ایک صاحب بہادر اپنے بیوی بچے لے کر سیر کو نکلے کہ دنیا کی رنگینیاں دیکھیں ۔ راستے میں ایک شخص کھڑا ملا
صاحب بہادر نے پوچھا “تم کون ہو؟”
اس نے کہا “میں مال ہوں”
” صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے ہم اسے ساتھ بٹھا لیں ؟
سب نے کہا “ضرور کیونکہ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور اس کی موجودگی میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں”
صاحب بہادر نے مال کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آگے بڑھے ۔ جب تھوڑا آگے گئے تو ایک اور شخص کھڑا نظر آیا
صاحب بہادر نے پوچھا ” تم کون ہو ؟”
اس نے جواب دیا “میں منصب ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے اسے ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “کیوں نہیں ۔ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور دنیا کی لذتوں کا حصول اس کی موجودگی میں بہت آسان ہو جائے گا”
صاحب بہادر نے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مزید آگے بڑھے ۔ اس طرح اس سفر میں طرح طرح کی لذتوں سے ملاقات ہوئی اور صاحب بہادر سب کو ساتھ بٹھاتے آگے بڑھتے رہے ۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی
صاحب بہادر نے پوچھا “تو کون ہے ؟”
اس نے جواب دیا” میں دین ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “ابھی نہیں یہ وقت دین کو ساتھ لے جانے کا نہیں ہے ابھی ہم سیر کرنے اور انجوائے کرنے جارہے ہیں اور دین ہم پر بلاوجہ ہزار پابندیاں لگادے گا حلال حرام کو دیکھو نمازوں کی پابندی کرو وغیرہ وغیرہ اور ہماری لذتوں میں رکاوٹ بنے گا ہم انجوائے نہیں کر سکیں گے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ سیر سے واپسی پر ہم اسے ساتھ بٹھا لیں گے”
اور اس طرح وہ دین کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں چلتے چلتے آگے چیک پوسٹ آ تی ہے ۔ وہاں کھڑا شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “گاڑی سے اترو”
صاحب بہادر گاڑی سے اترتے ہیں تو وہ شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “تمھارے سفر کا وقت ختم ہو چکا۔ مجھے تمھارے پاس دین کی تفتیش کرنا ہے”
صاحب بہادر نے کہا “دین کو میں کچھ ہی دوری پر چھوڑ آیا ہوں میں ابھی جاکر اسے ساتھ لے آتا ہوں”
” اُس شخص نے کہا ہے “اب واپسی ناممکن ہے تمہارا وقت ختم ہو چکا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
صاحب بہادر نے کہا “مگر میرے ساتھ مال منصب اور بیوی بچے ہیں”
اُس شخص نے کہا “اب تمہیں تمھارا مال منصب اور اولاد کوئی بھی نہیں بچا سکتے ۔ صرف دین تمھارے کام آسکتا تھا جسے تم پیچھے چھوڑ آئے”
” صاحب بہادر نے پوچھا “تم ہو کون ؟
اُس نے کہا “میں تمہاری موت ہوں جس سے تم مکمل غافل تھے اور عمل کو بھولے رہے”
صاحب بہادر نے ڈرتی نظروں اور ڈوبتے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف دیکھا اس کے بیوی بچے اس کو اکیلا چھوڑ کر مال اور منصب کو لئے اپنے سفر کو مکمل کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے اور کوئی ایک بھی صاحب بہادر کی مدد کے لئے اس کے ساتھ نہ اترا
حقیقت تو یہی ہے نہ مال و منسب کام آئے گا نہ اولاد بس اعمال ہی کام ائیں گے اس وقت۔
یہی حقیقت ہے جی۔ اب پتا تھوڑی ہوتا ہے کہ چیک پوسٹ کب آ جائے!
بے شک موت تو گھات لگاے بیٹھی ہے
اللہ ہمارے غفلت کے پردے کو ہٹادے اور ہمیں باعمل بنادے ایسا نہ ہو ہمارا اس کہانی کے کردار کی طرح انجام ہو۔
آنکھیں کھولنے والی تحریر