آجکل مُلک میں تبدیلی لانے کا بڑا غُوغا ہے ۔ سب سے زیادہ تبدیلی کی تکرار عمران خان کی طرف سے ہے جو اپنے ہر جلسے میں بڑے طمطراق سے تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔ عمران خان کا دعوٰی ہے کہ وہ اور تو اور پٹواری اور تھانہ نظام کو بھی 3 ماہ میں درست کر دے گا ۔ سُنا اور دیکھا تو یہ ہے کہ بڑے بڑے تناور حکمران بلند دعوؤں کے ساتھ آئے اور کئی کئی سال حکومت کر کے چلے اور بہتری کی بجائے ابتری ہی دیکھنے میں آئی
تقریریں اور جلسے کرنے والوں کے ہاتھوں ہم نے کبھی کسی مُلک کو درست ہوتے نہیں دیکھا ۔ مُلک تو ایک طرف ایک صوبہ بھی چھوڑیئے ۔ ایک ضلع کے نظام کو بھی درست کرنا ہو تو مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو سندھ کے عبدالستار ایدھی صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح تبدیلی لا رہے ہیں یا پنجاب کے مُنشی خان صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح اُنہوں نے لاہور میں اتنا بڑا ہسپتال بغیر کسی آواز کے بنایا
تبدیلی آئے گی
جب عوام کا رویہ بدلے گا
جب عوام کو احساس ہو گا کہ غلط لوگوں کو مُنتخب کر کے اور غلط لوگوں کی پیروی کر کے اپنا حال خود خراب کرتے ہیں
جب وہ سمجھیں گے کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے کچھ بہتر نہیں ہو گا بہتری اس وقت آئے گی جب سب اپنے آپ کو درست کرنے میں لگ جائیں گے
جب یہ کہنے یا سوچنے کی بجائے کہ “پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟” سب اس پر غور کریں گے کہ “ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور آئیندہ پاکستان کیلئے کیا کریں گے”۔
البتہ ایک صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ
پاکستان میں پر امن ذرائع سے تبدیلی لانا اگرچہ تقریباّّ ناممکنات کی حد تک مشکل ہے لیکن بہت ساری چیزوں کو بہتر بنانا نہایت آسان ہے مشکل صرف یہ ہے کہ روایتی حکمران یہ سب کچھ نہیں کریں گے کیونکہ انکو نوآبادیاتی طرز حکومت دل و جان سے پسند ہے۔عمران خان یہ کام کرسکتا ہے اور اسے ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ کیونکہ نواز شریف ہوں یا زرداری یا کوئی اور وہ کبھی بھی تھانہ یا پٹواری کے نظام میں تبدیلی نہیں چاہیں گے۔
جناب بھوپال صاحب ،،
ایک بار عمران خان کو ووٹ دینا پڑے گا …
چلے ہوئے کارتوسوں سے تو بہتر ہے کے ایک نئی نکور bullet ، گولی کو باری دی جاۓ.
کم از کم ایک لیڈر تو ایسا ہے جو تبدیلی کی بات کرتا ہے … ورنہ یہاں تو نام نہاد قومی لیڈران سے قوم پرست تک سب status quo کی بات کرتے ہیں …
عمران خان کی اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں آزاد ملکوں کا نظام لانا چاہتا ہے .. نہ کہ اس نظام کو برقرار رکھنا جو گورے انگریزوں نے اپنے کالے غلاموں کے لئے بنایا تھا … اور اب براؤن صاحب اور خاکی صاحب اس کے محافظ ہیں .
تبدیلی نیچے سے اوپر ،،، اور اوپر سے نیچے دونوں طرح آتی ہے …
لیکن پانی کرپشن اور فشن ہمیشہ اوپر سے نیچے آتا ہے ….
دنیا میں جہاں بھی تبدیلی آئ اسکے پیچھے ایک اچھے لیڈر کا ہونا مشترک تھا ….
حکومت جتنے وسائل عام آدمی کے پاس نہیں ہو سکتے … ایدھی صاحب اور منشی صاحب کے کارنامے ایک شہر کے کرپٹ مئیر یعنی ناظم صاحب کے نہ چاہتے ہوئے بھی جو کچھ کام جو اس نے کیے اسکے سامنے کم ہیں … KIHD اس کی ایک مثال ہے
جناب اب اس ذکر کو چھوڑیے، سب کو پتا ہے عمران خان سب بدل دے گا اس لئے .. زرداری کے چمچوں سے لے کر … شریف برادران کے حامیوں تک سب اسکے خلاف ہیں …
اچھی بات یہ ہے کے اب ان لوگوں کو بھی, جو قوم پرستی کی سیاست کے اسیر تھے یعنی MQM ANP . بلوچ اور سندھی قوم پرست, ایک ایسا لیڈر مل رہا ہے جو کسی خاص قوم یا برادری کی طرف رحجان نہیں رکھتا بلکہ پاکستان کی بات کرتا ہے …
جو نہ تختے لاہور کی محبت کا قیدی ہے اور نہ گڑھی خدا بخش کا مجاور، ایک پاکستانی ہے وہ .
بقول اقبال :
ثبات ایک تغّیر کو ہے زمانے میں
تغیر = تبدیلی
آپ نے دیکھا mqm ، ANP سب کے منہ بند ہیں عمران کے سامنے .. انکو اپنی نفرت کی سیاست خطرے میں نظر آ رہی ہے …
اگر عمران نے اور کچھ نہیں بھی کیا … تو کم از کم mqm اور دوسری قوم پرست جماعتوں کا تو بوریا بستر گول کر دے گا …
ویسے آپ کے بلاگ کا قاری ہونے کے حثیت سے میرا پورا گمان تھا کے آپ عمران خان کی حمایت کریں گے ….
لوگ تبدیلی کو پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ نے بھی الیکشن میں کھڑا ہونا ہے تو میں آپ کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ آپ بھی “تبدیلی ” کا نعرہ لگا دیجیے۔۔۔۔ اور لیجیے جناب اگر جیت نہ سکے تو کم سے کم عوام الناس کی ایک کشیر تعداد آپ کی فین بن جائے گی۔ یاد رہے اوباما نے بھی ـتبدیلی کا ہی نعرہ لگایا تھا۔۔۔ اُس تبدیلی کا جو کبھی نہیں آتی
البتہ
تبدیلی آنی ہوتی ہے وہ آ کر رہتی ہے اسے کسی اوباما ، اسا مہ ، عمران یا نواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
انشاہ اللہ تبد یلی آ کے رہے گی اور میرا پاکستان پھر سے سر اٹھا کے جی سکے گا۔
وسیم رانا صاحب
میں آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں