لکھنا تو تھا اپنی گذشتہ کل کی تحریر کا درمیانی نقطہ جو جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا کہ تبصرے متاءثر نہ ہوں لیکن خلافِ معمول اخبار کی سُرخیاں دیکھنے لگا تو نظر نیچے درج خبر پر اٹکی
پانچ سات سال قبل خبر پڑھی تھی کہ لاڑکانہ کا رہائشی ایک بی ایس سی انجنیئر اپنے گھر کی انتہائی مفلسی سے تنگ آ کر ڈاکو بن گیا تھا تو دل پر ایک گھاؤ لگا تھا
معزز قارئین نامعلوم کیا کہیں گے لیکن آج نیچے نقل کردہ خبر کو پڑھ کر میں اندر سے ہِل گیا ہوں اور میرا دھاڑیں مار کر رونے کو دل چا رہا ہے
یا میرے خالق و مالک میرے اللہ ۔ تو جانتا ہے کہ میں نے 1947ء میں جب میں بچہ تھا بہت بُرے دن دیکھے اور پھر نام نہاد عوامی دور (1973ء تا 1976ء) میں بھی بمشکل گھر کا خرچ چلایا لیکن بچانا مجھے اُس دن سے جب میں حالات کے سامنے مجبور کر دیا جاؤں ۔ اگر ایسا دن اٹل ہے تو اے رحمٰن و رحیم و کریم مجھ پر اپنا رحم و کرم کرتے ہوئے مجھے اُس دن سے پہلے موت دے دینا
خبر
ايس ايس پی سکھر پير محمد شاہ اور ڈی ايس پی لاڑکانہ محمد نديم نے سکھر ميں مشترکہ پريس کانفرنس کرتے ہوئے بتايا کہ ڈاکوؤں کا گروہ مغوی آفتاب احمد کو لاڑکانہ سے کہيں اور مُنتقل کررہا تھا کہ پوليس اور ڈاکوؤں کے درميان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس ميں ڈاکو غازی جاگيرانی ۔ اللہ رکھيو سيال اور اس کے ديگر ساتھی مارے گئے اور مغوی بازياب کرا ليا گیا ۔ پوليس کے مطابق مارا جانے والا ڈاکو غازی جاگيرانی پی ايچ ڈی (Ph.D) ڈاکٹر ہے
پاکستان میں تعلیم یافتہ یا ہنر مند لوگوں کی کتنی قدر ہوتی ہے یہ سب کو معلوم ہے …
مجھے پڑھ کر بہت صدمہ پہنچا …. الله رب العزت سے د عا ہے کے ہمیں …. انصاف کرنے والے حکمران دے ..
نعمان صاحب
میں آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں
ابھی شائد بہت کچھ سہنا ہے
قیامت کے آثار ہیںجی
ابھی تو بہت کچھ برداشت کرنا باقی ہے
صبر کیجئے اور صبر کی تلقین کیجئے
ام تحریم صاحبہ
اللہ اللہ ابھی قیامت باقی ہے !!!۔
اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ۔ ۔ ۔ ۔آمین
کوئی شک نہیں کہ یہ خبر دِل دہلا دینے والی ہے۔اب اِس سے آگے بھی کُچھ سُننے کو بچتا ہے؟؟؟