آپ غلط سمجھے ۔ میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے تو کبھی جوانی میں بھی یہ تمنا نہ کی تھی ۔ پھر آیا کون ؟ ذرا تحمل سے پڑھیئے
ہمارے علاقے میں روزانہ بلا ناغہ 24 گھنٹے میں 6 بار بجلی ایک ایک گھنٹے کیلئے بند ہوتی ہے جسے فی زمانہ لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے ۔ دن میں 7 سے 8 بجے تک ۔ 11 سے 12 بجے تک ۔ 3 سے 4 بجے تک ۔ رات میں بھی انہی اوقات میں ۔ بعض دن بونس کے طور پر زیادہ بار بجلی بند ہوتی ہے لیکن یکم مئی بروز منگل رات کو نہ 7 سے 8 بجے بجلی بند ہوئی اور نہ 11 سے 12 بجے ۔ وجہ یہ کہ ہمارے گھر کے سامنے جو مکان ہے اُس کے ساتھ والے مکان میں وزیرِ اعظم صاحب نے آنا تھا ۔ وزیرِ اعظم صاحب کی آمد کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متذکرہ مکان میں رہائش پذیر بڑے سرکاری افسر جو وزیرِ اعظم صاحب کے رشتہ دار ہیں کی بیٹی کی شادی پچھلے ہفتہ ہوئی تھی ۔ وزیرِ اعظم صاحب اُس کی مبارک دینے آئے تھے
سوچتا ہوں کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب کو احساس نہیں کہ لوگوں کو بجلی بند ہونے سے کیا تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جہاں وہ رہتے ہیں یا جاتے ہیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی
وزیرِ اعظم کی آمد سے کچھ قبل حکم دیا گیا کہ جو کوئی جہاں ہے وہیں رہے اور حرکت نہ کرے یعنی اگر کوئی کسی کمرے یا ٹائیلٹ میں رفع حاجت کیلئے گیا تھا تو وہ اس کمرے یا ٹائیلٹ ہی میں رہے اور جو کمرے یا ٹائیلٹ سے باہر تھا اور اندر جانا چاہتا تھا وہ اب باہر ہی رہے جب تک وی آئی پی آ کر واپس نہ چلے جائیں ۔ یہ حُکم اُس گھر میں رہنے والوں کیلئے بھی تھا جن کے ہاں وزیراعظم صاحب آ رہے تھے ۔ ہماری گلی کے ایک رہائشی اپنے بچوں کو لے کر آ رہے تھے اُنہیں رات 9 بجے کے بعد تک گلی میں گھُسنا تو کُجا گلی سے بہت دُور روکے رکھا گیا
گو شادی کچھ دن قبل ہو چکی تھی پھر بھی اہلِ خانہ نے وزیر اعظم صاحب کیلئے مناسب کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ وزیراعظم صاحب کے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب نے کھانے کی تمام چیزوں اور پھلوں کے رس کا باقاعدہ ٹیسٹ کیا اور پھر سب کو خود چکھا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا سوائے سادہ پانی کے جو نیسلے کی بند بوتل میں تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بوتل وزیراعظم صاحب کے ساتھ ہی آئی ہو
یہ سب کچھ سُنتے ہوئے میرے ذہن میں پرائمری سکول کے زمانے میں سُنی ہوئی شہنشاہ کی کہانی گُھوم رہی تھی ۔ کہانی کے مطابق شہنشاہ کے کوئی چیز کھانے یا پینے سے پہلے ان کا ملازم اسے چکھتا تھا
اِن لوگوں کو اپنی زندگی تو اتنی پیاری ہے لیکن عوام کی زندگیوں کو بے مُول کیوں سمجھتے ہیں ؟ کیا یہ عوام کے نمائندے کہلانے کے قابل ہیں ؟
آپ نے زندگی کا بہترین موقع ضائع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوانی میں شاید آپ نے آوارہ سور کا شکار نہیں کیا تھا
یاسر صاحب
سوّر کا شکار واقعی میں نے کبھی نہیں کیا ۔ انجیئرنگ کالج لاہور میں میرے ایک ہمجماعت اور دوست جھنگ کے رہنے والے تھے وہ سوّر کا شکار کیا کرتے تھے ۔ ا(نہوں نے شکار کی روئیداد سنائی تھی
اچھی تشبیہ دی یاسر صاحب ، لیکن کہیں سور ناراض نہ ہو جاۓ:)
بے شک یہ شہنشاہ بن کے حکومت کرتے ہیں ..یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ عزت اس عہدہ کی ہے … حکومت ختم ہونے کے بعد یہ آوارہ کتوں کی طرح گھوم رہے ہوں گے … اور کوئی انہیں دیکھنے والا بھی نہ ہو گا …
ہاں البتہ گیلانی صاحب کیونکہ ایک قبر کے مجاور بھی ہیں لہذا ملتان والے پھر بھی انکے ہاتھ پہ بوسہ دے رہے ہوں گے … حیرت کی بات ہے اسلام جن بتوں کی پوجا روکنے کے لئے آیا تھا .. اب مسلمان انھیں قبروں میں لٹا کے پوج رہے ہیں (خیال رہے کہ مکّہ کے بتوں میں بزرگوں کے بت بھی تھے )…
ڈاکٹر بابر اعوان کا حال ہی دیکھ لیں .. کچھ عرصے پہلے تک بلٹ پروف مرسڈیز میں گھومتے تھے … اور اب ایک سادہ گاڑی میں اور کوئی انھیں کچھ نہیں کہتا ….
