سندھ حکومت بالخصوص کراچی والوں کا سدا یہ دعوٰی رہا ہے کہ سندھ آمدن زیادہ کر کے دیتا ہے اسلئے اسے اپنی پوری آمدن اخراجات کیلئے دی جائے ۔ سندھ حکومت اور کراچی والوں کا یہ بھی دعوٰی رہا ہے کہ پنجاب کو اس کی آمدن سے زیادہ حصہ دیا جاتا ہے یعنی جو سندھ کماتا ہے اس میں سے پنجاب کو دیا جاتا ہے
قدرت کا اصول ہے کہ نہ جھوٹ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ سچ زیادہ دیر چھُپا رہتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پچھلے مالی سال (یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2012ء) کے اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ غور سے دیکھ لیجئے کہ مظلوم کون ہے اور مظلومیت کے نعرے کون لگاتا ہے ۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت اُنہی سیاسی جماعتوں پر مُشتمل ہے جو سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر حکمران ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ تفصیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان
کُل ریوینیو وصولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 93 ارب ۔ ۔ 3 کھرب 88 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 22 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
مقررہ قابلِ تقسیم ریوینیو ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 8 ارب ۔ ۔ ۔2کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔ ۔
ریوینیو جو صوبے کے پاس رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 ارب ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 50 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 19 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
ٹیکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب
اخراجات کیلئے جو بچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 27 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 10 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 25 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
خسارہ جو صوبے نے ظاہر کیا۔ ۔ ۔ ۔ 8.9 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سال کے کُل اخراجات ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 35.9 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 28 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے
پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد
اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے
پنجاب کے ساتھ زیادتی کیوں اور پھر مفت کی بدنامی بھی۔
مار گئی مروت پنجاب والوں کو
ہمممممم۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ اب کراچی والوں کو اپنے مقدمہ کا از سرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
عمدہ نکتہ ہے۔
اگر برا نا مانیں تو اس صفحہ کو بھی دیکھ لیں ۔ اور اسے بھی بحث میں شامل کرلیں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Economy_of_Karachi#Revenue_collection
میرا خیال ہے کہ دعویٰ ریونیو کلیکشن کا ہے۔ آمدنی کا نہیں۔
سعود صاحب
”مروت“ بنا ہے ”مر“ اور ”وت“ سے ۔ ۔”مر“ تو آپ جانتے ہی ہیں ۔ اور ”وت“ پوٹھوہاری میں ”پھر“ کو کہتے ہیں ۔ گویا ”مر پھر“۔
ڈاکٹر جواد احمد خان
بات اسی ریوینیو یا آمدنی کی ہے جو وفاقی حکومت کے لئے اکٹھی کی جاتی ہی ہے ۔ صوبائی ریوینیو یا آمدنی تو متعلقہ صوبے کے پاس ہی رہتی ہے اور اس کا کوئی دوسرا حساب نہیں لے سکتا
افتخار صاحب، ویسے تو میرے نزدیک یہ بحث ہی فضول ہے، کیونکہ یہ مباحثہ تعصب کو ہوا دے گا، اور یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے، جتنا آپ سمجھ یا سمجھا رہے ہیں، مثلا آپ نے فرمایا کہ صوبائی ریوینیو یا آمدنی تو متعلقہ صوبے کے پاس ہی رہتی ہے ، مگر پنجاب کے کسی ڈرائی پورٹ کا کوئی ذکر نہیںکیا ، اطلاعا عرض ہے کہ پنجاب میں کل 3 ڈرائی پورٹس ہیں ملتان، سیالکوٹ اور تیسرے کا نام ابھی یاد نہیں آرہا، جن کے ذریعے کراچی و سندھ کا صوبائی ریوینیو ، پنجاب چلا جاتا ہے۔ جبکہ متعلقہ تجارتی آمدورفت کے تقریبا تمام اخراجات کراچی و سندھ کو اٹھانے پڑتے ہیں۔
خبر کے مطابق بلوچستان کی آمدنی 151 جبکے اخراجات 115 ارب روپے ہیں، جوکہ پنجاب کے اخراجات کے نزدیک ہے، میری رائے میں تو اگر بلوچستان میں اتنی رقم لگ رہی ہوتی تو بلوچستان جنت نظیر بنا ہوا ہوتا، اور ہر طرف سے انقلاب انقلاب کی آوازیں بلند نہیں ہورہی ہوتی۔
اور میرا سوال یہ بھی ہے کہ جب بلوچستان کی آبادی پنجاب سے کئی گنا کم ہے تو یہ اخراجات کدھر لگ رہے ہیں ؟ جب وہاں ناہی پانی کی ترسیل کا کوئی بہترین بدوبست ہے اور ناہی کسی کے گھر پر گیس میسر ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں کی حالت خستہ ہے، پارکس و تفریح گاہیںناہونے کے برابر ہیں، سڑکیں موجود نہیں اور سرکاری ٹرانسپورٹ کا وہاں سوچنا بھی جرم ہے، مسجد، مدرسہ اور بازار عوام کی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ تو پھر یہ رقم کدھر لگی؟
ارے جناب ایک لمبے عرصے تک اگر بلوچستان کی آمدنی کا بڑا حصہ وفاقی حکومت کی سرپرستی میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زریعے اکبر بگٹی کو گیس کی رائلٹی کے نام سے نا دی جارہی ہوتی تو آج بلوچستان حقیقت میں جنت نظیر بنا ہوا ہوتا۔ یہ تو صرف ایک مثال دی ہے، آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایسی ناجانے کتنی ہی مثالیں ہونگی۔ کہ عوام کے حقوق پر مفاد پرست ٹولے نے آپسی ملی بھگت سے ڈاکہ ڈال رکھا ہے۔ اور عوام کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔
