بچپن میں کہانیاں بڑے شوق سے سنا کرتے تھے ۔ يہ کہانياں گو مبالغہ آميز ہوتيں ليکن اپنے اندر ايک سبق لئے ہوئے بچوں اور بڑوں کيلئے بھی تربيت کا ايک طريقہ ہوتی تھيں
ايک کہانی جو عام تھی يہ کہ ايک ملک کا بادشاہ مر گيا ۔ شورٰی نے فيصلہ کيا کہ جو شخص فلاں دن صبح سويرے سب سے پہلے شہر ميں داخل ہو گا اُسے بادشاہ بنا ديا جائے گا ۔ اس دن سب سے پہلے ايک فقير داخل ہوا سو اُسے بادشاہ بنا ديا گيا ۔ فقير کو کبھی حلوہ نصيب نہيں ہوا تھا ۔ اس نے حلوہ پکانے کا حُکم ديا اور خوب حلوہ کھايا ۔ دوسرے دن پھر حلوہ پکوايا اور خوب کھايا ۔ فقير حلوہ پکوانے اور کھانے ميں لگا رہا ۔ سلطنت کے اہلکار حلوے کا بندوبست کرنے ميں لگے رہے اور ملک تباہ ہو گيا ۔ فقير نے اپنا کشکول پکڑا اور پھر بھيک مانگنے چل پڑا
اس کہانی کا مقصد تو يہ تھا کہ فيصلے عقل سے ہونے چاہئيں اور ہر آدمی کو اجتماعی بہتری کا کام کرنا چاہيئے نہ کہ ايک شخص [بادشاہ] کی چاپلوسی
ليکن عوام فقير کو ہی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں
اُنہيں کوئی قصوروار نہيں کہتا جو ملک و قوم کو بھول کر حريص بادشاہ کی خوشامد ميں لگے رہے اور اپنے مناصب کا کام نہ کيا جس سے ملک تباہ ہوا اور قوم بدحال
نہ اُس بادشاہ کی رعايا کو کوئی کچھ کہتا ہے جو سوئی رہی اور تباہی کو روکنے کيلئے کچھ نہ کيا
آج پورے ملک میں امن و امان کی حالت خراب ۔ کمر توڑ مہنگائی اور قومی دولت کی لُوٹ مار ہے ۔ لاکھوں گھروں میں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس ۔ کارخانوں کے لاکھوں مزدور اور ہُنر مند دو وقت کی روٹی اور پانی بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے ذلت کی انتہائی گہرائیوں میں گر چکے ہیں ۔ سرکاری دفاتر ميں بغیر رشوت دیئے جائز کام بھی نہیں ہوتے ۔ نہ گھروں میں لوگ چوروں ڈاکوؤں سے محفوظ ہیں اور نہ ہی سڑکوں بازاروں میں
غریب آدمی سے ملک کی موجودہ بد تر حالت کو تبدیل کرنے کیلئے باہر نکلنے کو کہیں تو وہ کہتے ہیں ہم میں تو طاقت ہی نہیں ہے
مڈل کلاس والوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے
اور امیر کہتے ہیں کہ ہمیں باہر نکلنے کی کوئی ضرروت ہی نہیں ہے
سب شائد یہ بھول گئے ہیں کہ جب آگ بھڑک اُٹھے اور سب مل کر اسے نہ بجھائیں تو وہاں رہنے والے سب بھسم ہو جاتے ہیں
دوسری کہانی
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے کسان کی حویلی کے صحن میں ایک درخت تھا جس کے نیچے وہ اپنی گائے اور بکری کو باندھا کرتا تھا ۔ اس نے ایک مرغا بھی پالا ہوا تھا ۔ ایک دن کسان کی بيوی نے کہا کہ “سردیاں آرہی ہیں ۔ کل اس درخت کو کاٹ کر لکڑیاں بنا لیں گے”۔ کسان نے کہا کہ “یہ درخت ميرے باپ کی لگائی ہوئی نشانی ہے ۔ اسے مت کاٹو”۔ لیکن کسان کی بیوی نے ضد کرتے ہوئے اسے کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا
درخت نے جب یہ سنا تو اس نے اپنی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے مرغے سے کہا “تم سُن رہے ہو کہ مجھے مارنے اور کاٹنے کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میری کسی طرح مدد کرو ۔ اگر میں نہ رہا تم کس ٹہنی پر بیٹھا کروگے ؟”
