صدر ۔ وزیر اعظم صاحب اور اُن کے حواریوں نے سرائیکی صوبہ کا واویلا اس قدر مچا رکھا ہے جیسے سرائیکی صوبہ بننے سے پاکستانیوں کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی ۔ بجلی دُور دراز ہر گاؤں کو ملنے لگے گی ۔ بجلی ۔ پٹرول ۔ گیس اور دیگر اشیاء ضروریہ اتنی ارزاں ہو جائیں گی کہ غریب مزدور بھی نہال ہو جائیں گے
البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا صوبہ جس کیلئے اُس علاقے کے مکینوں نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی وہ ان صاحبان کا محبوب کیوں بن گیا ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ اس شور شرابے سے عوام کی توجہ اپنی نا اہلی اور بدعنوانیوں سے ہٹانے کی کوششِ لاحاصل کر رہے ہیں ۔ ہزارہ صوبہ جس کیلئے وہاں کے مکینوں نے جلوس نکالے اور کراچی تک جا کر جلسے بھی کئے اُس کا نام نہیں لیا جا رہا ۔ یا پھر ان کے پاس پنجاب حکومت کے خلاف کچھ اور نہیں رہ گیا تو یہی سہی
اگر انتظامی بہتری کیلئے چھوٹے صوبے بنانا ضروری ہوں تو الگ بات ہے لیکن لسانی بنیادوں پر ایک نیا صوبہ اگر بنا دیا گیا تو پھر مزید صوبوں کیلئے اُٹھنے والی آوازوں کو کون روکے گا ؟ مزید یہ کہ سرائیکی بولنے والے صرف صوبہ پنجاب میں نہیں رہتے بلکہ خیبر پختونخوامیں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور صوبہ سندھ میں پنجاب کی سرحد سے شکارپور تک سرائیکی علاقہ ہے ۔ اگر بنیاد سرائیکی ہے تو پھر ڈیرہ اسمٰعیل خان اور شکار پور تک کا سارا علاقہ بھی اس نئے صوبے میں شامل ہونا چاہیئے
اگر تاریخی حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بہاولپور کا علاقہ پاکستان بننے سے قبل ایک علیحدہ ریاست تھی جس کے پاکستان میں شامل ہونے کے وقت اس علاقے کا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا ۔ بہاولپور کا علاقہ 19 اپریل 1951ء کو ایک صوبہ قرار دیا گیا ۔ 1952ء میں وہاں اسی بنیاد پر انتخابات ہوئے اور صوبائی حکومت قائم ہوئی ۔ پاکستان کے آئین کا جو مسؤدہ 1954ء میں تیار ہوا اُس میں بھی بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ دکھایا گیا تھا ۔ 1955ء میں وَن یونٹ (One Unit) کا اعلان کر کے بہاولپور کو مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا مگر اُس وقت بھی بہاولپور کو ایک وفاقی اکائی (Federal Unit) ظاہر کیا گیا تھا ۔ 1970ء میں فوجی آمر نے سیاسی رہنماؤں بشمول ذوالفقار علی بھٹو کے دباؤ میں آکر مغربی پاکستان کے 4 صوبے بنائے اور بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنا دیا ۔ اس کے بعد سے وہاں کے مکین گاہے بگاہے علیحدہ صوبہ بہاولپور کیلئے آواز اُٹھاتے رہے ہیں مگر وہ پنجاب سے علیحدہ ہو کر بہاولپور کی بجائے کسی اور صوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتے
صدر ۔ وزیر اعظم اور پی پی پی کے وزراء بار بار آئین کی حکمرانی کا دعوٰی کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239 (4) کے مطابق کسی صوبے کی حدود بدلنے کیلئے لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی اکثریت مجوزہ تبدیلی کی منظوری دے ۔ متعلقہ صوبہ پنجاب ہے جہاں پی پی پٌی کے پاس ایک تہائی نشستیں بھی نہیں ہیں ۔ پی پی پی کے بڑے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی سرائیکی صوبے کا شور مچائے جا رہے ہیں ۔ اس طرح مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟
