ميں قسط 1 ميں اپنے ہی مقرر کردہ اُن اصولوں کو نقل کر چکا ہوں جن کا ميری کاميابی ميں کچھ حصہ تو ضرور رہا ہو گا ۔ لڑکپن ميں وطن سے ميرے لگاؤ کی ايک جھلک ان اشعار ميں ملتی جو ميں نے اپنی عام استعمال کی بياض پر نقل کئے ہوئے تھے
وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حريمِ جمال ۔ وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عروجِ کمال
وطن کہ سرمہ چشم طلب ہے خاک اسکی ۔ وطن شہر نغمہ نکہت ديارِ حُسن و خيال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے ۔ وطن کہ جہاں ميری شمع وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے ديپ جلتے ہيں ۔ وطن جو يوسف بے کارواں کا کنعاں ہے
ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے ۔ روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيام آئے ۔ ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے
ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صبا ۔ گُلوں سے کہنا کہ پيغمبر بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل ۔ چمن کا روپ ہوں ميں حُسنِ لالہ زار ہوں ميں
چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی ۔ پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی
جناب میں نے تبصرہ کرنے میں پہل کردیا!
آپ نے کاپی پیسٹ کی ہے کہ اوپر والی غزل کے مالک آپ خود ہیں؟
شعیب صاحب
اشعار کے اُوپر یہ فقرہ لکھا ہے
لڑکپن ميں وطن سے ميرے لگاؤ کی ايک جھلک ان اشعار ميں ملتی جو ميں نے اپنی عام استعمال کی بياض پر نقل کئے ہوئے تھے
اس کے بعد آپ کا سوال غیر ضروری ہے ۔ نقلکا کیا مطلب ہوتا ہے ؟
بھوپال صاحب …
ویسے اسلام میں حب الوطنی کا کیا مقام ہے ؟
وطن سے محبّت اور اسلام … مجھے تو یہ دو متضاد باتیں لگتی ہیں …
آپ کا کیا خیال ہے … ؟
ویسے اسلام کے ایک عظیم ترجمان .. جو مفکر بھی تھے اور ساتھ ہی شاعر بھی تھے انہوں نے کہا تھا ..
وطنیت
علامہ محمد اقبال ؒ
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہء تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہء دینِ نبَویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفویؐ ہے
نظّارہء دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
نعمان صاحب
علامہ نے فرمایا تھا “مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا”۔ میں نے بات قومیت کی نہیں کی ۔ لیکن جس جگہ آدمی رہائش پذیر ہو حتٰی کہ جس جھونپڑی میں بھی رہے اُس سے اُنس ہونا بھی اُسی فطرت کا تقاضہ ہے جو اللہ نے آدمی کو عطا کی ہے ۔ دین اسلام ہر لحاظ سے اوّل ہے ۔ ہجرت کا فلسفہ کیا ہے ؟ دین اسلام کی خاطر اپنا وطن اپنا گھر بلکہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئی جگہ پر ایک نئی زندگی شروع کرنا
یہ جو لوگ ا(ردو اسپیکنگ ۔ مہاجر ۔ سندھی ۔ پنجابی ۔ بلوچی ۔ پٹھان ۔ سیّد ۔ مرزا ۔ چوہدری ۔ ملک ۔ پیر ۔ پیر زادہ وغیرہ وغیرہ کا راگ الاپتے ہیں ان کے متعلق کیا خیال ہے آپ کا ؟
فی زمانہ .. قوم ملک سے ہی بنتی ہے .. لہذا جب آپ وطن پرستی کی بات کریں گے تو اس سے قوم پرستی ہی لیا جاۓ گا …
اقبال نے یہ نظم اس وقت لکھی جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ رہی تھی یا ٹوٹ چکی تھی اور مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹا جا رہا تھا … ساتھ ہی یہ نظم اقبال کی اپنی نظم ترانہ ہندی کا جواب بھی تھی …
رہی بات پنجابی اور دوسری قوموں یا برادریوں ، کی تو …
جناب میں ذرا بڑے پیمانے پر بات کر رہا تھا ..
زبان ، قبیلہ تو الله کی نشانی ہے .. تاکہ اس سے لوگ ایک دوسرے کی شناخت کر سکیں … نہ کہ ایک دوسرے پر فضیلت یعنی بڑائ ظاہر کر سکیں ….