مرغے نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ “تم جانو اور تمہار اکام ۔ میں پوری حویلی میں بھاگتا پھروں گا”
درخت نے مرغے سے مایوس ہو کر پہلے گائے اور پھربکری کی منتیں کیں کہ “کسی طرح حویلی کے مالکوں کو سمجھاؤ کہ وہ مجھے مت کاٹیں ۔ میں تم سب کو سانس لینے کیلئے آکسیجن دیتا ہوں ۔ تپتی گرمیوں میں اس حویلی والوں کو گرم لُو سے بچاتا ہوں اور جب تمہیں زیادہ بھوک لگتی ہے تو میرے پتے تمہارے کام آتے ہیں”۔ لیکن بکری اور گائے نے بھی کہا کہ “میاں اپنی جان بچانے کا بندو بست تم خود کرو ۔ تمہارے کٹ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ہمیں تو روزانہ باہر لے جایا جاتا ہے اور تمہارے پتوں کی ہمیں اتنی ضرورت بھی نہیں ہے”
اگلی صبح کسان کی بیوی نے اس درخت کو کٹوا کر اس کی لکڑیاں بنوا لیں اور ایک کچے کوٹھے میں اس کا ڈھیر لگا دیا ۔ جب سردیاں شروع ہوئیں تو ایک رات کسان کی بیوی لکڑیاں لینے کیلئے گئی ۔ چند لمحوں بعد اس کی تیز اور خوفناک چیخوں سے ساری حویلی گونجنے لگی ۔ سب بھاگ کر گئے تو دیکھا کہ اُسے لکڑیوں میں چھپے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ اپنی ٹانگ پکڑے بُری طرح تڑپ رہی تھی ۔ فوری طور پر گاؤں کے حکیم کو بلایا گیا جس کے فوری علاج سے عورت بچ تو گئی لیکن اس پر کمزوری چھانے لگی ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ “اسے دوائی کے ساتھ ساتھ مرغ کی گرم گرم یخنی پلائی جائے”۔
فوری طور پر مُرغے کو ذبح کیا گیا اور وقفے وقفے سے اس کی یخنی کسان کی بیوی کو پلائی جانے لگی لیکن زہر نے کمزوری سارے جسم میں پھیلا دی تھی ۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ “مریضہ کو بکرے کی یخنی پلائيں اور ساتھ گوشت بھُون کر روزانہ کھلایا جائے”۔ چنانچہ بکری کو ذبح کیا گیا ۔ جب کسان کے رشتہ داروں اور اس کے سسرال والوں تک اس کی بیوی کو سانپ کے کاٹنے کی خبر پہنچی تو ان کے پاس تیمارداری کیلئے آئے ہوئے رشتہ داروں کا جمگھٹا ہو گیا ۔ ان مہمانوں کیلئے کسان کو اپنی گائے ذبح کرنا پڑی
آج ہماری قوم کا بھی کچھ ايسا ہی حال ہے ۔ ملک اپنے ہی کرتُوتَوں کی وجہ سے تباہی کی طرف تيزی سے گامزن ہے اور جسے ديکھو وہ صرف اپنا دامن بجانے کی فکر ميں ہے ۔ اجتماعی فکر کسی کو نہيں ہے
سب بھُولے بيٹھے ہيں کہ ” يہ مُلک سلامت رہے گا تو ہم بھی سلامت رہيں گيں اور يہ مُلک ترقی کرے گا تو ہماری تکاليف دور ہوں گی”
Pingback: کہانی اور حقيقت ۔ ہمارا قومی کردار | Tea Break
محترم اجمل صاحب ۔۔ ۔ میں نے ایک جملہ کہیں پڑھا تھا۔۔۔۔ ” آہستہ کہو ۔ ۔ یہ قوم سو رہی ہے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہی حالت ہماری ہے ۔۔۔
رونا تو اس بات کا ہے کہ سو رہی ہوتی تو بھی کوئی بات نہ تھی۔۔۔ کہ سونے والوں کو تو جگایا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ مگر یہاں تو حال یہ کہ کہ ” یہ قوم سونے کا بہانہ کر رہی ہے ۔۔۔ اب جو سونے کا بہانا کرے اس کو جگائیں کیسے ؟؟؟
اللہ ہماری قوم پر رحم کرے ۔ آمین
نور محمد صاحب
آپ نے بالکل درست کہا کہ سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جو سویا ہوا بنا ہو اُسے نہیں جگایا جا سکتا