سرائیکی لوگوں نے جو ابھی تک سرائیکی علاقہ میں مقیم ہیں بتایا کہ اگر سرائیکی علاقہ کے مکینوں کی رائے لی جائے تو علیحدہ صوبے کے حق میں بہت ہی کم رائے آئے گی ۔ جو چند لوگ سرائیکی صوبے کا راگ الاپ رہے ہیں اُس کا سبب یہ ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں رُکن اسمبلی یا وزیر بن کر جتنا وہ لوٹتے رہے ہیں وزیر اعلٰی اور گورنر بن کر اور زیادہ لوٹنے کے خواہشمند ہیں اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی سوچ رہے ہیں
زمینی حقائق کے مطابق مجوزہ سرائیکی صوبہ میں قدرتی وسائل بہت کم ہوں گے ۔ صنعت مفقود ہے ۔ اس کی آمدن صرف زرعی پیداوار ہو گی جو کہ بہت کم ہے ۔ چنانچہ اس مجوزہ صوبے کے عوام خوشحال ہونے کی بجائے مزید بدحال ہو جائیں گے ۔ آخر کیا بات ہے کہ حکمرانی کے 4 سال گذرنے کے بعد زرداری کو اچانک یہ صوبہ بنانے کا خیال آیا ؟ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں
1 ۔ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی جنہوں نے زرداری کو گدی نشین کیا ۔ اُنہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد کراچی کا حال تو خراب کر ہی رکھا ہے ۔ اب پنجاب باقی رہتا ہے جو ہے بھی اصل خطرے کا سبب کیونکہ ایٹم بم اور فوجی ہیڈ کوارٹر دونوں پنجاب میں ہیں
2 ۔ تاریخ کی ستم ظریفی کے تحت مجوزہ صوبہ کے لوگوں کی خصلت میں وڈیروں کی تابعداری شامل ہو چکی ہے چنانچہ چند وڈیروں کو فائدہ پہنچا کر یہاں کی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد معاشی بدحالی کو دُور کرنے کا لالچ دے کر مجوزہ صوبے کو صوبہ سندھ کے ساتھ ملا کر دریائے سندھ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ راوی ۔ چناب اور جہلم پر پچھلی حکومت کی مہربانی سے بھارت کئی ڈیم بنا چکا ہے اور ایک اور بڑا ڈیم (بگلیہار) موجودہ حکومت کی مہربانی سے تیار ہونے کو ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پنجاب پانی سے محروم ہو کر دوسرے صوبوں کے سامنے بھکاری بن سکتا ہے ۔ گیلانی جیسے رہنما جو مُلک سے زیادہ آقا کے خیر خواہ ہیں کی موجودگی میں یہ عمل بہت آسان ہو گا
3 ۔ ایم کیو ایم زرداری اینڈ کمپنی کے پاؤں میں چُبھنے والا ایسا کانٹا ہے جسے فی الوقت نکالنا خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مجوزہ صوبہ کو صوبہ سندھ میں شامل کر کے ایم کیو ایم کی حیثیت اقلیتی بنائی جا سکتی ہے اور اس کانٹے کو نکال پھینکا جا سکتا ہے
مندرجہ بالا منصوبہ پر عمل کرنے کے بعد زرداری قائدِ سندھ بن سکتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد گدی نشین ہو سکتی ہے
(مندرجہ بالا مضمون اس سلسلے میں شائع ہونے والے متعدد تجزیوں کا خلاصہ ہے)
اللہ وہ وقت نہ لائے کیونکہ وہ وقت محبِ وطن پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں اور مہاجروں کیلئے بہت بُرا دن ہو گا اور سب سے بڑھ کر اس مُلک پاکستان کیلئے بُرا ہو گا جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے جان و مال کی بے بہا قربانیاں دیں تھیں اور ہم لوگ لُٹے پُٹے قافلوں میں اپنے گھروں اور اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ کر اس وطن کو آباد کرنے آئے تھے
زندہ رہے گا پاکستان تو زندہ رہے گا
اِن شاء اللہ پاکستان زندہ رہے گا
یہ مُلک پاکستان جو کُل کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والے اللہ وحدہُ لا شریک لہ نے ہمیں عطا کیا تھا وہی اس کی حفاظت کرے گا
جناب اجمل بھوپال صاحب ،
اس معاملے میں فدوی آپ سے متفق نہیں ہے -…
میرا کہنا ہے کہ … جو کرنا ہے کر ڈالیے.. نہے صوبے بننانے ہیں یا نہیں … اسکا فیصلہ جلد از جلد ہو معاملہ کو ٹالا نہ جاۓ…
جیسے صوبہ سرحد کے نام کا معامله تھا .. کتنے ہی عرصے (نام نہاد ) محب وطن ڈراتے رہے نام بدل دیا تو یہ ہو جاۓ گا وہ ہو جاۓ گا .. خاکم بدہن پاکستان ٹوٹ جاۓ گا یا اسکی طرف پہلا قدم ہو گا …
ہوا کیا کچھ بھی نہیں ….
اسی طرح کالا باغ ڈیم کے منصوبہ کو ٹالا گیا اگر فیصلہ ہو جاتا … تو ابھی یا تو کالا باغ ڈیم ہوتا یا اسکا کوئی متبادل ….
اسی وزن پر آپ نہے صوبوں کی نظم کو پڑھے …
آپکی بیان کردہ وجوہات میں تو کوئی وزن نہیں ہے …
١) پنجاب میں امن، فوج اور اسٹبلشمنٹ کے مفاد میں ہے … جو haath پنجاب کو بم دھماکوں کی کثرت کے بعد پر امن بنا سکتا ہے وہ سندھ اور باقی صوبوں کو بھی بنا سکتا ہے … یہاں فرق آتا ہے نیت کا ….
اور فوج کے اثاثوں کی موجودگی کا … جس طرح GT road پر ہر چند کلومیٹر کے بعد ایک فوجی اثاثہ ہے اگر ایسا ہی سندھ یا بلوچستان میں ہوتا تو وہاں کی HIGHWAYS بھی محفوظ ہوتیں ….
٢) آپ کے پچھلی حکومت کو برا کہنے سے کیا ہو گا وہ تو خالص فوج کی حکومت تھی … جس کا تسلسل ابھی بھی فوج میں جاری ہے … آپکے ممدوح سابق آرمی چیف کے لگے ہوئے سب جنرلز ابھی بھی تمام چنیدہ پوسٹس پہ موجود ہیں کچھ تو ریٹارڈ ہونے کے بعد بھی موجود ہیں ….
٣) یہ بات تو انتہائی مفروضہ ہے … نہے صوبوں کا سندھ کی مقامی سیاست سے کیا لینا دینا ….
مانا کے MQM سب کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے . جو کہ صرف کراچی اور حیدراباد پہ قبضہ کی وجہ سے پورے بلوچستان سے زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹس لے جاتی ہے ….لیکن اس پرابلم کا حل اس طرح نہیں ہو سکتا ….
پاکستان ایک رہے .. اور ترقی کرے یہ تو میری اور سب کی دعا ہے …
لیکن کیا کریں
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
اس ملک کو دینے والا پہلے بھی اس کے ٹوٹنے کا فیصلہ کر چکا ہے .. وہ علیحدہ بات ہے کے ہم یہ بات ہی فراموش کر بیٹھے ہیں کے یہ پورا نہیں بلکہ باقی ماندہ پاکستان ہے …الله کی سنّت بدلہ نہیں کرتی…. ولن تجد لسنة الله تبديلا
لہذا ہمیں اس ملک کو ایک رکھنا ہے تو اس کے لئے ہمیں اگلی دفعہ بہت سوچ سمجھ کے ووٹ دینا ہو گا …
اور یہ بات تو خیر نہایت واضح ہے کہ مزید صوبہ بننے سے تو ملک نہیں ٹوٹے گا البتہ نہ بننے کی صورت میں کچھ کہا نہیں جا سکتا …
ایک بات واضح کر دوں کے میں ہر گز زرداری اینڈ کو کی حالیہ مہم کے حق میں نہیں … بلکہ نئ صوبوں کے اصولی طور پر حق میں ہوں
سر جی نئے صوبے بنانے کے حق میں ہوں میں بھی پر ان کا سراسر سیاسی فریب ہے اگر انہوں نے بنانا ہوتا تو اب تک بن چکا ہوتا۔سب سے بہترین تو میرے خیال میں یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیا جائے باقی اور ہم کسی بات پر راضی ہوئے ہیں جو یہ کام آرام سکون سے ہو جائے۔
نعمان صاحب
آپ جلد بازی کر جاتے ہیں یا پھر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں ۔ پوری عبارت دھیان سے پڑھ تو لیا کریں ۔ یہ خیالات آپ نے میرے کیسے بنا دیئے ؟ میں نے لکھا ہوا ہے ۔