بلوچستان کے شمسی ائیر بیس کو جنرل ضیاء کے دور میں متحدہ عرب امارات کو کرایئے پر دیا گیا تھا؟ کیوں ؟ کیا انکے پاس زمین کی کمی ہے؟ یا پیسے کی؟ اسکا کرایہ کدھر جارہا تھا؟ یاد رہے یہ وہی جگہ ہے جس کو افغانستان و پاکستان کی عوام کو مارنے کے لیئے امریکی و ناٹو کی افواج نے استعمال کیا ہے، دوسری مثال جیکب آباد کے ہوائی اڈے کی ہے۔ کسی کے پاس ہیں جوابات؟ یا پھر میں بھی “غدار” ہوں کہ غلام طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی حدود سے بڑھ کے تلخ سوالات کے جوابات طلب کررہا ہوں ؟
ریکوڈک اور گوادر کو تو بھول ہی گیا تھا، اسکے علاوہ مساجد کی تعمیر میں دبئی کے مخیر شیوخ کا بھی ہاتھ ہے، جبکہ ابئی ہی کے کچھ شیوخ کے بلوچستان میں دلچسپی کے اصل مقاصد درپردہ کچھ اور ہی ہوتے ہیں، خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آج بھی ہمارے صاحبان اختیار و اقتدار ہوش کے ناخن لیں اور حقداروں کو انکا حق دیں تو بلوچستان کے مسائل آسانی سے حل ہوجایئں گے، ورنہ ہم نے ایک بار بنگلہ دیش بنانے کا تجربہ کیا تھا وہی تجربہ پھر سے دھرایا جاسکتا ہے، پھر ناتو کراچی کے پر گھر میں باآسانی سے سستی گیس میسر ہوگی اور ناہی ریکوڈک اور گوادر ہوگا۔
پنجاب کے ڈرائی پورٹس کی اصل کے حوالے سے میری معلومات کچھ کم تھیں ، گوگل سے دریافت کرنے پر علم ہوا کہ فیصل آباد، لاہور، راولپنڈی اور شیخوپورہ میں بھی ڈرائی پورٹس موجود ہیں۔
عبدالرؤف صاحب
ڈرائی پورٹس ہو یا سی پورٹ تمام ریوینو وفاقی حکومت کی ملکیت ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کارخانوں کی پیداوار اور دوسری اشیاء پر جو ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے وہ بھی وفاقی حکومت کی ملکیت ہے ۔ میں نے اپنی تحریر میں اسی ریوینیو کا حساب کتاب پیش کیا ہے
عبدالرؤف صاحب
آپ ایک مختلف بحث چھیڑ رہے ہیں جس سے میری بالا تحریر کا کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے کہیں نہیں لکھا کہ یہ روپیہ بلوچستان ۔ خیبرپختونخوا یا سندھ پر خرچ کیا گیا ۔ خرچ کرنا متعلقہ حکومتوں کا کام ہے ۔ اگر حکمران اپنا بینک بیلنس بڑھا لیتے ہیں تو قصور اُن کا ہے کسی اور کا نہیں ۔ مزید اس بحث میں میں اُلجھنا نہیں چاہتا ۔
شمسی ایئر بیس 17 اگست 1988ء کے بعد متحدہ عرب عمارات کو دی گئی ۔ تصحیح کر لیجئے
عبدالرؤف صاحب
اگر آپ کسی کو اپنے گھر میں گھُسنے کی اجازت نہ دیں تو غیر آپ کے گھر میں کیسے گھُس سکتا ہے ؟
بی بی سی نجانے کہاں کی ہانکتا ہے ۔ پنجاب میں تین ڈرائی پورٹس ہیں ۔ جو ساری ہر کام کیلئے نہیں ہیں
اجمل صاحب، تصحیح کرنے کا شکریہ، اور اگر آپ حقیقی مسائل پر گفتگو کرنے سے گریزاں ہیں تو پھر ادھر وقت برباد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نجانے کب تک ہم خود فریبی کا شکار رہیں گے۔اسلام و علیکم
عبدالرؤف صاحب
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ ۔ یہ بھی تو ایک حقیقی اور اہم مسئلہ ہے ۔ آپ سمجھ نہیں پارہے کہ اس کے پسِ پردہ حقائق کیا ہیں کیونکہ جس زمانہ میں میں نے نوکری کی اور جس طرح میرے اساتذہ نے میری تربیت کی ہم لوگ ہر عمل پر تحقیق کرنے اور اس کی جڑ تلاش کرنے کے عادی ہو گئے ۔ ساتھ ہی اپنے کام اور ارد گرد کے متعلق تمام صورتِ حال ۔ اصول اور قانون کا مطالعہ بھی اپنا شیوہ بنا لیا ۔ عصرِ حاضر کی جواں نسل کی بھاری اکثریت کے علمی دعوے بہت ہیں اور اُنہوں نے اسناد تو اکٹھی کر لیں ہیں مگر علم حاصل کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اب سُنیئے کہ مندرجہ بالا تحریر کا محور ہے بد دیانتی اور لُوٹ مار ۔ جب سرکاری اداروں کا بجٹ منظور ہوتا ہے تو یوٹیلیٹیز (بجلی ۔ ٹیلیفون ۔ پانی ۔ قدرتی گیس) کیلئے ماضی کے اخراجات اور قیمتوں میں چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھ کر پورے پیسے دیئے جاتے ہیں اور ان پیسوں کو کہیں اور خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں گیا ؟
سرجی ، الحمد اللہ، آپ کے سوال کا ادراک کرچکا تھا، جبھی تو میں نے یہ سطریں لکھی تھیں:
“ارے جناب ایک لمبے عرصے تک اگر بلوچستان کی آمدنی کا بڑا حصہ وفاقی حکومت کی سرپرستی میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زریعے اکبر بگٹی کو گیس کی رائلٹی کے نام سے نا دی جارہی ہوتی تو آج بلوچستان حقیقت میں جنت نظیر بنا ہوا ہوتا۔ یہ تو صرف ایک مثال دی ہے، آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایسی ناجانے کتنی ہی مثالیں ہونگی۔ کہ عوام کے حقوق پر مفاد پرست ٹولے نے آپسی ملی بھگت سے ڈاکہ ڈال رکھا ہے۔ اور عوام کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔”
مگر افسوس اس بات پر ہے کہ آپ صرف پنجاب کی مظلومیت/حقانیت اور سندھ کی بدمعاشی تک ہی محدود رہنا پسند کررہے ہیں، جبکہ میرے نزدیک پاکستان کے موجودہ مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ “دہشت گردی/خانہ جنگی” کا ہے، جس پر اگر جلد از جلد قابو نہیں پایا گیا تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو سقوط ڈھاکہ کے اسباب بھی کچھ ملتے جلتے ہی تھے۔ میں صرف اتنی سی کوشش کررہا تھا کہ ہمارے سوچنے والے لوگوں کو اس بات کا ادراک کرادوں کہ اگر خدارا ایک دوسرے کو ملک دشمن اور غدار سمجھنے کے بجائے ان مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں جن کے سبب ملک خداداد کے استحکام کو سخت خطرہ ہے۔