آج کل مسلمان زبان ، ملک کی بنیاد پہ تقسیم ہے .. اور ملک خداداد پاکستان میں تو اتنی بنیادوں پر کے آسانی سے گنی بھی نہیں جا سکتی …
نعمان صاحب
وطن سے اُنس کو آپ وطن پرستی کہتے ہیں تو پھر اپنی ماں سے محبت کو بھی ماں پرستی کہا جائے گا ؟ نعمان صاحب آپ مجھے متعصب کا خطاب دے دیا کرتے ہیں ۔ تعصب دراصل دوسرے کی بات کو سمجھے بغیر اپنی ہی کہے جانے کا نام ہے
حضرت میں آپ کو متعصب نہیں کہتا صرف اتنا ضرور کہتا ہوں … آپ اپنے سلجھے ہوئے خیالات کو اپنے دوستوں اور اقارب کے علاوہ generalize نہیں کر سکتے ۔۔۔ کم از کم میرا تجربہ نہیں مانتا اس بات کو،
رہی بات وطن پرستی اور ماں سے محبّت کو ایک جیسا کہنا تو یہ آپ سے امید نہیں ہیں کہ آپ کہیں .. اور میں بھی ایسا نہیں مانتا …
لیکن یہ ضرور کہیں گا وطن سے محبّت .. انفرادی طور پہ اچھا عمل ہو سکتا ہے لیکن اجتماعی طور پہ یہ ووہی نتائج لاتا ہے جو ابھی غزہ کے محصورین بھگت رہے ہیں …
نعمان صاحب
آپ نے مثال اگر محصورینِ بنگلہ دیش کی مثال دی ہوتی تو درست نہ تھی ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ غزہ کے محصورین وطن پرستی کی سزا بھگت رہے ہیں تو بحث کرنا ہیں تو آپ کا علم مجھ سے اتنا زیادہ ہے کہ مجھ میں کچھ کہنے کی جراءت باقی نہیں رہتی ۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں نے کبھی اپنے خیالات کو کبھی اپنے بیوی بچوں پر بھی جنس وار نہیں کیا
آپ کا کیا خیال ہے غزہ کے محصورین کے بارے میں ….یا پورے قضیے کے بارے میں …
کیا عرب دنیا کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں نہیں بانٹا گیا جن کی ..؟…. نے باری باری پٹائی لگائی اورجب قدم جم گے تو ایک ساتھ بھی لگائی …
اگر یہ سب چھوٹے چھوٹے وطنوں میں نہیں بنٹا ہوتا تو کیا ہوتا آپکو بھی پتا ہے اور مجھے بھی ….
مصر نے “ان” پر صرف اس وجہ سے زمین تنگ نہیں کی ہی کے اس میں مصر کا تھوڑا سا فائدہ ہے ….
آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں … اس میں کوئی دو راۓ نہیں ہیں
لیکن میں جو محسوس کرتا ہوں لکھتا ہوں … جو کہ میں نے اکثر غلط بھی پایا ہے ….اور تصحیح بھی کی ہے اپنے خیالات میں بھی اور عمل میں بھی …
اگر آپ کے بلاگ پہ آ کر سیکھ نہیں رہا ہوتا، تو آتا ہی کیوں ؟
نعمان صاحب
غزہ اور فلسطین ہو یا جموں کشمیر یہ ایک طویل گفتگو مانگتے ہیں ۔ اور جب آپ کو پتہ ہے تو پھر پوچھنے سے فائدہ ؟
آپ میرے بلاگ پر آتے ہیں جس کیلئے میں آپ کا احسان مند ہوں ۔ اگر آپ کچھ سیکھتے ہیں تو میری اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص میرے بلاگ سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اب اصل مسئلہ کی طرف ۔ اولّ دین اسلام ہے اور اسی میں وطن بھی آ جاتا ہے اور باقی سب بھی ۔ اس آیت مبارکہ کو دیکھیئے ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیات 190 ، 191
لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو ۔ اللہ تعالٰی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے ۔ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو ۔ کافروں کا بدلہ یہی ہے۔
کہاں سے نکالنے کا حُکم ہے ؟ اُن کے وطن سے
اگر سچ بولوں تو میں اس معاملہ میں کنفیوز ہوں …
بچپن سے سن رہے ہیں
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
خطیب صاحب فرماتے تھے کہ یہی وجہ تھی جس کی بنیاد پہ ہمارے آباء و اجداد نے ہندوستان سے ہجرت کی …
پھر بڑے ہوئے تو پتا چلا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا
صرف اسلام کا نام لینے سے نہ کوئی بھائی بنتا ہے اور نہ دوست …
یہ سب مسجد کہ اندر بیٹھ کے کی جانے والی باتیں ہیں جسے خطیب مسجد بھی باہر نکل کے بھول جاتا ہے …
اور عملی درس پہلی جاب پہ ایک صاحب نے نفرت کر کہ دیا ، جن کی سر سید جیسی لمبی ڈاڑھی اور پائنچے ٹخنوں سے اونچے ، شاید نماز بھی پنج وقتہ پڑھتے ہوں کم از کم آفس کے اوقات میں تو پڑھتے تھے
پھر پتا چلا نعمان صاحب، اگر آپ عصبیت کا مظاہرہ نہیں کرتے تو ضروری نہیں کے سامنے والا بھی نا کرے … لہذا کسی کے بظاھر اسلامی رہن سہن پہ نہ جاؤ
پاکستان میں اسلامی ہونے سے فرق صرف اتنا پڑتا ہے کے لوگ آپ سے یا آپس میں زبان اور صوبے کی بنیاد پہ نفرت کرنے میں اسلامی حوالے ڈھونڈ لیتے ہیں …
جیسے ایک جاپانی بھائی صاحب نے کھوکھر کے بلاگ پہ MQM کی برائی کرتے ہوئے فرمایا .. تو کیا ہوا اگر ہندوستان سے آنے والے پڑھے لکھے تھے — پڑھا لکھا تو ابو جھل بھی تھا …
دیکھا آپ نے شاہ اسماعیل شہید دہلوی کی تعریف کرنے والے سید زادے کے اسلامی ذہن نے دکھائی ووہی عصبیت .. فرق یہ پڑا حوالہ اسلامی دے دیا …
اس لئے کم از کم میں وطن کی محبّت سے تو بہت پہلے تائب ہو گیا تھا … کیونکے کم از کم ..وطن کی محبت ایمان کی شرایط میں سے نہیں ہو سکتی
البتہ اسلام چھوڑ نہیں سکتا … اس لئے نام نہاد اسلامی ذہن والوں سے ذرا ہوشیار رہتا ہوں …
آپکو پرکھا اور جانا کے کم از کم آپ MQM کی برائی گنانے میں .. سب اردو بولنے والوں کو نہیں رگیدتے .. کیونکہ سب MQM کے ساتھ نہیں ہیں… جبھی تو وہ اسلحہ اٹھاتے ہیں اور سب سے پہلہ نشانہ mqm کا اردو بولنے والا ہی بنتا ہے
الله آپکو جزاۓ خیر دے .. جزاکم الله خیر و احسن لجزاء
“اگر سچ بولوں ۔ ۔ ۔”۔ گویا آپ سچ بولنے سے ڈرتے ہیں
“ترکِ وطن” نہیں” دین کی خاطر ہجرت” سُنّتِ رسولﷺ اور فرمانِ الٰہی ہے ۔
جس شاعر نے لکھا تھا “اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا” وہ تو دہریا تھا
آپ تو بہت کم کہہ گئے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کی وہ نماز نماز ہی نہیں جو صرف اور صرف اللہ کی فرماں برداری میں نہ پڑھی جائے ۔ آپ نے ماضی میں علامہ کا ذکر کیا تھا ۔ علامہ تو کہہ گئے ہیں “خِرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہَ تو کیا حاصل ۔ دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں”۔ اور یہ بھی کہا کہ “مٹا کے امتیازِ رنگ و بُو ملت میں گم ہو جا ۔ نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی”۔
شاید آپ نے پڑھا ہو کہ رسول اللہﷺ نے 10 مسلمانوں کو پڑھانے والے یہودی قیدی کی رہائی کا فرمایا تھا۔ دین میں علم کی قدر ہے اور دولت پر بھی پابندی نہں ہے بشرطیکہ دونوں حلال طریقے سے حاصل کی جائیں اور حلال طریقے سے استعمال کی جائیں ۔
گستاخی معاف ۔ ساری دنیا کے کئے دھرے کا میں کیسے ذمہ دار ٹہرا ؟ میں صرف اپنے کئے کا ذمہ دار ہوں یا زیادہ سے زیادہ اپنے بیوی بچوں کے کئے کا ۔
مانا کہ وطن کی محبت دین کے ارکان میں سے نہیں ہے ۔ لیکن یہ کہنا کہ وطن کی محبت دین ک خلاف ورزی ہے درست نہں ہے ۔ صرف وطن ہی نہں جائے پیدائش کی محبت بھی انسانی فطرت میں شامل ہے ۔ میری باتیں جوانوں کو ذرا مُشکل سے سمجھ میں آتی ہیں اور کچھ کو دیر بعد سمجھ میں آتی ہیں ۔ جن حالات سے میرے پیارے اللہ نے مجھے کامیابی سے گزارا ہے کوئی اور بیان کرے تو شاید ایسے حالات کو آفات کہے مگر میں انہیں مفید تجربات سمجھتا ہوں ۔ پہلے انتہائی کٹھن تجربے نے مجھے 10 سال کی عمر مں ذہنی طور پر بالغ بنا دیا ۔ باقی تجربات نے مجھے ہر حال میں خوش اور صحتمند رہنے کا سلیقہ عطا کیا ۔ میں اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ اگر اپ بھی خوش اور صھتمند رہنا چاہتے ہیں تو قرآن شریف باترجمہ پڑھا کیجئے اور اس پر عم کی پوری کوشش کیجئے ۔ قامیابی اللہ پر چھوڑ دیجئے ۔ وہ صرف اُسی کے اختیار میں ہے
اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو
میں نعمان صاحب اور افتخار صاحب دونوں کے خیالات سے متفق ہوں ۔ اسلام میں تیرا ملک، میرا ملک اور سرحدوں کا تصور نہیں، مگر یہ بھی ہے کہ جو لوگ ہندوستان سے قربانیاں دیتے ہوئے ہجرت کر کے آئے، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وطن سے محبت کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتے، اور جنہوں نے ہجرت نہیں کی، یا جو میری طرح ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے، وہ بھی عام طور پر اپنے وطن سے نہ چاہتے ہوئے بھی تھوڑی بہت محبت ضرور رکھتے ہیں، اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ اپنے گھر سے محبت، اپنے ماحول، اقدار سے محبت ۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر میں چلے جاؤ، تو میں کیوں نہیں جاؤں گا؟ کیونکہ مجھے اپنے گھر، اپنی جگہ سے محبت ہے، جو سکون اور امن مجھے اپنے گھر میں حاصل ہے، میں اسے نہیں چھوڑ سکتا، اسی طرح اگر مجھے اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور ملک جانا پڑے، تب بھی یہی گھر والی بات لاگو ہو گی کہ مجھے اس ملک کی ثقافت، اسکے اقدار، ماحول اور حالات میں رہنا خاصا مشکل ہوگا کیونکہ میں اپنے ملک کے ماحول، ثقافت اور اقدار کا عادی ہوں اور انہیں پسند کرتا ہوں۔
باقی یہ بات ضرور ہے کہ ہمارے ہاں وطن کی خاطر جان دینے والے کو “شہید” کہا جاتا ہے، جبکہ شہید وہ ہوتا ہے جو اللہ کی خاطر جان قابان کرے، اگر وطن کے محافظ ملک کی حفاظت کے خیال سے لڑتے ہیں تو یہ جہاد یا اللہ کی راہ میں قتال نہیں ہے، جہاد تب کہلائے گا جب یہی محافظ وطن کے دشمن کو اللہ کے دین کا دشمن، کفار سمجھ کر لڑیں، اس لڑائی میں جو جان سے جائے گا وہی شہید کہلائے گا، اب دلوں کا حال اللہ جانتاہے کہ کون کس مقصد کے لیے لڑتا ہے، جسے لوگ شہید کہتے ہیں وہ درحقیقت کیا ہے۔ باقی ہمارے ہاں “سیاسی شہید” جتنے مرضی بنتے رہیں ۔ ۔ ۔ ۔
ہارون صاحب
آپ نے درست وضاحت کی ہے ۔ شکریہ