ویسے میری تحریر کو آپ صبر و تحمل سے پڑھتے تو بات سمجھ میں آ جاتی ۔ آپ نے نمبر 1 کے تحت جو لکھا ہے وہ زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا ۔ کالا باغ ڈیم کی آپ نے بات کی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہ بننے دیا اور کس نے نہ بننے دیا ؟ اس کی وجہ صرف ذاتی تھی اور ہے جس کے باعث ملک و قوم کا کروڑوں روپیہ ضائع ہوا اور اب بجلی کی کمی کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے ۔ ذمہ دار ہیں ذوالفقار علی بھٹو ۔ سندھ کے چند وڈیرے اور اے این پی کے اربابِ اختیار
علی صاحب
میں آپ سے متفق ہوں
سر ایک بات واضح ہے کہ …کالا باغ ڈیم بھٹو سندھی وڈیروں اور ANP نے نہیں بننے دیا …
لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں .. وہ کون لوگ تھے جو یہ ٹھان کے بیٹھے ہوئے تھے کہ بنے گا تو کالا باغ ڈیم ورنہ نہیں …
کیا پاکستان کی دنیا کالا باغ ڈیم کے گرد گھومتی تھی …. میں اس سائیکی کا سخت مخالف ہوں کے ہر پرابلم کو پاکستان کی بقا کا مسئلہ بنا دیا جاۓ
کالا باغ ڈیم بننے اور نہ بننے کے تناظر میں ہر دو فریق قصور وار ہیں .. ہاں البتہ نہ بننے دینے کے حامی زیادہ قصور وار ہیں …
پاکستان تو ابھی بھی کالا باغ ڈیم کے بغیر چل رہا ہے … اگر اس ڈیم کی جان چھوڑ کر آگے بڑھا جاۓ اور دوسرے پروجیکٹ شروع کے جایں تو بہتر ہیں ….
ہم لوگوں کے سوچنے سمجھنے کا انداز ہی ایسا ہو گیا ہے کے ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں .. اور یہ رخ وہ ہوتا ہے جو دکھایا جاتا ہے …. تصویر کا دوسرا رخ بھی ہوتا ہے … لیکن اس رخ پہ بات کرنا ارباب اقتدار یا ایسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں نہیں ہوتا لہذا اس پہ بات ہی نہیں کی جاتی …
ایک مثال دیتا ہوں …
اکثر لوگ بلوچستان کی تنزلی کا ذمے دار وہاں کے سرداروں کو گردانتے ہیں .. جو کروڑوں اربوں روپیہ کھا کے بیٹھے ہوئے ہیں ….
کبھی کسی نے سوچا … کے وہ کون تھا جو ان سرداروں کو روپیہ دیتا تھا اور ان سے کچھ نہیں پوچھتا تھا ..کہ یہ روپیہ کہاں جا رہا ہے .. ہم اس رخ پہ بھی تو سوچیں نہ کے ان سرداروں کو اسٹبلشمنٹ ،حکومت ہی پال پوس رہی تھی اور ابھی بھی رہی ہے ….
اسٹبلشمنٹ اور وہ ادارے بھی بلوچستان کی بربادی کے برابر کے ذمہ دار ہیں جو ان سرداروں کو اربوں کھانے دیتے تھے اور ان سے باز پرس نہیں ہوتی تھی ….(یہ بات ذہن میں رہے کے ابھی بھی وہاں سرداروں کی حکومت ہے اور سب کے سب اراکین اسمبلی وزیر یا وزیر کے برابر کے عہدے دار ہیں ماسواۓ ایک رکن کے )
اگر اسٹبلشمنٹ اور حکومت ان کو پیسہ دینے سے انکار کرے تو بات ہے نہ … یہ سارے سردار، اسٹبلشمنٹ کے پالے ہوئے بھیڑیے ہیں جو اب سب کی طرف دیکھ رہے ہیں …
ابھی بھی اسٹبلشمنٹ کچھ سرداروں سے لڑ رہی ہے اور باقیوں کو شہ دے رہی ہے ….