آپ کو اپنا تعارف تو کراچکا ہی ہوں، اب یہ بھی بتادؤں کہ اگر میں تعلیم یافتہ نہیں ہوتا یا پھر مجھ پر معاشی زمہ داریاں نہیں ہوتیں تو شائد کراچی کے پاسپورٹ آفس والے واقعے کے بعد میں بھی سب کچھ جاننے بوجھنے کے باوجود بھی آزادئ بلوچستان کا ایک سرفروش سپاہی ہوتا، کہ کوئی اپنوں کے ہاتھوں کب تک ظلم سہہ سکتا ہے؟ اس بات سے آپ اندازہ لگالیں کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے کیا جذبات ہونگے؟ جن کو چند مفاد پرست لوگ اپنے مفاد میں استعمال کررہے ہیں، ورنہ ہم تو آج بھی کمی و غلام ہیں اور کل بھی کمی و غلام ہی رہیں گے، ہمارے حکمران آج بھی ہمارے سردار ہیں اور وہ کل بھی ہمارے حکمران رہیں گے۔ اس میں پاکستان سے پیار کرنے والے لوگوں کے لیئے نصیحت پوشیدہ ہے۔ سمجھنا اور نا سمجھنا آپ پر منحصر ہے۔
چونکہ کراچی کا کافی نمک کھایا ہے، اسلیئے عرضکردوں کہ ڈرائی پورٹ کا قصہ اسلیئے چھیڑا تھا کہ اس بات کا اشارہ سے دوں کہ کراچی و بلوچستان کو مجبوری یا ذبردستی سے ساتھ ملائے رکھنا پنجاب کی مجبوری ہے، کہ اسکے پاس سمندر نہیں ہے، جبکہ کراچی و سندھ کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔
اس لیئے ان علاقوں میں امن و امان قائم کرنا اور انصاف کا بول بالا کرنے میں پنجاب / اسٹیبلشمنٹ کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا، صرف لڑاؤ اور حکومت کرو والی پالیسی زیادہ دیر تک چلنے والی نہیں ہے۔ کیونکہ جب پاکستان ہی نہیں بچے گا تو حکومت کس پر کی جائے گی؟
جناب بات تو آ پ ک صحیح لگتی ہے …
ایک بات ک وضاحت ضرور چاہوں گا کہ … یہ ریوینو کی تقسیم نیے NFC ایوارڈ کے بعد کی ہے ….؟؟؟
عبدالرؤف صاحب
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے کہ مجھے ایسے ایسے تجربوں سے گزارا کہ بیان کروں تو لوگ حیران ہوں اور کئی ماننے سے انکار کر دیں ۔ 48 سال جھوٹ اور بدیانتی کے خلاف جد و جہد میرا روز مرہ کا معمول رہا ۔ اب میری صحت اجازت نہیں دیتی اسلئے چند سالوں سے صرف سرکاری دستاویزات سے حقائق تلاش کر کے کبھی کبھی لکھ دیتا ہوں اور اس پر مجھے تعصب کے طعنے سننا پڑتے ہیں ۔ آپ نے کہا تھا کہ بلوچستان کی حالت کیوں نہیں بدلی ۔ فرض کیجئے کہ ایک سڑک بنانے کی منظوری ہوئی ۔ لاگت 100 روپے تھی ۔ اس میں سے صرف 20 روپے سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو دیئے جاتے ہیں جو وہ بھی اپنے بنک میں جمع کرا دیتا ہے ۔ بتایئے حالت کیسے بلے گی ؟
نعمان صاحب
میں نے لکھا ہوا ہے کہ یہ اعداد و شمار یکم جولائی 2011ء سے 30 جون 2012ء تک کے ہیں ۔ این ایف سی ایوارڈ پر کتنا عمل ہوا ہے کیا آپ جانتے ہیں ؟ آپ کی اطلاع کیلئے یہ بھی لکھ دوں کہ پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے اپنے بادشاہ کے کہنے پر 10 ارب روپیہ سندھ کو بطور تحفہ این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ بھی دیا
کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے ریاست کی بنیاد ایسی فیڈریشن پر ہو جہاں صوبوں کو اپنے محل وقوع اور جغرافیہ میں آنے والی ہر آمدنی اور معدنیات کے پورے یا ایک بڑے حصہ سے استفادہ کا حق حاصل ہو اور وہ فیڈریشن کو دفاع ، کرنسی اور دوسرے امور مملکت چلانے کے لیے ایک معقول رقم دینے کے پابند ہوں۔
اس طریقہ سے سب کے شکوے ختم ہوسکتے ہیں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام اپنے مسائل کے ھل کے لیے وفاق پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ہی ووٹوں سے منتخب کیے گئے لیڈروں کا احتساب کرنے کا سوچیں اور بقول آپ کے پنجاب کو بھی ایک بڑی رقم قابل تقسیم ریوینیو کی مد میں دے کر ناانصافی سے بچالیا جائے؟
سوال : فرض کیجئے کہ ایک سڑک بنانے کی منظوری ہوئی ۔ لاگت 100 روپے تھی ۔ اس میں سے صرف 20 روپے سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو دیئے جاتے ہیں جو وہ بھی اپنے بنک میں جمع کرا دیتا ہے ۔ بتایئے حالت کیسے بدلے گی ؟
جواب : ہر صورت میں ارباب اختیار قصور وار ہیں، ادھر دبئی میں کوئی ایسا کرنے کی سوچے بھی تو اسکی اگلی کئی پشتیں اپنا شجرہ چھپانے پر مجبور ہو جایئں۔
بحرحال مباحثہ یہیں پر ترک کر رہا ہوں، کہ مجھ کو جو بات پہنچانی تھی وہ بخوبی پہنچا چکا ہوں، اور ہاں آپ کو متعصب نہیں کہا ہے، اگر انجانے میں میرے الفاظ سے آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو تو دلی معذرت قبول فرمایئے۔
اسلام و علیکم۔
رؤف صاحب صحیح نکتہ کا ذکر کیا
” اطلاعا عرض ہے کہ پنجاب میں کل 3 ڈرائی پورٹس ہیں ملتان، سیالکوٹ اور تیسرے کا نام ابھی یاد نہیں آرہا، جن کے ذریعے کراچی و سندھ کا صوبائی ریوینیو ، پنجاب چلا جاتا ہے۔ جبکہ متعلقہ تجارتی آمدورفت کے تقریبا تمام اخراجات کراچی و سندھ کو اٹھانے پڑتے ہیں۔”
محترم اجمل صاحب ……..اگر یہ اعداد و شمار نیو NFC اوارڈز کے بعد کے ہیں …
تو بات واضح ہے کہ اس دن کے لیے تو اتنے جد و جہد ہوئی ….
ڈاکٹر جوادصاحب ایسی فیڈریشن کے خواب تو ہم دیکھ رہے ہیں ….
لیکن کیا کریں فرشتہ صفت لوگوں کو ایسا وفاق قبول ہے جہاں ..ایک اکائی باقی تین سے بھاری ہوتی ہے …بلکہ انکے مجمویے سے بھی بھاری ہوتی ہے …ایسا صرف اکستان کے فرشتوں کو ہی قبول ہو سکتا ہے ….
