لاہور میں پنجاب حکومت کے زیرِ انتظام جوانوں کا میلہ جاری ہے جن میں دنیا کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں ۔ 20 اور 22اکتوبر 2012ء کو لاہوریوں نے اتحاد اور نظم کا قابلِ قدر مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا
20 اکتوبر کو لگ بھگ 70000 عورتوں مردوں لڑکیوں لڑکوں بچیوں اور بچوں نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف ان کے ساتھ یک زبان مل کر قومی ترانہ گایا ۔ ایک سماں بندھ گیا اور ساتھ ہی قومی ترانہ یک زبان گانے کا دنیا کا ریکارڈ بن گیا
اس سے قبل 25 جنوری 2012ء کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں لوک مت میڈیا لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام 15243 افراد نے بھارت کا قومی ترانہ یک زبان گانے کا ریکارڈ بنایا تھا
منصوبے کے مطابق 24000 طلباء اور اتھلیٹ اور 60000 رضاکار اور ناظرین اس تقریب میں شامل ہونا تھے ۔ تقریب میں موجود گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے کے مطابق قومی ترانہ 42813 افراد نے یک زبان گایا
22 اکتوبر کو 24200نوجوانوں نے پاکستان کا انسانی جھنڈا بنا کر دنیا کا ایک اور ریکارڈ بنایا جس کا اعلان گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے نے بڑے جوش و خروش سے کیا اور اس کی بنیاد اتحاد کو قرار دیا
اس سے قبل ہانگ کانگ میں 21726 افراد نے 2007ء میں انسانی جھنڈا بنایا تھا
”لہور لہور اے (لاہور لاہور ہے)“ کہا جایا کرتا تھا یعنی لاہور اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی حد تک یہ استدلال درست محسوس ہوتا ہے ۔ میں دنوں یا ہفتوں کیلئے لاہور جاتا رہتا ہوں کیونکہ وہاں کچھ عزیز و اقارب رہائش رکھتے ہیں البتہ زیادہ عرصہ کیلئے حصولِ تعلیم کیلئے 4 سال 1960ء تک اور پونے 2 سال فروری 2010ء تک لاہور میں رہائش رہی ۔ پہلی بار تک سوائے راولپنڈی کے کسی اور شہر میں زیادہ رہنے کا موقع نہ ملا تھا لیکن دوسری بار تک میں کئی شہروں میں قیام کر چکا تھا چنانچہ میں مختلف علاقوں میں بسنے والوں کے اطوار کا موازنہ کرنے کے قابل تھا
سلوک کی بات کریں تو لاہور میں اجنبی آدمی کو مدد گار مل جاتے ہیں اور اجنبی کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن شرط ہے کہ برابری کی سطح پر بات کی جائے ۔ لاہور میں پونے 2 سال میں محلہ داروں نے جتنا ہمارا خیال رکھا ۔ اتنا کسی اور شہر میں نہیں دیکھا
لاہور کی ایک خاص بات وہاں دکانداروں کا گاہک کے ساتھ مکالمہ اور سلوک ہے ۔ کسی دکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے کسی وجہ سے رکیں جہاں دکاندار فارغ ہو تو بڑی میٹھی آواز میں بولے گا ” آؤ بھائیجان یا آؤ باجی یا آؤ خالہ جی یا آؤ حاجی صاحب“۔ آپ کہیں ”بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا“۔ بولے گا ”جناب میں نے کب کہا لیں ۔ دیکھ تو لیں ۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے”۔
کھانا لذیذ اور سستا کھانا ہو تو لاہور سے بہتر شہر اور کوئی نہیں ۔ کسی زمانہ میں پشاور میں کھانا سستا اور لذیز ہوتا تھا لیکن اب وہ بات نہیں
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو تحریک لاہور سے اُٹھے یا لاہور میں زور پکڑ جائے وہ کامیاب ہو کے رہتی ہے ۔ لاہوریوں کے سیاسی وصف کی کچھ مثالیں میرے علم میں ہیں
ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے ہندوستان کے باسیوں کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج یا جلسہ جلوس کو روکنے کیلئے 10 مارچ 1919ء کو رولاٹ کا قانون (Rowlatt Act) منظور کیا جس کے نتیجہ میں پہلی جنگِ عظیم میں لگائی گئی ایمرجنسی کی توسیع کر دی گئی جس سے حکومت کو حق مل گیا کہ کسی بھی شخص کو دہشتگرد قرار دے کر 2 سال تک بغیر کسی مقدمہ کی کاروائی کے قید رکھ سکے ۔ اس کالے قانون کے خلاف لاہور میں بہت بڑا اجتماعی احتجاج شروع ہوا جس کو دبانے کیلئے پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر بریگیڑیئر مائیکل اوڈوائر (Michael O’Dwyer) نے لاہور میں اتوار بتاریخ 13 اپریل 1919ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ ساتھ ہی فوج اس حُکم کے ساتھ تعینات کر دی کہ جہاں کوئی احتجاجی نظر آئے اُس پر گولی چلا دی جائے ۔ مارشل لاء کے خلاف لاہور اور امرتسر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سڑکیں اور گلیاں ھندوستان کے باسیوں کے خون سے لال ہونے لگیں ۔ بڑا واقع جلیاں والا باغ امرتسر میں ہوا جہاں مسلمانوں کے ایک پُر امن احتجاجی جلسہ پر فوج نے گولی چلا دی جس سے کم از کم 380 بے قصور لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے
مرزائیوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کے خلاف فروری 1953ء میں پورے مُلک میں احتجاج شروع ہوا مگر پُر زور ۔ ہمہ گیر مگر منظّم احتجاج لاہور میں ہوا اور دن بدن بڑھتا گیا ۔ مُلک کا گورنر جنرل غلام محمد تھا جو کہ مرزائی تھا ۔ لیفٹننٹ جنرل اعظم خان نے 6 مارچ کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا جو 70 دن تک قائم رہا ۔ اس دوران احتجاج نہ رُکا ۔ جلسے جلوسوں پر گولیاں چلائی گئیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ ابوالاعلٰی مودودی اور عبدالستار خان نیازی صاحبان کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں عمر قید اور پھر رہائی میں بدل گئی ۔ اسی مارشل لاء کے دوران گورنر جنرل نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلٰی میاں ممتاز دولتانہ کو چلتا کیا اور پھر 17 اپریل 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت مع کابینہ ختم کر دی ۔ یہ سب کچھ کروانے والا غلام محمد فالج سے اپاہج ہوا اور کافی مدت بے بس بستر پر پڑا رہنے کے بعد مرا
1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بے انتہاء دھاندلی کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا ۔ لاہور میں احتجاج زور پکڑ گیا ۔ پُر امن جلوسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔ اشک آور گیس پھینکی اور گولیاں بھی چلائی گئیں جس سے متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ احتجاج مزید شدید ہو گیا ۔ تو فوج کو لاہور بھیج دیا گیا ۔ انارکلی بازار میں فوج نے سڑک پر لکیر لگا کر جلوس کو متنبہ کیا کہ جو اس لکیر کو پار کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ کچھ دیر کیلئے جلوس رُک گیا ۔ پھر ایک جوان آنکھیں بند کر کے کلمہ شہادت پڑھتا ہوا لکیر پار کر گیا ۔ بندوق چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ اس کے بعد ایک اور جوان نے لکیر پار کی اور ہلاک کر دیا گیا پھر تیسرا جوان آگے بڑھا اور اُسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد پورا جلوس نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور فوجی جوان راستہ سے ہٹ گئے ۔ میرے خیال میں یہی وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ زمین پر نہیں کہیں اور ہو گیا تھا باقی تو زمینی کاروائی بعد میں ہوتی رہی اور اسے پیپپلز پارٹی کے جیالے احمد رضا قصوری کے باپ نواب محمد خان قصوری کو قتل کرانے پر پھانسی ہوئی
14 فروری 2006ء کو لاہور پھر سراپا احتجاج تھا کیونکہ ڈنمارک کے اخبار نے خاکے شائع کر کے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی شان میں گستاخی کی گئی تھی
میرے لاہور میں قیام کے دوران امریکی خُفیہ ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس لاہور شہر کی سڑک پر گولی چلا کر 2 پاکستانی جوانوں کو ہلاک کیا اور اپنی گاڑی بھگا لے جانے کی کوشش کی ۔ اگلے چوراہے پر پہنچنے سے قبل لاہور کے شہریوں کی گاڑیوں نے ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور سبز بتی جل جانے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کے آگے اور دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی رہیں حتٰی کہ کچھ شہری پولیس کو لے آئے اور ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کروا دیا اور تھانے ساتھ جا کر ایف آئی آر بھی کٹوا دی ۔ گو بعد میں وفاقی حکومت نے گول مول طریقے سے اسے رہا کروا کر امریکی حکام کے حوالے کر دیا لیکن لاہوریئے اپنا کام دکھا چکے تھے
ایک اور اچھوتا واقعہ جو کسی اخبار میں نہیں چھپا یا چھپنے نہیں دیا گیا ۔ 2011ء کے وسط میں اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی لاہور گئے ہوئے تھے اور انہوں نے گورنر ہاؤس جانا تھا جو کہ مال روڈ پر ہے ۔ اُن کی حفاظت کی خاطر مال روڈ اور ملحقہ سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ ایک گھنٹے میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں ۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ گرمی کی وجہ سے بِلبلا اُٹھے ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگلی چند گاڑیوں میں سے لوگ نکلے اور ٹریفک روکنے والے سپاہیوں سے ٹریفک کھولنے کا کہا ۔ وہ نہ مانے تو تکرار ہوئی اور پھر کھینچا تانی ۔ پولیس والوں کی مدد کیلئے دور کھڑے دس بارہ رینجر آ گئے ۔ یہ دیکھ کر درجنوں گاڑیوں سے لوگ نکل آئے سب کو قابو کر کے ٹریفک کھول دیا ۔ اتنے میں وزیر اعظم کی سواری ایک سڑک پر نمودار ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک کی طرف گاڑیاں موڑ دیں اور وزیر اعظم صاحب کا قافلہ بھی ٹریفک میں پھنسنے کا مزا لینے لگا ۔ لوگ کہتے پائے گئے ”ذرا اسے بھی تو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہتا ہے“۔
۔۔۔۔۔۔”ذرا اسے بھی تو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہتا ہے“۔۔۔۔۔۔
آخری پیراگراف پڑھ کر بہت ۔ ۔ بہت مزہ آیا ۔ ۔ ۔
شکریہ
