6 ستمبر کی شام ہونے کو تھی ۔ عائشہ کا خاوند احمد ابھی دفتر سے واپس نہيں آيا تھا ۔ شادی دونوں کی پسند سے ہوئی تھی ليکن شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی حالات بدل گئے ۔ اب کوئی دن نہ جاتا جب ان ميں تُو تکرار نہ ہوتی ہو ۔ عائشہ سوچ رہی تھی کہ “احمد پہلے تو اُس کا بہت خيال رکھتا تھا ليکن اب چھ سات بجے دفتر سے لوٹتا ہے ۔ اُسے مجھ سے محبت نہيں رہی”
عائشہ اسی سوچ ميں گُم تھی ۔ 5 بجے تھے کہ باہر دروازے کی گھنٹی بجی ۔ عائشہ بھاگی ہوئی گئی ۔ دروازے پر احمد آج خلافِ معمول دفتر سے وقت پر لوٹ آيا تھا ۔ احمد کے ہاتھ ميں گلدستہ تھا اور وہ مسکرا رہا تھا ۔ عائشہ کو يوں محسوس ہوا کہ خواب ديکھ رہی ہے ۔ وہ دونوں اندر آئے ہی تھے کہ ٹيليفون کی گھنٹی بجی ۔ عائشہ بادلِ نخواستہ دوسرے کمرے ميں گئی ۔ ٹيلفون کا چَونگا [Receiver] اُٹھايا تو آواز آئی
“محترمہ ۔ ميں پوليس اسٹيشن سے بول رہا ہوں ۔ کيا يہ نمبر احمد ملک کا ہے ؟”
عائشہ کچھ پريشان ہو کر ” ہاں ۔ کيا؟”
” ايک شخص ٹريفک حادثہ ميں ہلاک ہو گيا ہے ۔ يہ نمبر اُس کے بٹوہ ميں سے ملا ہے ۔ آپ آ کر اُس کی شناخت کر ليں”
عائشہ ” کے يا ا ا ا ا ا ؟ مگر احمد صاحب تو ابھی ميرے پاس تھے ”
” مجھے افسوس ہے محترمہ ليکن يہ حقيقت ہے کہ بعد دوپہر 3 بجے ايک شخص بس پر چڑھنے کی کوشش ميں گر کر ہلاک ہو گيا ۔ ايک بٹوہ اُس کی جيب سے ملا جس ميں سے آپ کا يہ نمبر ملا”
عائشہ کا سر چکرانے لگا ۔ وہ اپنے دِل سے پوچھنے لگی ” کيا وہ ميرا وہم تھا ؟ وہ احمد نہيں تھا ؟”
عائشہ اُس کمرے کی طرف بھاگی جہاں احمد کو چھوڑ کر آئی تھی ۔ احمد کو وہاں نہ پا کر اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھيرا آ گيا اور وہ چکرا کر گر گئی
احمد جو باورچی خانہ ميں پانی پينے گيا تھا دھڑام کی آواز سْن کر بھاگا آيا ۔ بيوی کو اُٹھا کر بستر پر ڈالا اور اُس کے چہرے پر پانی کا چھينٹا ديا ۔ عائشہ نے آنکھيں کھوليں اور احمد کی طرف بِٹر بِٹر ديکھنے لگی
احمد نے مُسکرا کر کہا ” کيا ہوا ؟ کون تھا ٹيليفون پر ؟ کيا کہا تھا اُس نے ؟”
عائشہ نے اُسے بتايا تو احمد بولا ” مجھے معاف کر دو ۔ ميں تمہيں بتانے ہی والا تھا کہ آج ميں دفتر سے کسی کام کيلئے گيا تو کسی نے ميرا بٹوہ نکال ليا تھا”
اِس واقعہ نے عائشہ کو جھنجوڑ کے رکھ ديا ۔ اُسے احساس ہوا کہ وہ احمد سے اپنی محبت کو حقيقی دنيا سے بہت دُور لے گئی تھی ۔ اُس نے پہلی بار سوچا کہ احمد دفتر ميں محنت اور زيادہ وقت اُسی کی خاطر لگاتا ہے ۔ دونوں نے آپس ميں دُکھ سُکھ پھرولے ۔ احمد نے بھی وعدہ کيا کہ آئندہ وہ دفتر سے حتٰی المقدور جلدی واپس آنے کی کوشش کيا کرے گا يا کم از کم چہرے پر تھکاوٹ کی بجائے مسکراہٹ سجانے کی کوشش کرے گا
مندرجہ ذیل عنوان پر کلک کر کے اس سلسلے کا ایک اور مضمون پڑھیئے
” رشتہ ازدواج ”
جو پيدا ہوا ہے اُس نے مرنا بھی ہے ليکن جب تک زندہ ہيں کيوں نا ايک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس کيا جائے اور زندگی پيار محبت سے گذاری جائے
درست ہے جس گھر مین پیار نہیں اس گھر میں دھن دولت ہونے اور ہر آسائش ہونے کے باوجود سکون نہیں ہوتا
Pingback: مياں بيوی ۔ لمحہ فکریہ | Tea Break
بات تو بہت سادہ ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔اللہ سب کو عمل کی توفیق دے۔آمین
وسیم رانا صاحب
اللہ آپ کی دعا قبول کرے
ما شا اللہ بہت اچھی اور سبق آموز کہانی ہے۔ ازدواجی ہم آہنگی ہی معاشرتی امن و سلامتی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اور شیطان وسوسہ انداز کا سب سے بڑا وار میاں بیوی کے دلوں میں وسوسہ اندازی کے ذریعے گھریلو ناچاقی پیدا کرنا اور یوں ہمہ گیر معاشرتی بگاڑ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اللہ کریم ہمارے گھروں کو محبت، الفت اور حسن سلوک سے بھر دے ۔ اس سلسلےمیں مردوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآنی احکامات اور سنت نبوی کی روشنی میں اپنی بیویوں سے معروف طریقے سے حسن سلوک کریں۔ اُن کی تمام جائز ضروریات پوری کریں اور اس سلسلے میں کسی بخل سے کام نہ لیں ۔اکثر ان سے محبت کا اظہار کرکے ان کی دلجوئی کا سامان کریں۔ آخر وہ ہماری خاطر ہی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس چلی آتی ہیں۔
آپ نے غالبا تحریم صاحبہ کے بلاگ پر فونٹ چھوٹا ہونے پر پڑھ نہ سکنے کی شکایت کی ہے۔ اس کا ایک بڑا آسان حل ہے۔ انٹرنیٹ کے کسی بھی صفحے پر فونٹ کو اپنی مرضی کے مطابق بڑا کر کے دیکھنے کے لیے کنٹرول اور پلس کے بٹنوں کو ایک ساتھ دباتے جائیے اور اپنے حسب خواہش سائز پر رک جائیے۔ اسی طرح فونٹ چھوٹا کرنے کے لیے کنٹرول اور مائنس کی کیز دبائیے۔
دعا کا طالب
غلام علی مرتضیٰ
غلام مرتضٰی علی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
فونٹ کی شکائت ام تحریم صاحبہ کی تربیت کیلئے تھی
بہت اچھی اور سبق آموز تحریر ہے
و علیکم السلامُ عدنان شاہد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