اسے حالات میں سب اکاےوں کوقابل قبول NFC ایوارڈ لانے میں دہایاں لگ جاتی ہیں …
رؤف صاحب لکھتے ہیں …
مگر افسوس اس بات پر ہے کہ آپ صرف پنجاب کی مظلومیت/حقانیت اور سندھ کی بدمعاشی تک ہی محدود رہنا پسند کررہے ہیں، جبکہ میرے نزدیک پاکستان کے موجودہ مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ “دہشت گردی/خانہ جنگی” کا ہے، جس پر اگر جلد از جلد قابو نہیں پایا گیا تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔…
جناب رؤف صاحب وطن عزیز کے حالات تو ٹھیک ہیں ….آپ شاید اخبارات نہیں پڑھتے …. حالات تو کراچی . بلوچستان اور خیبر کے خراب ہیں …
وطن عزیز کے تو حالات ٹھیک ہیں …
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
لُٹیرے صوبوں میں بھی ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سب کا سردار ملک کا بادشاہ بنا دیا گیا ہے
عبدالرؤف صاحب
اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں قانون کا نفاذ صرف مجبور آدمی کو تنگ کرنے کیلئے کیا جاتا ہے ۔ ذرا اپنے ہموطنوں سے عربوں کے متعلق بات کیجئے ۔ ہزاروں کیڑے اُن میں نکال دکھائیں گے
نعمان صاحب
کبھی ڈرائی پورٹ اور کراچی پورٹ سے مال منگوایا ہے یا وہاں جا کر ڈیلینگ دیکھی ہے ؟ یہ ناعلمی کا نتیجہ ہے کہ ” ڈرائی پورٹس کے ذریعے کراچی و سندھ کا صوبائی ریوینیو ، پنجاب چلا جاتا ہے۔ جبکہ متعلقہ تجارتی آمدورفت کے تقریبا تمام اخراجات کراچی و سندھ کو اٹھانے پڑتے ہیں“۔ کراچی والے پورے اخراجات وصول کرتے ہیں اور مال پر ڈیوٹی پنجاب کو نہیں ملتی بلکہ مرکزی حکومت لے جاتی ہے ۔ ہاں یاد آیا کہ کراچی والے تو ہر مال پر جگا ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں جیسا کہ میرے ساتھ بھی کیا تھا ۔ میں 1983ء میں غیر ملکی ڈیپوٹیشن سے واپس آیا تو پرسنل بیگیج میں ایک کار جاپان سے منگوائی ۔ کار یکم فروری کو کراچی پہنچی اور اس کا کسٹم وغیرہ ادا کر دیا گیا جب ایجنٹ پورٹ سے کار نکلوانے گیا تو کہا گیا پہلے 4000 روپے کراچی کارپوریشن کے اکاؤنٹ میں بطور ضمانت جمع کراؤ کہ کار کراچی سے باہر چلی جائے گی ۔ اگر 30 دن کے اندر کار کراچی سے باہر چلی گئی تو واپس مل جائیں گے ۔ 4000 روپے جمع کرائے گئے ۔ پھر ایجنٹ کار لینے گیا تو کار نہیں دی گئی کہ ہم خود بھجوائیں گے بذریعہ ٹرین ۔ اس کے بعد ایجنٹ نے ہر جتن کر لیا مگر کار 35 دن تک ٹرین پر نہ چڑھ سکی اور 40 دن بعد کراچی سے نکلنے دی گئی ۔ سو مجھ سے 4000 روپے جگا ٹیکس وصول کیا گیا جب کہ کار کی لینڈڈ قیمت 28800 روپے تھی یعنی جگا ٹیکس لگ بھگ 14 فیصد
میں اسی لئے کہتا رہتا ہون کہ مجے زیادہ مجبور نہ کیا کریں ۔ میں ہوا میں باتیں کرنے کا عادی نہیں جو میرے ہموطنوں کی اکثریت کا محبوب مشغلہ ہے
تو حضرت آپ پہلی دفعہ میں ہی پورا بتا دیاں کریں نہ —-
میرا تجربہ تو یہ ہے کہ … قوم پرستوں نے جس معاملے پر طوفان اٹھایا کے ہمارے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے …
اس میں سے اکثر جھوٹے یا لا علمی کا نتیجہ نکلے …
ویسے میری ذاتی راۓ میں سندھ اور بلوچستان کے معاشی حالات اس نیو NFC ایوارڈز کے بعد بھی صحیح نہیں ہوتے نظر نہیں آ رہے …
ویسے میں مانتا ہوں کہ sea PORTS اور DRY ports صوبائی یا مقامی حکومت کے ما تحت ہونے چاہیں….
جیسا کہ شروع میں بلوچ قوم پرستوں کا مطالبہ تھا .. جو نہ مانا گیا .. اب وہ پورٹ ہی بند پڑی ہے ..
وجہ اس کی میرے نزدیک یہ ہے کہ . جو وسائل نقل حرکت چاہیں یا دوسرے مقامی وسائل .. وہ عام بجٹ سے پورے نہیں ہو سکتے …
کراچی پورٹ کے ارد گرد کے سڑکیں اس وقت بہتر ہوئیں جب پورٹ نے اسے بنایا … یا فلائی اورز بنانے کی سکت نہ صوبائی حکومت میں تھی اور نہ ہی مقامی حکومت میں …
اب اگر کسی طرح صوبائی یا مقامی حکومت انھیں بنوا بھی دیتی تو قوم پرستوں کی ہاتھ میں نیا ا یشو ہوتا کی پورٹ سٹی میں اتنا بجٹ لگتا ہے اور ہمارے گاؤں میں فی فرد اتنا ….
حالانکہ وہ بجٹ نہ تو افراد پہ لگا ہوتا اور نہ ہی شہر کی کونے میں وہ سڑکیں اور فلائی اورز لوگوں کی زیادہ کام آنے ہیں … بلکہ وہ تو تجارتی ضرورتیں ہیں
افتخار صاحب : عربوں کا ذاتی تعصب اپنی جگہ، مگر آپ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے ہیں، یہاں دوبئی میں قانون کا راج ہے، چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت بلا خوف و خطر آپ کہیں بھی گھوم پھر سکتے ہیں، آپ کو یہ امن و امان دنیا کے کسی بھی شہر میںمیسر نہیں آئے گا۔
نعمان صاحب : اگر آپ مجھ کو بلوچ قوم پرست سمجھ کر تبصرے کر رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں، میں قوم پرست نہیں بلکہ حق پرست ہوں، مگر متحدہ والا جعلی حق پرست نہیں ہوں۔
عبدالرؤف صاحب
جہاں بھی قانون کی بالادستی ہے وہاں یہی صورتِ حال ہے ۔ میں متحدہ عرب امارات پہلی بار 1975ء میں ۔ سعودی عرب پہلی بار 1978ء میں گیا اور لیبیا میں 1976ء سے 1983ء تک رہا ۔ سب جگہ قانون کی عملداری دیکھی ۔ ہمارے ہاں تو قانون کی خلاف ورزی قابلِ فخر سمجھی جاتی ہے
رؤف صاحب :
میں آپکو قوم پرست نہیں سمجھتا .. ….. بلکہ آپکے تبصرے پر تبصرہ اس لئے کیا … کیونکہ مختلف دوسرے بلاگز پر بھی آپکے تبصرے پڑھے ..
حالیہ تبصروں میں کیونکہ گنجایش تھی کے تائید کی جا سکے اس لئے تائید کی ….
