شايد آج کی پوری دنيا کا ہی الميہ ہے مگر بالخصوص ہمارے ہاں غلط يا تراشيدہ [manufactured] باتوں کو جتنا عام کيا جاتا ہے اور جتنا ان پر بحث کو وقت ديا جاتا ہے اتنی حقائق کی طرف توجہ نہيں دی جاتی ۔ قانون اور الفاظ دونوں ہی کے اصل کی بجاۓ غلط معروف ہیں
چند نمونے
طلب سے بنا طالب یعنی طلب رکھنے والا ۔ علم کی طلب رکھنے والا ہوا طالب علم جسے مختصر طور پر طالب کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ہوئی طُلباء ۔ لیکن چند سالوں سے اخبارات اور ٹی وی چنلز والوں نے طلبہ لکھنا شروع کر دیا ہے اور شاید ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی طلبہ لکھنے لگے ہیں ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ معمولی سا غور کرنا بھی شاید گوارا نہیں کرتے کہ طلب سے طلبہ بنا تو اس کا مطلب کیا ہوا اور یہ کس اصول کے تحت بنا ؟ کیا یہ اتنی سُوجھ بُوجھ بھی نہیں رکھتے کہ ذاکر مذکر ہے تو ذاکرہ اس کی مؤنث ہوئی ۔ طلب تو ہے ہی مؤنث تو اس کی مزید مؤنث کیا طالب علم کی جمع بن جائے گا ؟
لفظ ”عوام الناس“ تھا ۔ مطلب عام یا سب آدمی یا انسان ۔ استعمال سے ”الناس“ گھِس گيا يا راستے ميں کہيں گِر گيا اور رہ گیا عوام الناس کی زبان پر صرف ”عوام“
فارسی کا ايک مصدر ہے ”آمدن“ جس کا صيغہ حاضر جمع ہے ”آمدَيد“اور ”خوش“ کا مطلب ہے ”اچھا يا بھلا“ ان دو لفظوں سے بنا تھا ”خوش آمدَيد“۔ جديد ہواؤں نے ” د “ کی ”زَبَر“ کو نيچے گرا ديا اور وہ بن گئی ” زَير “۔ اور ”خوش آمدَيد“ کا بن گيا ”خوش آمدِيد“
فارسی ہی کا مصدر ہے ”دِيدن“ جس کا صيغہ ماضی ہے ”دِيد“ جس کا مطلب ہے ”ديکھا“ چنانچہ ”خوش آمدِيد“ کا مطلب بنا ”اچھا آم ديکھا“۔ اس کی وجہ يہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے لوگ آم کھانا پسند کرتے ہيں
سب سے اہم بلکہ قومی سانحہ
ہمارے ہاں کيا حکمران کيا عوام 1973ء کے آئين کی تعريفيں کرتے نہيں تھکتے ۔ ان ميں سے 90 فيصد سے زائد ايسے ہوں گے جنہوں نے کبھی آئين کو پڑھا ہی نہيں ۔ راقم الحروف نے پہلی بار اس آئينی دستاويز کو 1974ء کی آخری چوتھاتی ميں صرف پڑھا ہی نہيں بلکہ اس کا مطالعہ کيا کيونکہ ميں اُن دنوں سينئر منيجمنٹ کورس پر تھا اور آئين پر مباحثہ ميں حصہ لينا تھا ۔ مباحثہ ميں دلائل کے ساتھ يہ حقيقت آشکار ہوئی تھی کہ آئين کامل نہيں اور قابلِ عمل بنانے کيلئے کچھ تراميم کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر تعزيراتِ پاکستان ميں انقلابی تبديلياں لانا ہوں گی
ايک اہم حقيقت سامنے آئی تھی جو اب تک جوں کی توں موجود ہے کہ يہ آئين جمہوری تو ہے مگر اختيارات سارے حکمران کے ہاتھ ميں ہيں ۔ وہ چاہے تو ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر بيچ دے يا قوم کو غلام سمجھ کر بيچ دے ۔ ملک کا کوئی ادارہ دھرن تختہ کر دے تو الگ بات مگر آئينی يا قانونی طريقہ سے حکمران کا کچھ نہيں بگاڑا جا سکتا جب تک ايوان ميں اُسے اکثريت کی حمائت حاصل رہے اور يہ ہمارے ہاں رہتی ہے ۔ اس سلسلے میں عدالتِ عظمٰی کو بھی کاروائی کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی شخص جو حکمران نہ ہو بھی اگر مُلک سے غداری کرے تو حُکمران کے باقاعدہ حُکم کے بغير اُس کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہيں کی جا سکتی ۔ 1973ء کے آئين کے تحت 1976ء ميں ايک قانون بنايا گيا جسے 1956ء سے مؤثر قرار ديا گيا ۔ اس قانون کے متعلقہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ ”جو چاہے سو حکمران کرے ۔جمہوریت کو فقط بدنام کیا“
Criminal Law Amendment (Special Court) Act 1976.
