وطن عزیز میں ہر سال روئتِ ہلال اور اس کے نتیجہ میں عید کے دن کا ابہام پیدا کیا جاتا ہے مگر جب سے انٹرنیٹ شروع ہوا ہے ابہام ہونا نہیں چاہیئے لیکن کچھ خود پسند یا مصنوعی جدّت پسند لوگ رولا ڈال کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر راقم الحروف ایسے ابہام میں کبھی مبتلا نہیں ہوا اور اب تو انٹرنیٹ کی مدد سے با آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس جگہ کس دن نیا چاند نطر آئے گا ۔ لیجئے حاضر ہے اس سال کی صورتِ حال
افغانستان ۔ ایران ۔ متحدہ عرب امارات ۔ سعودی عرب ۔ افریقہ ۔ برطانیہ ۔ یورپ ۔ امریکا وغیرہ میں بتاریخ 18 اگست 2012 بروز ہفتہ مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ ایک فیصد چاند نظر آئے گا
پاکستان میں بتاریخ 18 اگست 2012ء بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا
اسی طرح جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں 18 اگست 2012 بروز ہفتہ کسی جگہ چاند نظر نہیں آئے گا
اسلام آباد ۔ لاہور ۔ کراچی ۔ پشاور اور کوئٹہ میں بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا
جاپان ۔ انڈونیشیا ۔ آسٹریلیا ۔ فلپین ۔ روس ۔ چین ۔ میانمار ۔ بنگلا دیش ۔ بھارت ۔ سری لنکا وغیرہ میں بھی بتاریخ 19 اگست 2012 بروز اتوار مغرب کے وقت ۔ ۔ ۔ 3 فیصد چاند نظر آئے گا
ہمارے ہاں تو چاند تب ہی نظر آئے گا جب مُفتی صاحب درست نمبر کی عینک لگا کر چاند دیکھیںگے
دہرا حے صاھب
صرف مُلا کا قصور نہیں ہے ۔ ہمارے لوگوں نے خود اپنی بَلا مُلا کے سر ڈالی ہوئی ہے
جب بھی چاند ہو گا سب کو دکھے گا
اور کسی خاص جگہ دکھے اور وبھی چند خاص لوگوں کو
جنہیں ہمیشہ تب ہی دکھتا ہے جب کسی کو نہیں دکھتا تو کیا کریں؟
ہمیں شک کا روزہ رکھنے کی اور نہ شک کی عید منانے کی ضرورت ہے
ہمارے علماء کرام ب اعلان کریں گے ہم تب ہی عید منائیں گے
ویسے بھی آج تلک سائنس کے مطابق ہی فیصلے دئے ہیں کبھی ہم نے غلط فیصلہ نہیں سنا ان کا
کہ جسے سائنس کی رو سے غلط قرار دیا گیا ہو
کراچی سے دبئی کا فاصلہ زیادہ دور تو نہیں پھر دونوں جگہ الگ الگ دن چاند دکھائی دینے کی کیا تک ہے بھئ ؟
ویسے بھی حیران ہوں کہ جب پوری دنیا کا ایک ہی چاند ہے تو پھر ہر ملک کا چاند الگ الگ دن کیسے ؟؟؟؟؟؟
ندرت جی حیرت چاند پر ہے کہ قدرت پر؟
اللہ ہی کی قدرت ہے کہ پاکستان میں کہیں عید کے آثار کل کے نہیں ہیں
مگر ابھی علم ہوا کے کہ شمالی وزیرستان میں چاند دکھائی دیا جا چکا ہے
اب کہیئے ایک ہی ملک میں چاند دکھتا بھی ہے اور نہیں بھی
اللہ کی قدرت ہے یا انسان کی جھگڑا کرنے کی اور حیران کردینے والے فطرت
ام تحریم صاحبہ
میں نے نہیں کہا کہ عالِمِ دین غلط فیصلہ کرتے ہیں ۔ اصل چیز رسول اللہ کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور وہ ہے نیا چاند یا نیا ہلال دیکھنا ۔ سائنس ہمیں تحلیلی اسلوب سے قیاس بتاتی ہے جسے انگریزی میں اَینالِٹِیکل یا تھیورَیٹیکل کہتے ہیں ۔ اب اگر سائنس کے مطابق چاند نظر آنا ہو اور اس کا مقیاس انتہائی کم ہو اور دورانیہ بھی کم ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں عین ممکن ہے کہ چاند نظر نہ آئے ۔ اسی بنیاد پر کچھ لوگ جو دین سے آزادی چاہتے ہیں اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن ہمیں سُنتِ رسول پر چلنا ہے کیونکہ اللہ نے بار بار فرمایا ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو
ندرت صاحبہ
میرا قیاس ہے کہ آپ ڈاکٹر ہیں چنانچہ آپ نے اتنا جغرافی ضرور پڑھا ہو گا کہ چاند اور زمین کی حرکات کا علیم ہو ۔ صرف دہرانے کی خاطر مندرجہ ذیل ویب سائٹ دیکھ لیجئے
http://www.youtube.com/watch?v=W47Wa7onrIQ
اس میں دیکھیئے کہ مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصے کے سامنے چاند کے مختلف حصے ہوتے ہیں ۔ ۔ مزید یہ کہ زمین کے ہر حصے میں دن کے مختلف اوقات ہوتے ہیں ۔ اسلئے یہ ممکن ہے کہ مشرقی علاقوں میں چاند نظر نہ آئے اور مغربی علاقوں میں نظر آ جائے کیونکہ وہاں رات مشرقی علاقے کی نسبت دیر سے ہوتی ہے اور اس وقت تک چاند یعنی ہلال نمودار ہو چکا ہو
میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ
ہم نے دین اسلام کو بھی ملکی حدود میں قید کر لیا ہے ….
بہت سارے علما کرام شروع سے ہی قایل رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں چاند دکھے عید سارے عالم اسلام کے لیے فرض ہو جاتی ہے …
ویسے بھی اگر دیکھیں تو یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا جھگڑا ہے اگر مشرق تا مغرب مسلمانوں کا ایک ملک ہو یا ساری عرب دنیا اور پاکستان ایک ملک ہوں تو عالم عرب کی رویت مطلب چاند دیکھنا ہمارے لیے دلیل ہو گا …
لیکن اگر ملک الگ الگ ہوں تو یہ دلیل نہں ہو گا …
یہ بات میرے فہم سے بالا ہے … الله مجھے عقل دے تاکہ یہ جو بظاہر عام فہم مسلۂ ہے مجھے سمجھ آ جاۓ
رسول الله saw کی مختلف احادیث بھی ہیں جو بتلاتے ہیں کہ رسول الله نے مدینے کی باہر کی رویت مانی ہے جب کہ مدینے میں چاند نظر نہیں آیا تھا …
نعمان صاحب
اصول جو وضع ہوا وہ چاند دیکھنا ہے اور ساتھ ہی کہ اگر طبعی وجوہات کی وجہ سے ایک جگہ نظر نہ آئے تو قرب و جوار کی خبر درست مانی جائے ۔ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے ۔ وہ طبعی وجہ ہی مانی جاتی ہے ۔ آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں جانتے ہوں گے کہ اس سلسلہ میں کئی طبعی وجوہات ہو سکتی ہیں
مجھے تو بالکل ہی اتفاق نہین نعمان کی بات سے