آپ فکر مند نہ ہوں
ویسے کہتے متحدہ والے بھی یہی ہیں کہ انکے سوا سب جعلی حق پرست ہیں … باقی آپ خود سمجھدار ہیں
نعمان صاحب:
میں قطعئی فکر مند نہیں ہوں، بس وضاحت کرنی ضروری سمجھا تھا سو کردی۔
باقی چونکہ ہر بلاگر نے اپنے اپنے بلاگ پر اپنے خیالات ترویج کے لیئے اپنے حساب سے ایک محفل جمائی ہوئی ہوتی ہے، تو تبصرے بھی لازما اسی محفل کے رنگ کے حساب سے ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم اس بات کا خیال نا رکھیں تو ہماری بات غیر متعلقہ ہی سمجھی جایئے گی۔
اوپر کسی نے طنز کیا ہے کہ آگ صرف کراچی ۔ خیبر۔ اور بلاچستان میں لگی ہے ۔ اور پنجاب کو طنزاََ وطن عزیز لکھا ہے۔ جس سے کہنے کا شاید مقصد پاکستانی فوج یا ان اداروں پہ طنز کرنا مقصود ہے۔ جو پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی بات کرتے ہوئے وطنِ عزیز جیسی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ خیر کون کسے وطنِ عزیز کہتا یا سمجھتا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ بوری بند مافیا جس نے کئی دہائیوں سے کراچی کو اوہ اہل کراچی کو آگ اور خون میں نہلا رکھا ہے۔ وہ مافیا کراچی سے تعلق رکھتی ہے اور بوری بند لاشیں ان کا ٹریڈ مارک ہے۔ اور اپنے ہی “پرستوں” سے بھتہ وصول کرتی ہے۔ عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی پہ الزام رکھنے سے پہلے اپنی منجی کے نیچے ڈنگوری پھیرتے ہیں۔ جب ڈیڑھ فٹے رہنماء اور باشتئیے قائد بن جائیں تو ” پرستوں” کا یہی حال ہوتا ہے۔
خیبر پختون خواہ کی حالت زار اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا آغاز کرنے کا ذمہ دار بھی ننگ ملت جنرل مشرف تھا جسے کراچی کی بوری بند مافیا سر آنکھوں پہ بٹھاتی رہی ہے۔
پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں۔ ڈیڑھ فٹے اور بالشتئے پنجاب میں بھی بہت ہیں مگر عام عوام نے ہمیشہ خود محنت کی ہے اور اپنے لئیے وسائل پیدا کئیے ہیں۔ اور بوری بند مافیاؤں کے دہشت کے سامنے جھکے نہیں بلکہ جان دے کر ایسی گھٹیا مافیاز کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔انکے خمیر میں شامل ہے کہ وہ دوسرے احترام کرتے ہیں اور اپنے لئیے احترام کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اور یہ ایک اضافی وصف ہے ۔ جس پہ بوری بند مافیا کے ہاتھوں کراچی کو آگ اور خون میں نہلانے پہ مافیا کے ستائے لوگوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئیے بلکہ انھیں سبق سیکھنا چاہئیے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شاید ہی اہل پنجاب سے میں سے کبھی کسی نے بلوچستان ، خیبر پختون خواہ ، سندھ ، کشمیر ،کراچی یا پاکستان کے کسی بھی حصے علاقے اور شہریوں کے لئیے محبت اور بے پناہ محبت کا اظہار نہ کیا ہو۔ اہل پنجاب ۔ پاکستان کے کسی بھی حصے یا اسکے شہریوں کو ہمیشہ عزت احترام اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انکی کامیابیوں پہ خوش ہوتے اور فخر کرتے ہیں ہیں اور انکی ناکامیوں اور تکلیفوں پہ دکھی ہوتے ہیں۔ جبکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے دوسرے حصوں سے کچھ مخصوس لوگ اپنی ناکامیوں کا کا سارا ملبہ پنجاب پہ ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں ۔ ایسی حرکت کرنے والوں کو انگریز شتر مرغ قرار دیتے ہیں اور شتر مرغ کا ریت میں سر چھپا لینے اور پیٹھ اٹھا لینے کا واقعہ سمجھ تو آتا ہوگا؟۔ نہیں تو پنجابی کی مثال ہے ۔ پہلے اپنی منجی تھلے ڈنگوری پھیر لو۔ ایں جی۔ اور نفرتوں کو سیاسی تکنیک بنانا چھوڑ دو کہ ایسی تکنیکوں میں لعنتیں مذمتوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور بندہ مفت میں مخلوق خدا اور اور خالقِ مخلوق کا مجرم ٹہرایا جاتا ہے۔ این جی۔
جاوید گوندل صاحب :
اوپر میرے سب سے پہلے تبصرے میںآپ نے پڑھا ہوگا کہ، میرا خدشہ تھا کہ ، یہ مباحثہ تعصب کو ہوا دیگا، اور وہی ہوا، کہ اب ہم لوگ صوبائی تعصبات کو لیکر اصل مسائل سے صرف نظر کر رہے ہیں۔
اطلاعا عرضہے کہ بلوچستان میںلگائی ہوئی آگ آج کوئی مشرف سیاہ کارنامہ نہیں ہے، بلکہ اس نے تو صرف جلتی پر پٹرول ڈالا ہے، ورنہ بلوچستان کے ساتھ پاکستان کے مختارکاروں کی طرف سے کی جانے والی ناانصافی کی داستان کافی طویل ہے، مشرف نے تو ادھر پانچواں فوجی آپریشن شروع کیا ہے، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ پچھلے چار آپریشن کس نے اور کیوں کیئے تھے؟
باقی رہی “بوری بند مافیا” اور اسکے قائد کی بات تو جناب آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان سب کے مائی باپ تو وہی مقدس پاکستانی فوج وہ اداروں ہیں جو کہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی بات کرتے ہوئے وطنِ عزیز جیسی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یہ وہی ہیں جوکہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناتے وقت بھی وطنِ عزیز کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ الطاف حسین کبھی بھی میرا قائد نہیں رہا، متحدہ یا حقیقی سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نا ہی میں بنگالی ہوں۔
آپ لوگ اس بات کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں کہ کراچی و بلوچستان کو مجبوری یا ذبردستی سے ساتھ ملائے رکھنا پنجاب کی مجبوری ہے، کہ اسکے پاس سمندر نہیں ہے، جبکہ کراچی و بلوچستان کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ جب بات چلی ہے تو اس بات کی وضاحت بھی کردوں کہ جتنی قوم پرستی بلوچ، پٹھان اور سندھی اقوام میں پائی جاتی ہے، اتنی ہی قوم پرستی پنجابی اقوام میں بھی پائی جاتی ہے، مگر مسئلہ ادھر کھڑا ہوتا ہے جب یہی قوم پرستی تعصب میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ میں نے خود اپنے گناہگار کانوں سے ایک پنجابی کو یہ کہتے سنا ہے کہ پینجاب ہی تو اصل پاکستان ہے، مانا کہ یہ صرف ایک جاہل شخص کا بیان ہے جس کو پوری قوم پر فٹ کرنا نا انصافی ہوگی، مگر ہم اس بات کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ایک عام آدمی کا بیان پوری قوم کے رویئے کی ترجمانی بھی تو کرتا ہے نا۔