ویسے دنیا میں سیکورٹی فراہم کرنے کے دواہم طریقے ہیں .. ایک وہ جو پاکستان جیسے ملکوں میں رائج ہے .. یعنی VVIPs کو سیکورٹی دو .. عوام اپنا تحفظ خود کر لے گی (یعنی عوام دوسری ترجیح ہے )
اور دوسرا جو یوروپ اور دوسرے ترققی یافتہ ممالک میں نافذ ہے .. سیکورٹی عام آدمی کو دو VVIPs خود ہی محفوظ ہو جایں گے …
ٹائٹل پڑھ کر یہی اندازہ لگا کہ حضرت والا جاگ اٹھے
ایک زمانہ تھا کہ یہاں بنگلور میں روزانہ دو گھنٹے بجلی جاتی تھی اور وہ بھی گرمیوں کے دنوں میں جب میں پڑھائی کرتا تھا ۔ مجھے یاد ہے وہ بڑے تکلیف کے دن تھے۔
اور دنیا کا کوئی بھی جیسا بھی حکمراں ہو، وہاں بجلی نہیں جاتی ۔ اسی لئے انکو احساس نہیں عوامی جذبات کا۔
شعیب بھائی ، سعودی عرب ، دبئی اور کچھ دیگر خلیجی ممالک میں بجلی نہیں جاتی۔ پھر کیا یہاں کے حکمرانوں کو عوامی جذبات کا احساس ہے؟ یا کچھ اور دوسری وجوہات بھی ہیں ؟
حیدر آبادی صاحب
شعیب صاحب ٹیکنالوجی کے گڑھ میں رہائش رکھتے ہیں ۔ مجھ دو جماعت پاس ناتجربہ کار کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ دین سے دُوری یا کہہ لیں انسانیت سے دُوری کا نتیجہ ہے کہ حکمران بزعمِ خود خدا بنے بیٹھے ہیں
واہ، پہلی بار آپ نے حکمرانوں کو خدا بنے بیٹھے ہیں لکھا یعنی خدا بناکر بٹھایا
اور جب میں اپنے بلاگ میں انکی خدائی پر لکھا کرتا تھا تو آپ صد ناراضگی کا اظہار کرتے رہے
ویسے خدا ، خدا کی تکرار اور حکمرانوں کے اپنے زعم میں خدا بننے پہ ایک شعر یاد آیا ..
زرداری صاحب کے نام
تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھ
شعیب صاحب
مجھے یاد نہیں آ رہا ۔ از راہِ کرم اُس تحریر کا ربط تو بتا دیجئے جس پر میرے تبصرہ کا آپ نے ذکر کیا ہے
کاش کہ وہ آتے کسی دن ہماری گلی میں بھی
یہ بھی کسی لیاری میں مقیم معصوم شہری کے دوران آپریشن دل سے نکلنے والی ہی صدا ہو سکتی ہے
ارتقاءِ حيات صاحبہ
اتنا ظلم تو نہ کیجئے ۔ میں نے تو لیاری دیکھا بھی نہیں پھر میری بات لیاری والی کیسے ہو سکتی ہے ؟