ویسے میرا کہنا یہ ہے کہ خدا کے لئے …مزید صوبوں کے مسئلہ کو پاکستان کی بقا کا مسئلہ نہ بناہے …ملک اتنے بھی brittle نہیں ہوتے کہ اتنی سی ضرب بھی برداشت نہ کر سکیں …
ورنہ ووہی ہو گا جیسے آج کی نسل اگلی نسل کو کہ رہی ہے … کیا ہوا جو صوبہ سرحد کا نام بدل گیا … پاکستان میں تو کچھ نہیں بدلا.. آپ لوگ ایسے ہی ڈرے ہوئے تھے …
اور یہ بات تو ذہن سے نکال ہی دیں کے الله پاکستان کی حفاظت کرے گا
…دنیا اسباب کی محتاج ہے .. یہاں ووہی ہوتا ہے جس کے لئے محنت کی جاتی ہے …
اگر پاکستان میں پہلے کی طرح اجتماعی ظلم ہوا تو کون کہ سکتا ہے کہ الله فرشتوں کی فوج بھیج کر پاکستان ٹوٹنے سے بچاۓگا (واضح رہے کے الله رب العزت نے پہلے بھی نہیں بچایا تھا )
نعمان صاحب
آپ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ قصور وار تو آپ بہی ہیں کہ مُلک چھوڑ کر باہر بیٹھے صرف تنقید ہی کر رہے ہیں ۔ حضور میں نے بچانے کیلئے دعا کی تھی ۔ میں پہلے بھی آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ پہلے اچھی طرح دیکھ کر پڑھ لیا کییجئے پھر تقریر لکھا کیجئے ۔ ذرا میرے بلاگ کے بائیں حاشیئے پر نظر ڈالئے تو میرا مسلک آپ کو شاید سمجھ میں آ جائے
بے شک میں بھی قصور وار ہوں ..لیکن میرا شمار ان میں ہے جنہوں نے اپنی سی کوشش کی ، پھر انھیں واپس نہ آنے دیا گیا…
کبھی آپکو اپنی کہانی بھی سناؤں گا اور فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا …
کیا مسائل نئے صوبے بنانے سے ختم ہوجائیں گے؟ اس سامراجی نظام کے بطن سے برآمد ہونے والی کوئی بھی شے کیونکر عوامی فائدے کی چیز ہو سکتی ہے؟
با اختیار شہری حکومتیں مزید صوبوں کا بہترین نعم البدل ہوسکتی ہیں۔
نعمان صاحب
اتنا بتا دیجئے کہ آپ گئے کیوں تھے اور واپس کس نے نہ آنے دیا ؟ میرا اندازہ ہے کہ آپ جرمنی میں ہیں
شہری حکومتوں کی حمایت .. لگتا ہے ڈاکٹر جواد کراچی کے رہنے والے ہیں …
یا تو کراچی والے شہری حکومت کے حمایتی ہیں یا اب عمران خان جاہلوں کو عقل دینے کی کوشش کر رہا ہے …
نعمان صاحب
آپ کس دنیا میں رہتے ہیں ؟ کراچی کے کچھ سیاسی لیڈر کہلانے والے سیاسی فائدے کیلئے بیان داغتے رہتے ہیں ۔ صوبہ سندھ اور وفاق دونوں میں ا(ن کی حکومت ہے ۔ ضلعی حکومتیں بنا کیوں نہیں دیتے ؟ ضلعی حکومتیں ہونا چاہئیں مگر ویسی نہیں جو پرویز مشرف نے بنائی تھیں ۔
جناب میں تو اسی دنیا میں رہتا ہوں …
ضلعی حکومتیں کیسی ہوں .. یہ علیحدہ موضو ہے …
ہر نظام میں کچھ کمی یا کوتاہیاں رہ جاتی ہیں .. جو وقتا وفقتا دور ہوتی رہتی ہیں …