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم اجمل صاحب، ایک سوال ہے کہ ، کیا اپنی ہی مملکت کی پولیس یا فوج سے ٹکراؤ کرنا اور انکو اپنے شہروں میں بےبس کرکے انہیں اُنکی سرکاری ڈیوٹی پوری نا کرنے دینا کوئی قابل تحسین عمل ہے؟ اور اگر ایک شہر کے لوگ اپنے ایسے اعمال کو باعثِافتخار سمجھیں تو انکے اس رویئے کو کیا نام دیا جائے گا؟
عبدالرؤف صاحب
پولیس یا دوسرے سرکاری اہلکاروں سے جھگڑنا درست نہیں ہے ۔ مگر بات یہ ہے ”تنگ آمد بجنگ آمد“۔ لاہور میں پنجاب کا وزیرِ اعلٰی شہباز شریف جب گذرتا ہے تو سڑکیں آدھ گھنٹے سے زیادہ بند نہیں ہوتیں اور ایمبولنس کو ایک منٹ سے زیادہ نہ روکنے کا حکم ہے ۔ جس دن یہ واقعہ ہوا بہت گرمی تھی اور لوگ اپنے بچوں کو سکولوں سے لے کر آ رہے تھے ۔ ڈیڑھ گھنٹہ ٹریفک میں پھنسے گذر گیا تو لوگ کاروں سے نکلے ۔ جھغڑے کا باعث یہ تھا کہ پولیس والے اور رینجر بتاتے نہیں تھے کہ ٹریفک کیوں روکا ہوا ہے
محترم اجمل صاحب، سوال صرف آخری پیراگراف میں بیان کیئے گئے واقعے کے تناظر میں نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اُسی جیسے مزید تین واقعات اوپر بھی بیان کیئے گئے تھے، سوال کرنے کا مقصد اہلیانِ لہور کی ہجو نہیں بلکہ صرف یہ جاننا تھا کہ کیا ایسے اعمال کرنا قابل تحسین ہیں کہ نہیں، اور صاحبانِ علم کے یہاں ایسے رویئے کو کیا نام دیا جاتا ہے؟
مزید یہ کہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کی نظر میں ایسے اعمال اور یہ رویہ کیا مقام رکھتا ہے ؟
عبدالرؤف ساحب
سوائے آخری بند میں بیان واقعہ کے باقی واقعات تو انسانی حقوق کے تحت درست تھے ۔ 1953 اور 1977 میں حکومت نے خلافِ آئین قدم اٹھایا اور عوام پر ظلم بھی کیا ۔ انگریزوں کے زمانے میں تو خودی رکھنے والے عوام پر صرف ظلم ہی ہوتا تھا
نئیں ریساں شہر لہور دیاں
لاہورِ لازوال کے حوالے سے ’’ہند میں سرمایہء ملت کے نگہدار‘‘ حضرت شیخ احمد سرہندی رح نے کہیں لکھا ہے ۔۔۔ مفہوم ۔۔۔ ””میں نے اس شہر کے احوال پر غور کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو سکہ یہاں کی ٹکسال میں ڈھلتا ہے وہ پورے ہندوستان میں چلتا ہے۔‘‘
آپ نے کئی برمحل واقعات و مشاہدات لکھے ہیں۔ مجھے بھی دو اہم تاریخی واقعات یاد آرہے ہیں۔
1۔۔انڈین نیشنل کانگرس ایک زمانے تک انگریز کی بغل بچہ تنظیم کے طور پر کام کرتی رہی۔ جب سید الاحرار مولانا حسرت موہانی نے مکمل آزادی یعنی سوراج کو کانگرس کے مقاصد میں شامل کروانا چاہا تو اور کوئی نہیں خود گاندھی جی نے اس کی مخالفت کی۔ پھر برسوں بعد اسی کانگرس نے 1929 میں لاہور میں ہی راوی کنارے اپنے سالانہ اجلاس میں سوراج کا مطالبہ کیا۔
2۔۔۔ 1940 میں لاہور ہی میں ڈھلنے والا الگ مسلم ریاست کے قیام کا سکہ پورے ہندوستان میں چلا اور صرف سات سال کی جدوجہد کے بعد اللہ پاک نے ہمیں یہ مملکت خداداد عطا فرمائی۔
عبداللہ نور صاحب
خوش آمدید ۔ آپ نے درست کہا کہ قرادادِ مقاصد جو اللہ کے فضل سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی لاہور ہی میں منظور ہوئی تھی ۔ میں نے ذکر اسلئے نہیں کیا تھا کہ کم از کم اسے سب پاکستانی جانتے ہوں گے ۔ راوی کے کنارے سوراج کا اعلان میرے علم میں نہیں تھا ۔ اغلب گمان ہے کہ یہ جلسہ اسی میدان میں ہوا ہو گا جہاں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی ۔ کیونکہ راوی اس کے ساتھ بہتا تھا اور راوی کے کنارے کوئی اور مناسب میدان نہ تھا