برطانیہ کی عیّاری
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا اِس خیال سے کہ کہیں روس میں اُن کے قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوۓ ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا (دیکھئے نقشہ) ۔ چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے [جیسے آجکل یو این او کرتی ہے] 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی
یہودیوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق [جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی] 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 125کے قریب فلسطینی اور تقریباً اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جاۓ جبکہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کُچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی