آج ہر طرف سے سدا آتی ہے 64 سال سے کچھ نہیں ہوا ۔ حاکم غاصب تھے لُٹیرے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ہاہا کار کا سبب مُلکی ذرائع ابلاغ ہیں جو کچھ دنوں سے کچھ سچ کہنا یا لکھنا شروع ہوئے ہیں لیکن پچھلی چار پانچ دہائیوں سے عوام کو گمراہ کرنا ان کا نصب العین رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے لوگ اتنے کم ظرف اور لالچی نہ تھے جتنے ہمارے حکمران اب ہیں ۔ خاور صاحب نے “بے چارے کم ظرف لوگ” لکھا ۔ اسے پڑھتے ہوئے میرا ذہن واقعات کی کھوج میں ماضی کا سفر کرنے لگا ۔ میں اُس دور میں پہنچ گیا جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور نواب کالاباغ امیر محمد خان گورنر تھا
مجھے یاد آیا کہ
1 ۔ گوجرانوالہ میں منقعدہ ایک شادی میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان بھی مہمانوں میں شامل تھا ۔ حسبِ معمول مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے بھانڈوں نے بولیاں مارنا شروع کیں :
“او سُنا کچھ تم نے ؟”
“کیا ؟”
“ایوب خان نے پاکستان کے سارے غُنڈے ختم کر دیئے ہیں”
“اوہ ۔ نہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ”
“سچ کہتا ہوں”
“پر کیسے ؟’
“سارے بی ڈی ممبر بنا دیئے ہیں”۔ بی ڈٰ ممبر یعنی رُکن بنیادی جمہوریت
اس پر محمد ایوب خان نے قہقہہ لگایا اور دونو کو سو سو روپیہ دیا ۔ اُن دنوں سو روپیہ بڑی رقم تھی ۔ اس سے بڑا نوٹ نہیں تھا
2 ۔ انارکلی میں ایک آدمی مصنوعی مونچھیں بیچتے ہوئے آواز لگا رہا تھا
“دوانی دی مُچھ تے گورنری مفت” (دو آنے کی مونچھ اور گورنری مفت ۔ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)
پولیس والے نے پکڑ کے اُس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے روز یہ خبر اخبار میں چھپ گئی
گورنر نے خبر پڑھ کر حُکم دیا “متعلقہ آدمی حاضر کیا جائے”
پولیس نے حاضر کر دیا تو گورنر امیر محمد خان نے اُسے پوچھا “سچ بتاؤ تم نے کیا کہا تھا ؟”
غریب آدمی سہما ہوا تھا ۔ ڈرتے ڈرتے کہا “جی جی ۔ میں مصنوعی مونچھیں بیچ کر اپنی روٹی کماتا ہوں”
گورنر نے پوچھا “مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم کیا کر رہے تھے ؟”
اُس آدمی نے مصنوئی مُونچھ اپنے لگائی اور کہا “دوانی دی مُچھ تے گورنری مُفت”
گورنر امیر محمد خان نے ہنس کر اُسے تھپکی دی اور نقد انعام بھی دیا
اس ملک مین کبھی کوئی مخلص حکمراں نہیں آیا آج کال تو خصوص سیاست کرنے والے کے لیے غنڈہ بھی ہونا ضروری پے
karakoramzone
میرے بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ
زبر دست
Truth Exposed
حوصلہ افزائی کا شکریہ