بحرحال مجھ کو کسی بھی پاکستانی سے کوئی تعصب نہیں ہے، مگر میں کسی کا تعصب سہنا اور برداشت کرنا بھی پسند نہیںکرتا ہوں۔
Pingback: غلط فہمی۔رنجش اور اعتراضات۔ « بے لاگ :- -: Be Laag
محترم عبدالرؤف صاحب صحت مند مباحث ہی صحت مند معاشروں کی ضامن ہوتی ہے۔ مباحت ہوتی رہے تو اصل مسائل اور حقائق کا پتہ چلاتے ہوئے مناسب اور جائز حل تجویز کئے جاسکتے ہیں۔ ورنہ دائروں میں بند ہوکر۔ دائروں کے سفر سے۔ مذید پڑھنے کے لئیے از راہ کرم یہاں کلک کیجئیے۔
معذرت میں نے یہ تحریر آج ہی دیکھی ، میں کیونکہ خود ٹیکس کا وکیل ہوں اس لیے یہ عداد وشمار دلچسپی کا باعث ہیں۔
فضول بحث میں نہیں پڑوں گا ۔ سیدھی بات کروں گا-
پہلی بات چاہے آپ کی خواہش کچھ بھی ہوں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کر لیجے کہ پورے پاکستان میں جمع ہونے والے ٹیکسیس کا 60 سے 70 فیصد صرف سندھ بلکہ کراچی سے جمع ہوتا ہے ۔
دوسری بات اس تحریر میں جو اعداد و شمار لیے گئے ہیں ، انہیں شائد غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ میں درست کرکے پیش کر رہا ہوں، صرف سندھ اور پنجاب کے آمدنی کے ذرائع دے رہا ہوں کیونکہ باقی دو صوبوں کے آمدنی کے اعداد و شمار مکمل نہیں۔
تفصیل پنجاب سندھ
ارب روپے ارب روپے
قابلِ تقسیم ریوینیو سے ملا (NFC) 508 238
صوبہ نے ٹیکس جمع کیا 42 60
صو بہ کی دوسرے ذرائع سے آمدنی 43 90
کل صوبائی ذرائع سے آمدنی 85 150
کل صوبائی آمدنی 593 388
سندھ پنجاب تفصیل
ارب روپے ارب روپے
238 508 قابلِ تقسیم ریوینیو سے ملا (NFC)
60 42 صوبہ نے ٹیکس جمع کیا
90 43 صو بہ کی دوسرے ذرائع سے آمدنی
150 85 کل صوبائی ذرائع سے آمدنی
388 593 کل صوبائی آمدنی
تفصیل کے لیے یہ لینک دیکھے، لیکن یاد رھے ، اس لینک کے اعداد پنجاب حکومت کے سال کے شروع کے اندازے ہیں، جب آپ کے دیے گئے اعداد تازہ ہیں یعنی سال ختم ہونے کے بعد کے ۔ سال کے شروع میں پنجاب حکومت کا کل آمدنی کا اندازہ 654 ارب کا تھا جس میں سے این ایف سی کا حصہ کا اندازہ 530 ارب تھا ۔
http://www.pndpunjab.gov.pk/1CB874DD-EE9E-4FBB-85A6-399651FBF019/FinalDownload/DownloadId-D778E83CE9A245D0DF2FF5BEEF960440/1CB874DD-EE9E-4FBB-85A6-399651FBF019/user_files/File/WhitePaper040711.pdf
سعود الحسن صاحب
میں نے وفاقی حکومت کے شائع شدہ اعداد و شمار نقل کرنے کے بعد ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں ہر قسم کی آمدنی شامل نہیں ہے ۔ جو اعداد و شمار آپ نے تحریر کئے ہیں یہ بالکل بدل جائیں اگر جس صوبے میں مال بنتا ہو اس مال پر ہر قسم کا ٹیکس یا ڈیوٹی وہی صوبہ وصول کرے اور درآمد شدہ مال کی کھپت جس صوبے میں ہو وہی درآمد شدہ مال پر ہر قسم کا ٹیکس یا ڈیوٹی وہی صوبہ وصول کرے ۔ اسی اصول کی بنیاد پر قدرتی گیس کے استعمال پر صوبہ سندھ کو اتنی ترجیح دی جاتی ہے کہ سندھ میں سی این جی سٹیشنز کی گیس سپلائی بھی کبھی 24 گھنٹے سے زیادہ بند نہیں کی گئی جبکہ فیصل آباد کی انڈسٹری کو گیس کی سپلائی ہر ہفتے میں 3 سے 4 روز کیلئے بند کی جاتی ہے
غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے
پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد
کیونکہ آپ ان اعداد درست نہیں سمجھ سکے اس لیے آپ نے نتیجہ بھی غلط نکالا ، اصل بات یہ ہے کہ
پنجاب کا سال 2011-12 کی کل آمدنی (بجٹ) 593 ارب تھی جس میں سے 508 ارب روپے وفاقی حکومت نے اسے این ایف سی اوارڈ کی مد میں دیے ، جبکہ پنجاب نے خود اپنے ذرائع سے 85 ارب کی آمدنی حاصل کی –
جبکہ سندھ کا سال 2011-12 کی کل آمدنی (بجٹ) 388 ارب تھی جس میں سے 238 ارب روپے وفاقی حکومت نے اسے این ایف سی اوارڈ کی مد میں دیے ، جبکہ سندھ نے خود اپنے ذرائع سے 150 ارب کی آمدنی حاصل کی –
ان اعداد کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کس صوبہ سے نے وفاق کو کتنا کما کر دیا –
اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے
اخراجات کے حوالے سے بھی آپ کا تجزیہ غلط ہے ، بلکل سامنے کی بات ہے ۔ اگر پنجاب کی کل آمدنی 593 ارب روپے تھی اور اس کا سالانہ خسارہ 9 ارب روپے تھا تو اس کا مطب ہے کہ پنجاب حکومت کے اخراجات تقریبا 584 ارب ہوے ، جبکہ اس کے مقابلہ میں سندھ کے اخراجات 360 ارب ہوے یعنی پنجاب سے تقریبا ٪38 کم۔
“میں نے وفاقی حکومت کے شائع شدہ اعداد و شمار نقل کرنے کے بعد ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں ہر قسم کی آمدنی شامل نہیں ہے ۔
جو اعداد و شمار آپ نے تحریر کئے ہیں یہ بالکل بدل جائیں اگر جس صوبے میں مال بنتا ہو اس مال پر ہر قسم کا ٹیکس یا ڈیوٹی وہی صوبہ وصول کرے اور درآمد شدہ مال کی کھپت جس صوبے میں ہو وہی درآمد شدہ مال پر ہر قسم کا ٹیکس یا ڈیوٹی وہی صوبہ وصول کرے ۔
اسی اصول کی بنیاد پر قدرتی گیس کے استعمال پر صوبہ سندھ کو اتنی ترجیح دی جاتی ہے کہ سندھ میں سی این جی سٹیشنز کی گیس سپلائی بھی کبھی 24 گھنٹے سے زیادہ بند نہیں کی گئی جبکہ فیصل آباد کی انڈسٹری کو گیس کی سپلائی ہر ہفتے میں 3 سے 4 روز کیلئے بند کی جاتی ہے”
امید ہے کہ آپ نے پنجاب حکومت کے 12-2011 کی وہ بجٹ دستاویز دیکھ لی ہوگی جس کا میں نے اپر لنک دیا ہے، اور آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ نے اپر دیے گئے اعداد و شمار کو غلط سمجھا اور اس وجہ سے غلط نتائج بھی نکالے۔ دوسرا یہ کہ جو آمدن اوپر دی گئی ہے اس میں صوبوں کی تمام زرائع سے آمدن شامل ہے۔