An offence of simple treason punishable under the Pakistan Penal Code and an offence under The High Treason (Punishment) Act 1973 whether committed before or after the commencement of the 1976 statute shall be tried by the special court in accordance with the provisions of this legislation.
It is necessary to provide for the punishment of persons found guilty of acts of abrogation or subversion of a Constitution or of high treason . . . A person, who is found guilty (a) of having committed an act of abrogation or subversion of a Constitution in force in Pakistan at any time since the 23rd day of March 1956, or (b) of high treason as defined in Article 6 of the Constitution; (c) be punishable with death or imprisonment for life.
No court shall take cognisance of an offence punishable under this Act except upon a complaint in writing made by a person designated by the federal government in this behalf. The government may assign this job to the attorney general or appoint a prosecutor general to represent it in the high treason trial.
السسلام و علیکم اجمل صاحب ،
اغلاط العوام کی جناب توجہ دلانے کا شکریہ …
کیوں کے میں بھی عوام الناس میں سے ہوں اس لئے یہ غلطیاں میں بھی کرتا ہوں
آپ نے آئین کی طرف توجہ دلائی.
یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ مرض ہر جگہ ہے …
خاص طور پر سرکار کے نام نہاد خود مختار اداروں میں ….
جہاں ہر Rules and regulations کی آخری سطر یوں ہوتی ہے ….
subjected to the discretion of Chairman
اب ادارہ کا سربراہ جو چاہے کرے وہ اس ادارہ میں مغل بادشاہ سے زیادہ با اختیار اور اسے سے بھی زیادہ مطلق العنان ہوتا ہے …
جو کسی کے سامنے بھی جوابدہ نہیں ہوتا …کم از کم اس ادارہ کے آئین کے سامنے نہیں
اب یہ سچ ہر جگہ لاگو ہوتا ہے … چاہے وہ آئین پاکستان ہی کیوں نہ ہو …
آخر اس کا فائنل ڈرافٹ تو براؤن صاحب نے ہی بنایا ہو گا نا..
بات ہے تو غیر متعلق لیکن لکھ ہی دیتا ہوں …
جب ہم پاکستانیوں کی اکثریت تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو برا کہتی ہے ..
(یہ میرا تجربہ ہے کے تقریبا ہر پاکستانی ایک دو رہنماؤں کو چھوڑ کر باقی سب کو برا کہتا ہے … اگر آپ جمع تفریق کریں تو حاصل جمع یہی ہو گا کے سب برے ہیں )
تو اسکا مطلب تو سادہ سا یہی ہوا کہ انگریز اچھے تھے … جن کے تسلط سے نکالنے کے لئے ان قائدین نے تحریک چلائی …
جب انگریز اچھے ہوئے تو اسکے بیوروکریٹس اور اسکے محافظ بھی اچھے ہوئے …
ہم انگریزوں کے بناہے ہوئے انڈین پنل کوڈ کا دیباچہ تبدیل کرنے سے سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہو گہے …
یا آئین میں ایک شق شامل کرنے سے کے یہاں کوئی قانون اسلامی شریعت کے خلاف نا ہو گا
نعمان صاحب
جب بندوق کے زور پر بنائے گئے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سمجھا کی کسی کھسکنے کو ہے تو ایک فقرہ ”کوئی قانون اسلامی شریعت کے خلاف نا ہو گا“ شامل کر دیا تھا ۔ پاکستان کے خلاف زیرک منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف پاکستان کے خلاف بلکہ قائد اعظم کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ شروع ہو گیا تھا ۔ اب لوگ جو کچھ بھی کہیں پاکستان بننے کے بعد پہلے پانچ سال بہت اچھے تھے ۔ سیاسی رہنماؤں اور بہت سے دوسرے لوگوں نے خلوص اور محنت سے کام کیا تھا وگرنہ جن حالات سے پاکستان کو دوچار کیا گیا تھا ایسا کرنے والوں کی توقعو کے مطابق پاکستان 6 ماہ سے زیادہ قائم نہ رہتا ۔ پاکستان کے گھر کے دشمن وہ مقامی ہیں جنہوں نے مہاجر بن کر لوٹا اور وہ مہاجرین ہیں جنہوں نے بھارت میں اپنا کچھ بھی نہ گنوایا اور پاکستان میں آ کر جھوٹ کے بل بوتے کئی گنا حاصل کیا ۔ اس کتاب کو نہ ہی کھولین تو بہتر ہے ۔ میں نے بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکا ہوا ہے
بے شک آپ نے صحیح کہا
کے گوروں کے نوکر آمر نے ایک فقرہ کا اضافہ کر دیا
لیکن ااصل ظلم تو یہ ہے کہ عوام الناس کی اکثریت کو معلوم بھی نہیں کہ انکے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے
کسی بھی ملک میں عوام الناس کو حاصل حقوق کو و قانون میں حاصل حقوق کا thru ناپا جاتا ہے
اب قانون بھی ووہی ، عدالتی نظام بھی ووہی .. پولیس بھی ووہی …تو بدلا کیا
صرف حکمران .. گورا صاحب سے براؤن صاحب ہو گیا ہے
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
آپ بیشک یہ کتاب کھولیں ..
