی بیگم سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ یہ اُس کی بہت سی اچھائیوں میں سے ایک چھوٹی سی اچھائی ہے ۔ شاید اللہ تعالٰی نے اسلام آباد کا سارا رحم میری بیگم کے دل میں ڈال دیا ہے ۔ جون 2012ء سے ہمارے پاس ماں بیٹی ملازم ہیں ایک بیٹا ہے جو ساتھ رہتا ہے اور محلہ میں کسی کا ڈرائیور ہے ۔ ماں بیٹا 6 ہفتے سے مکان بنانے گاؤں گئے ہوئے ہیں ۔ کہہ کر 2 ہفتے کا گئے تھے ۔ عید والے دن بھائی آ کر بہن کو بھی ایک دن کیلئے لے گیا تھا جو 4 دن بعد واپس آئی تو طبیعت کچھ مضمحل تھی ۔ چند دن بعد زکام ۔ گلا خراب وغیرہ ہوا ۔ ہفتہ بھر وہ بستر پر لیٹی رہی اور بیگم کھانا پکا کر اور دوائیاں تینوں وقت ملازمہ کو کوارٹر میں دے کر آتی رہیں ۔ اسے کھانا دینے کیلئے بیگم جو برتن اور روٹیوں کے رومال اسے دے کر آتیں وہ وہیں اکٹھے ہوتے رہے ۔ بعد میں بیگم نے لا کر دھلوائے)
بہت خوب لکھا ااپ نے بھائی بھابی کی نرم مزاجی سے مجھے اپنی امی کی یاد آگئی وہ بھی کچھ اسی قسم کی تھی خود ہی ملازمہ کی خدمت کرتی اور ہمیں بھی کرنے لگاتی اور ہر بات پر اسی کی حمایتی بنی رہتی۔ اس کے کام کااحسان بھی جتایا جاتا۔ہاہاہاہا
ہم پردیسیوں کی زندگی ان قصہ سے پاک ہےنہ تو یہاں ملازمہ ہوتی ہے اور نہ یہ سب ہوتا ہے لے دے کر بچوں سے کام میں مدد لینی پڑتی اور بچوں کے والد کے طعنے اور احسان کے نیچے دبےرہنا پڑتا ہے ۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ
ملازمہ بہت زیادہ تنگ کرے تو میری بیگم سالوں میں ایک بار اسے سے سوال جواب کر لیتی ہیں مگر ملازمہ کچھ کر جائے میری امی (اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے) مجال ہے اُسے غصہ سے دیکھیں بھی اور اگر ہم کوئی شکائت کریں تو ملازمہ کی بجائے ہمیں سمجھاتی تھیں ۔ میں نے ”میری امی“ کے عنوان کے تحت اپنی امی کا مختصر خاکہ اسی بلاگ پر لکھا ہوا ہے
جناب
آپ نے ملازم ،ملازمت کرنے کیلئے رکھے ہیں؟
تنخواہ بھی دیں اور خدمت بھی کریں۔
ہماری کمپنی میں کام کرنے خواتین کا حال اور زیادہ برا ہے۔
وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں اور باس کو فارغ دیکھ کر غراتی بھی ہیں
یاسر صاحب
مرد کو فارغ دیکھ کر غُرانا تو عورتوں کی عادت ہے
اجمل چاچا یہ تو ہو بہو ہمارئے گھر کے احوال بیان کئے ہیں،بس فقط تبدیلی کرداروں کی ہے۔
اہ ہ ہ ہ ہ آج کجل اتنی آسانی سے بندئے دا پُتھر کہاں سے ملتے ہیں۔
چند دن قبل امی سے کہہ رہا تھا کہ میرا تو اس گھر میں دل تنگ ہو رہا ہے،کیونکہ جتنے گھر کے کام کرنے والے ہیں سبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔دا پُتھر ہیں۔
افتخار صاحب جہاں تک میری ناقص سوچ ہے ہم سب کو اپنے حلال میں حرام ملانے کی عادت پڑ گئی ہے اور ایسی پڑ گئی ہے کہ حلال ہضم ہی نہیں ہوتا۔گھریلو نوکروں کو چھوڑیں کوئی بندہ آپ کو محنت سے کام کرتا نہیں ملے گا کیا مزدور، کیا مستری، کیا مکینک، کیا چپڑاسی کیا استاد کیا افسر اور کیا سیاسی عہدے دران۔ اللہ کرم کرے ہمارے اوپر
‘میری’ ہم نے بیٹے کی پیدائش سے تین ماہ پہلے ملازم رکھی تھی
اگر اس کی بس لیٹ آتی تو اتنا وقت دیر تک ہمارے گھر رہتی بیگم کبھی اسکی شکایت مجھ سے کرتی تھیں تو مین نظر انداز کردیا کرتا تھا گھر مین پیسے یا جیولری پڑی رہتی کبھی نہین گمی یا کم ہوئ
امریکہ میں ایسی ملازمہ مل جائے تو سمجھ لیں آپ بڑی قسمت والے ہیں ہم اسے یہاں کی منیمم ویج’ کے حساب سے تنخواہ دیتے رہے کبھی اسے ضرورت پڑ جائے تو ویسے بھی اسکی مدد کر دیتے
اب تو عرصہ ہوا اسے ریٹائر ہوئے لیکن اسے کسی ضرورت پر ابھی تک ہم اور اب میرے بچے بھی اس کی مدد کرتے ہیں میرے بچے اسے فخر سے اپنی دوسری ماں کہتے ہیں وہ بھی انھیں اپنے بچے کہتی ہے معمولی تنخواہ کے باوجود اپنے چرچ کو باقاعدگی سے ہر ماہ دیا کرتی تھی میرے بچے کہتے ہیں کلمہ پڑھ لے تو سیدھی جنت جائےگی ہماے ہاں کام کرنے سے صرف اتنا ہوا کہ اس نے ‘وہ’ گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا میں نے اختصار کی خاطر بہت کم باتیں اس کی تعریف میں لکھی ہیں آجکل بیماری کی وجہ سے بستر سے لگ گئی ہے