مجھے کراچی کے خداؤں نے کیا دیا ہے جو میں انکی حمایت کروں گا (ہاں رائونڈ کے خداؤں کی آپ جانیں … )… بات تو اصول کی ہے، جہلا کی اکثریت سمجھتی ہے کے رکن قومی اسمبلی کا کام سڑکیں بنانا ہوتا ہے . یا صفائی کرانا ہوتا ہے …
نعمان صاحب
کوتاہیاں رہ جانا اور بات ہے اور بد دیانت نظام اور ۔ اس کے ساتھ ساتھ کیا آپ جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت نے تمام چھاؤنیوں ۔ اسلام آباد اور چند اور ضلعوں میں ضلعی نظام نافذ نہیں کیا تھا ۔ میرا تو صرف ایک ہی خدا ہے جو مجھے سب کچھ دیتا ہے اسلئے مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کوئی خواہش نہیں
آپ کی بات بجا ہے یہ بد دیانتی تھی … لیکن میں یہ کہتا ہوں کے کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے …
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک میں وفاقی جمہوریت ہو .. لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری مقامی جہوریت یعنی بلدیاتی / ڈسٹرکٹ حکومتیں ہیں کیونکہ یہ ہی مسائل حل کریں گی،عام آدمی کے …
حال ہی میں تحریک انصاف نے بھی اپنا vision پیش کیا ہے اس بارے میں اور وہ زیادہ اچھا ہے پچھلی ڈسٹرکٹ حکومتوں سے ….
ویسے اگر آپ کا خدا آپ کی خواہشیں پوری نہ کرے تو کیا آپ رائونڈ کے خداؤں کے پاس جانے کے لئے تییار ہیں .
کیوں کہ آپ مجھے زبردستی MQM سے ٹیگ کرتے ہیں اسی لئے میں آپکو جواباً نواز لیگ سے کر دیتا ہوں ..
نعمان صاحب
محمد ایوب خان نے بنیادی جمہویت کا نظام گو اپنے فائدہ کیلئے بنایا تھا ۔ بنیادی جمہوریت کے اراکین وغیرہ میں سے کچہ نے مال بھی بنایا تھا لیکن جتنا اُس زمانہ میں عوام کیلئے جتنا کام ہوا اتنا پھر کبھی نہ ہوا ۔ اور وہ اراکین اور علاقہ چئیرمین عام آدمی کو دستیاب ہوتے تھے
گستاخی معاف ۔ آپ کا آخری فقرہ بہت فضول بلکہ بدبُودار ہے ۔
میرا اللہ سمندر کی تہہ ۔ برفانی پہاڑوں ۔ ریگستانوں اور زمین کے اندر بسنے والوں کو اُن کی ضروریاتِ زندگی دیتا ہے تو مجھے کیوں مایوس کرے گا ؟ میں تو ایک بستے شہر میں رہتا ہوں
جی سر بنیادی نکتہ یہی ہے کہ ایک نظام ہو جو عام آدمی کے مسائل حل کرے … چاہے نام جو بھی ہو …
ایسا نہ ہو جو ابھی تک ہوتا آیا ہے .. کہ بنیادی جمہوریت یا بلدیاتی نظام یا مقامی ڈسٹرکٹ حکومتیں ،… یہ سب فوجی آمروں نے دیا ….
کسی بھٹو، شریف یا اور سیاستدان کو ایک نظام دینے کی ہمّت نہیں ہوتی جو مقامی مسائل حل کرے …شاید ووہی بات صحیح جو پاکستان میں کہی جاتی ہے کہ …سیاستدان مسائل حل نہیں کرنا چاہتے تاکہ اگلی دفعہ ان کو حل کرنے کے وعدہ پہ ووٹ لے سکیں
ویسے پچھلے تبصرہ میں آخری اور اس سے پہلے والا جملہ ، جملہ معترضہ تھا …
کوئی خاص مطلب نہیں تھا .. آپ چاہیں تو حذف کر دیں