نہ ہی مقامی افراد کی اکثریت استحصالی تھی .. اور نہ ہی آنے والوں کی اکثریت دھوکہ باز تھی …
دکھ اس بات کا ہے .. جن لوگوں نے انگریزوں سے مسلمانوں کے حقوق مانگنے کی جد و جہد میں کٹھنا ییاں سہیں
یا بہتر طور سے کہیں تو تن من دھن وارا .. انکو برا کہا جاتا ہے …
اور انکے بعد آنے والے کرپٹ حکمرانوں اور انگریزوں کے نوکروں کو اچھا ..
آج کے پیمانۂ پر ہی تول لیں ..
تحریک آزادی کے کسی رہنما نے کوئی جاگیر یا industrial امپائر کھڑی نہیں کی ..
اور نہ ہو دولت چھوڑی ..
جب کہ ان میں سے اکثریت مالی طور پر آسودہ تھی ..
انکے بعد آنے والوں نے جو کیا وہ آپکے سامنے ہی ہے
نعمان صاحب
بھینس کے آگے بین بجانے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بھینس کو نکیل سے پکڑ کر کھینچنا ہو گا گو اس میں سینگ کھانے کا خدشہ ہے
طلبہ کے حوالے سے میں آپ سے طالب علمانہ اختلاف کرنا چاہتا ہوں۔
علم الصرف میں پڑھا تھا کہ عربی اسم صفت فاعل کی کئی طرح سے جمع آتی ہے ان میں ایک طَلبہ بھی ہے۔ دیگر جمعوں کی اشکال طلاب، طلب، طِلاب وغیرہ آتی ہیں، باقی دو میں متفق ہوں آپ سے۔
عطاء رفیع صاحب
میں کم علم ہوں اسلئے بحچ نہیں کرنا چاہتا ۔ صرف اتنا کیجے کہ طلبہ کا مطلب بھی اپنی کتاب میں دیکھ لیجئے اور طالب کا بھی
بھینس کے آگے بین ہم نے بجائی تو خوب ہے …
نہ ہی پہلے بین بجانے سے کچھ ہوا تھا اور نہ ہی آگے ہو گا …
رہی بھینس کو نکیل سے پکڑ کر کھینچنا …
تو قبلہ میں تو سمجھتا ہوں کے اس بھینس کے ناک میں نکیل ہے ہی نہیں ..
لہذا پہلا کام تو نکیل ڈالنا ہے …
ایک دفعہ نکیل ڈل گئی تو یہ بھینس قابو میں آ جاۓ گی ….
ویسے یہ بھینس آسانی سے قابو میں آنے والی نہیں …
ہر چند مہینے بعد ایک نیا پرابلم اس کی دلیل ہے …
ویسے میں سمجھتا ہوں کہ سونامی خان یہ کام کر سکتا ہے ..
نعمان صاحب
سونامی خان جسے آپ نے کہا ہے میرے خیال میں بچوں کی سی سیاست کر رہا ہے ۔ سب کو چور کہنے والے نے اپنے گرد کافی چور اکٹھے کر لئے ہیں ۔ ن لیگ کو استعفے دینے کیلئے للکارنا آسان ہے اپنی بغل میں بیٹھے لغاریوں سے استعفے دلانے سے ۔ ہمارے ملک میں “وَن مَین شَو” چلتا ہے اور اس سے پائیدار ترقی ممکن نہیں
افتخار صاحب ہمیشہ کی طرح آپ کی یہ پوسٹ بھی قابلِ ستائش ہے۔ میں میڈیا کے حوالے سے ایک اور چیز کا تزکرہ کرنا مناسب سمجھوں گا۔ ہمارے سابق وزیرِداخلہ کا اصل نام عبدالرحمٰن ملک ہے۔ ٹی وی اور اخبار والوں کو نہ جانے رحمٰن ملک کس نے بتا دیا ہے کہ اُن کی وجہ سے اب عوام الناس کی زبان پر بھی یہی نام چڑھ گیا ہے۔ بچپن میں سُنا تھا کہ خدا کے صفاتی ناموں کے ساتھ عبد لگا کر ہی لوگوں کے ساتھ منسوب کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صفاتی نام صرف اللہ تعالٰی کے لئے ہیں۔بہر حال میڈیا کو اُن کا اصلی نام استعمال کرنا چاہیئے۔
اسد صاحب
ہند و پاکستان میں رسوم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور عقل کے استعمال پر کم ۔ مجھے عرب دنیا کے دو واقعات یاد آئے ہیں ۔ ایک پڑھے لکھے پاکستانی کا نام پوچھا گیا ۔ اُس نے جواب دیا “رحمٰن”۔ عرب نے فوراً کہا “عبدالرحمٰن”۔ ایک پڑھا لکھا پاکستانی ایک عرب کے عزیز کی وفات کا افسوس کرتے ہوئے انگریزی میں کہنے لگا “۔ ۔ ۔ کی بے وقت موت کا افسوس ہوا”۔ عرب نے اسی وقت ٹوکا “بروقت ۔ یہی وقت مقرر تھا اللہ کی طرف سے”۔