نشر و اشاعت کے دھماکہ خیز پھیلاؤ کا ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ کئی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف سچ کا جاننا انتہائی مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ غریب یا کمزور کے خلاف جھوٹے الزام کو سچ بنا دیا جاتا ہے اور طاقتور کے جھوٹ کے خلاف سچ کو سازشی نظریہ (conspiracy theory) قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک ادنٰی
غالباً 23 اگست 2006ء کو ٹی وی پر خبر نشر ہوئی تھی کہ اس دور کے فرانس کے صدر جیکس شیراگ (Jacques Chirac) نے انکوائری کا حکم دیا تھا کہ خبر کیسے لِیک ہوئی کہ اسامہ بن لادن مر گیا تھا ۔ اس خبر کی وِڈیو یوٹیوب پر بھی پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں اسے ذاتی قرار دے کر ہٹا دیا گیا تھا ۔ اس خبر کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے پئے در پئے اس کی تردید کی گئی گو سعودی عرب کے خفیہ ادارے کو 3 ستمبر 2006ء کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اسامہ بن لادن طبیعی موت مر چکا ہے
ایبٹ آباد کے ایک گھر پر 2 مئی 2011ء کو امریکی فوجیوں کا خُفیہ حملہ جس کے بعد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوٰی بڑے کرّ و فر سے کیا گیا ۔ مگر لاش کو بغیر ذرائع ابلاغ پر لائے سمندر میں پھنکنے کی بات اس دعوے کو مشکوک بنا گئی ۔ خیال رہے امریکا ہی نے صدام حسین کی پھانسی کی کاروائی کی وڈیو دنیا کو دکھائی تھی جس میں صدام حسین کی ٹوٹی ہوئی گردن میں سے نکلتا خون بھی دکھایا گیا تھا
جھٹلائی گئی خبر کا سفر سچائی کی طرف شروع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اس بیان کے بعد جو سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ یرقان یاشر نے 19 مئی 2012ء کو دیا ۔ یرقان یاشر کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن جعلی تھا ۔ اسامہ بن لادن کا انتقال 26 جون 2006ء کو ہوا تھا اور انہیں وصیت کے مطابق پاک افغان سرحد پر دفن کیاگیا۔ مزید یہ کہ یرقان یاشر ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کے ان 3 چیچن محافظوں کو جانتے تھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اور 26 جون 2006ء کو ان کی فطری موت کے عینی شاہدین تھے ۔ ان کے نام سمیع ۔ محمود اور ایوب تھے ۔ امریکیوں نے 2 مئی 2011ء کی کاروئی کرنے سے پہلے سمیع کو اغوا کر لیا تھا ۔ تو کیا سمیع کے ذریعہ اسامہ کی نعش قبر سے نکال کر سمندر مں پھنکی گئی کہ کہیں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے ؟