دولت کمانے کیلئے اپنی صحت کھو دیتا ہے
پھر صحت بحال کرنے کیلئے دولت لگاتا ہے
مستقبل کی فکر میں مبتلا رہتا ہے
حال میں مستقبل کیلئے کچھ کرنے کی بجائے
ماضی کی یاد میں حال کو ضائع کرتا ہے
جِیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرنا نہیں
مر ایسے جاتا ہے کہ کبھی جِیا ہی نہ تھا
کیوں نہ ایسے رہا جائے کہ
نہ فشارِ خون پیدا ہو ۔ نہ احتلاجِ قلب
نہ کوئی اُنگلی اُٹھائے ۔ نہ بد دعا دے
اور جب مر جائے تو لوگ یاد کریں تو دعا دیں
اللہ اللہ کیا کر
خود بھی جی اور دوسروں کو بھی جینے میں مدد دیا کر
کہ مرکے بھی کسی کو یاد آییں گے
کسی کے آنسوںمیں مُسکراییں گے
کہے گا پھول ہر کلی سے بار بار
جینا اسی کا نام ہے۔
دہرا حے صاحب
تشریف آوعی کا شکریہ