جہاں تک بات رہ گئی آپ کے اوپر دیے گئے آمدن اور ٹیکس کے حوالے سے دلائل ، تو میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اس حوالے سے آپ سے بحث کی جاے ، کیونکہ مجھے اچھی طرح سے انداذہ ہوگیا ہے کہ یہ آپ کا مہارت کا موضوع نہیں ہے، لہذا اس حوالے سے آپ سے بحث کرنا یا آپ کا بحث کرنا پنجاب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
صرف ایک حواالہ دوں اپر آپ نے ایک ہی سانس میں کہ دیا کہ اگر جس صوبے میں مال بنتا ہو وہی صوبہ ٹیکس وصول کرے ، درامد کی صورت میں جہاں کھپت ہو وہاں ٹیکس دیا جاے۔ اور مثال آپ نے دے دی گیس کی۔
جناب جبکہ پنجاب کے ٹیکس ماہر کہتے ہیں کہ ٹیکس ہر حال میں وہاں لگے جہاں کھپت ہو، جبکہ باقی صوبہ کہتے ہیں کہ ٹیکس وہاں لگے جہاں پیداوار ہو۔ لیکن اس دلیل کا تعلق سندھ میں گیس کی زیادہ سپلای سے نہیں وہ قدرتی وسایل پر صوبوں کے پہلے حق کا معاملہ ہے۔ ورنہ تو سوئی سدرن کراچی میں ٹیکس دیتی ہے جبکہ سوئی نادرن لاھور میں، اس کے باوجود کہ گیس کی پیداوار سندھ یا بلوچستان میں ہوتی ہے، یا واپڈا اپنی پورے پاکستان کی آمدنی پر لاھور میں ٹیکس دیتا ہے۔
محتر گوندل صاحب ،،،
بات آپ نے مبینہ طور پر MQM اور اسکے بھگوڑے قائد سے شروع کی … اور انکی کھل کے برائیاں لکھیں …
پھر فرمایا “پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتیں۔ ڈیڑھ فٹے اور بالشتئے پنجاب میں بھی بہت ہیں مگر عام عوام نے ہمیشہ خود محنت کی ہے اور اپنے لئیے وسائل پیدا کئیے ہیں۔ ”
جناب آپکا کیا خیال ہے .. کراچی والے … یا پنجاب کے علاوہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے محنت نہیں کرتے ….
اضافی وصف اور دوسروں سے ا علیٰ ہونے کی بات چھوڑیں .. یہ دیکھیں ……..کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا …
کچھ وصف تو آپنے کراچی والوں کے مقابلے میں اضافی گنواۓ اپنے صوبوں والوں کے …
لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں پاکستان کے دوسرے رہنے والوں کے مقابلے میں آپ حضرات کتنے بہتر ہیں …. اور انکے مقابلے میں کیا اضافی اوصاف ہیں .. جو باقی لوگوں کے پاس نہیں ہیں …
آپ اپنے اسلوب پر خود غور کریں …. MQM کی آڑ میں اپنا تعصب نکالنا اچھی بات تو نہیں ….
میری آپ حضرات سے ہمیشہ یہ ہی گزارش رہی ہے کہ .. بھتا خوروں کے نام پر کراچی والوں کو یا اردو بولنے والوں کو برا کہنے کی روش چھوڑیں …
پھر بات کریں ڈائلاگ کی ….
ہو سکتا ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں …
لیکن جناب ڈائلاگ ہوتا ہی انکے درمیان ہے .. جن کی آپس میں بنتی نہ ہو یا رنجشیں ہوں ….
آپکا لکھا ہوا مضمون پڑھ لیا ہے انشاللہ اس پر بھی بات ہو گی …
محترم سعود الحسن صاحب: تصحیح فرمالیں کی “سوئی گیس” بلوچستان کے علاقے “سوئی” کے مقام سے نکلتی ہے، اور اسکی رائلٹی “اکبر بگٹی” کی دی جاتی تھی، اب کا علم نہیں کہ کس کو دی جارہی ہے۔
اور اکاؤنٹنگ کے حساب سے یہ سطر غلط ہے: اگر پنجاب کی کل آمدنی 593 ارب روپے تھی اور اس کا سالانہ خسارہ 9 ارب روپے تھا تو اس کا مطب ہے کہ پنجاب حکومت کے اخراجات تقریبا 584 ارب ہوے۔ کیونکہ خسارہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ آمدنی سے اخراجات بڑھ جایئں۔
باقی یہ کہ آپ کا دیا گیا ربط ادھر کھل نہیں رہا ہے۔ اس اسلیئے اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
محترم نعمان صاحب: آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ “بہتہ خوروں کے نام پر اہلیانِ کراچی کو یا اردو بولنے والوں کو برا بھلا کہنا غلط ہے” مگر ساتھ ساتھ اردو بولنے والوں کی بھی تو ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان بہتہ خوروں کی مذمت کریں، تاکہ چند کالی بھیڑوں کا کیا دھرا سب اہلیانِ کراچی کو نا بھگتنا پڑے۔
بھائی جان میرا تعلق بلوچستان سے ہے، مگر میں بلوچستان میں کی جانے والی ذیادتیوں کا احتجاج کرنے کے ساتھ بلوچستان کے علحیدگی پسندوں کی مذمت بھی کیا کرتا ہوں، کہ یہی میرے خیال میںانصاف کا تقاضا ہے۔ امید ہے کہ آپ سمیت سبھی لوگ میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔
باقی ہم سبھی پاکستانی آپس میں بھائی بہن ہیں اور ہم کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہیئے، میری مکمل تعلیم کراچی کے سرکاری اداروں میں ہوئی ہے، جہاں میرے کئی اساتذہ اردو بولنے والوں کے علاوہ پنجابی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ تھے، میں سب ہی کا احترام کیا کرتا ہوں، کہ آج جس مقام پر ہوں اللہ، اور اپنے والدین کے بعد انہی اساتذہ کی محنتوں کی وجہ سے ہوں۔
دیگر صوبوں کی عوام کی طرحاہلیان پنجاب نے بھی کافی قربانیاں دی ہیں پاکستان کے قیام اور استحکام کے لیئے، مگر یقین جانئیے کہ بہت تکلیف ہوتی ہے جب آج ہم یعنی غیر مہاجر پاکستانی کسی متعصب پاکستانی مہاجر سے یہ سنتے ہیں کہ ہم نے تمہاری طرح گھر بیٹھے ریڈیو پر نہیں سنا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے، بلکہ ہم نے بے حساب قربانیاں دے کر تم کو پاکستان بنا کر دیا ہے۔
رؤف صاحب :::
چلے آپ اتنا تو مانتے ہیں کہ ایسا کیا اور کہا جاتا ہے …
حضرت اردو بولنے والے MQM کے خلاف ہیں (سب نہیں ) … جبھی تو انہیں بدمعاشی کرنی پڑتی ہے .. بھتہ لینا پڑتا ہے اگر خوشی سے سب کام ہو جائیں .. تو گولی چلانے کا شوق کس کو ہے …
MQM شروع دن سی ہی بدمعاشی ملوث ہے .. یہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کے MQM کو کراچی کے عوام کی عمومی اور اور اردو بولنے والوں کی خاص طور پر حمایت حاصل نہیں ہے …
(رہی بات MQM کی بدمعاشی کیسے ختم ہو اس پر پھر بات ہو گی …)
یہ بات میں مانتا ہوں کے ابھی بھی MQM کو کچھ حمایت حاصل ہے .. لیکن اس کی وجوہات اب دوسری ہیں ….اور MQM بھی ضرورت بن چکی ہے ہر ملکی اور عالمی قوتوں کی ….
میرا ماننا ہے کہ نہ کوئی قوم اچھی نہ بری … بلکہ افراد یا فرد اچھے برے ہوتے ہیں …
یہاں تو ایسے لوگ بھی اپنے آپ کو غیر متعصب کہتے ہیں … جو جذبات کی رو میں اردو بولنے والوں کا اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہنے کو… ابو جھل کے پڑھے لکھے ہونے سے ملا دیتے ہیں … کہ وہ بھی تو گمراہ تھا …
آپ کراچی میں رہے ہیں تو آپکو پتا ہو گا کہ کراچی میں اکثریت مل جل کے رہتی ہے .. میرے ہی کتنے دوستوں میں مختلف علاقوں کے لوگ شامل تھے اور ہیں …
رہی یہ بات … جو اردو بولنے والے اب اکثر کہتے ہیں کے ہم نے پاکستان کے لئے قربانی دی اور باقیوں نے نہیں دی ….
یہ MQM کے پروپگنڈے کے بعد کہنا شروع کی گئی … ابھی بھی کہی جاتی ہے … لیکن کہنے سے کیا ہو جاتا ہے .. جو سچ ہے وہ ہے …
پاکستان کے قیام میں سارے ہندوستان کی قربانیاں شامل ہیں .. اردو بولنے والے تو چند فیصد ہی ہیں …. اکیلا چنا کیا خاک بھاڑ جھونکے گا …
آپ نے فرمایا ”
بھائی جان میرا تعلق بلوچستان سے ہے، مگر میں بلوچستان میں کی جانے والی ذیادتیوں کا احتجاج کرنے کے ساتھ بلوچستان کے علحیدگی پسندوں کی مذمت بھی کیا کرتا ہوں، کہ یہی میرے خیال میںانصاف کا تقاضا ہے۔ امید ہے کہ آپ سمیت سبھی لوگ میری اس بات سے اتفاق کریں گے”
جناب یہی تو بات ہے MQM کی مذمت میں بھی کرتا ہوں اور دوسرے اصحاب بھی کرتے ہیں ….
فرق یہ ہے کے لوگ MQM کو گالیاں نکالنے بعد اپنی قوم کی اچھائیاں ایسے بیان کرتے ہیں .. جیسے MQM ایک الگ قومیت ہے جس کا موازنہ وہ اپنی صوبائی قوم سے کر رہے ہیں …
حالانکہ ایک پارٹی کا کسی قوم سے کیا مقابلہ …. واضح رہے کے ہر قوم میں اچھے برے سب لوگ ہوتے ہیں … یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ کو فرشتوں کی قوم سے سمجھتے ہیں جن میں نہ کوئی برائی ہے اور نہ ہی ان میں کوئی تعصب کرنے والا ہے …
عبدالرؤف صاحب
آپ ہیں تو نوجوان مگر باتیں عمر رسیدہ تجربہ کار جیسی کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے بزرگ بھی ماشاء اللہ علم والے ہیں اور اساتذہ بھی آپ کو اچھے ملے
نعمان صاحب
آپ کی باتیں درست ہیں لیکن آپ نے دیکھا کم ہے زیادہ تر سنا ہی ہے ۔ آپ لوگوں نے تو وہ زندہ روشنیوں کا شہر کراچی دیکھا ہی نہیں جہاں میں اپنے پھوپھی زادوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کیا کرتا تھا ۔ رات 12 بجے بھی دن کا سماں ہوتا تھا ۔ مجھے اللہ نے پاکستان بننے سے پہلے بھی سخت تجربہ سے گذارہ اور پاکستان بننے کے بعد بھی بہت سے تجربات سے گزارہ جن میں تلخ بھی تھے اور شیریں بھی ۔ کراچی میں دما چوکڑی شروع کرنے والے دو میں سے ایک الطاف حسین ہیں ۔ کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی ہے کوئی زبردستی نہیں ہے منانے کی
سعود الحسن صاحب
آپ کی بات میں سمجھ گیا تھا لیکن آپ نے میری بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ آپ قانون دان ہیں اسلئے اپنی مرضی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔ اس مین آپ کا کوئی دوش نہیں سب قانون دان ایسا ہی کرتے ہیں ۔ آپ کے دیئے ہوئے اعداد و شمار پر میں اسلئے بات نہیں کرنا چاہتا کہ بہت وقت ضائع ہو گا کیونکہ یہ نامکمل معلومات پر مبنی ہیں
عبدالروف صاحب
دوسری بات سے اتفاق ہے ، میں نے غلطی سے کل اخراجات نکالنے کے لیے کل آمدن میں سے سے خسارے کو منفی کردیا جبکہ مجھے خسارے کو کل آمدن میں جمع کرنا تھا۔ درست اعداد یہ ہوئے-
اگر پنجاب کی کل آمدنی 593 ارب روپے تھی اور اس کا سالانہ خسارہ 9 ارب روپے تھا تو اس کا مطب ہے کہ پنجاب حکومت کے اخراجات تقریبا 602 ارب ہوے ، جبکہ اس کے مقابلہ میں سندھ کے اخراجات 416 ارب ہوے یعنی پنجاب سے تقریبا ٪38 کم۔
جہاں تک پہلی بات یعنی سوئی گیس کا تعلق ہے تو جناب میں سوئی گیس نہیں صرف گیس کی بات کررہا تھا چاہے وہ سوئی سے نکلتی ہو یا بدین سے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض کروں پاکستان میں اب سب سے زیادہ گیس اور تیل سندھ میں پیدا ہوتا ہے۔ جہاں تک رالٹی کا تعلق ہے تو وہ مطالقہ صوبے کو ملتی ہے ، چاہے وہ بلوچستان ہو یا سندھ ۔ بگٹیوں کو رئیلٹی نہیں کچھ رینٹ ملتا ہے زمین کے استعمال کا۔
افتخار صاحب
میرے اعداد و شمار مکمل ہیں اور اس کے ثبوت کے لیے آپ کو پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر ان کی سال 12-2011 کی بجٹ دستاویز کا لنک دے دیا۔