خاور کھوکھر صاحب نے قوم کی حالت زار پر لکھتے ہوئے دنیا کی کم ترین عمر کی مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا نامی لڑکی کا حوالہ ديا ۔ خاور کھوکھر صاحب کے بلاگ پر اظہارِ خيال کرنا شروع کيا جو طوالت پکڑ رہا تھا چنانچہ اسے اپنے بلاگ پر منتقل کرنے کا فيصلہ کيا ۔ اس کا اضافی فائدہ يہ ہو گا کہ زيادہ خواتين و حضرات اسے پڑھ سکيں گے اور ہر دو خيالات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکيں گے
اوّل بات يہ ہے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہيں اسلئے ہميں اللہ کے فرمودات کو کبھی نہيں بھولنا چاہيئے بلکہ ان پر عمل پيرا ہونا چاہيئے
سورت 3 ۔ آلِ عِمرَان ۔ آيت 26 ميں اللہ کا ايک فرمان رقم ہے
قُلِ اللَّھُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَیْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ ۔ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ۔ اے تمام جہان کے مالک ۔ تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ۔ بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
ارفع کے والدين کی مالی حالت اور خواہش کے بغير ارفع کا يہ اعزاز حاصل کرنا مشکل تھا ليکن زيادہ سبب ارفع کی شب و روز محنت اور اساتذہ کی رہنمائی اور تدريسی قابليت ہے ۔ اپنے ہموطنوں کا رويّہ اپنی جگہ ليکن ذہانت اللہ کی دين ہے اور ذہانت کو مؤثر بنا کر اس سے اچھا نتيجہ حاصل کرنا آدمی کی اپنی محنت اور طريقہءِ کار پر منحصر ہے ۔ جہاں تک ارفع کا تعلق ہے [جو اس فانی دنيا سے رُخصت ہو چکی ہے] وہ ايک ريٹائرڈ ليفٹننٹ کرنل [Liutinant Colonel] کی بيٹی تھی ۔ ليفٹننٹ کرنل کوئی بڑی بلا نہيں ہوتا اور پھر جو ريٹائر ہو چکا ہو اُسے ہمارے معاشرے ميں عام طور پر اچھا مقام نہيں ديا جاتا ۔ ميں ايسے ذہين اور کامياب طُلباء کو جانتا ہوں جن کی مالی حالت کو مدِ نظر رکھا جاتا تو وہ 10 جماعتيں بھی نہ پڑھ پاتے ليکن وہ انجيئر بنے ۔ ميرا ايک ہمجماعت جو اليکٹريکل انجيئر بنا اُس کی والدہ نے لوگوں کے کپڑے سی کر اور برتن دھو کر اُسے پالا اور پڑھايا تھا ۔ اُس نے پہلا ميرٹ کا وظيفہ ميٹرک کے امتحان ميں ليا اور پھر ہر امتحان ميں وظيفہ حاصل کرتا رہا ۔ ايسے کچھ اور لڑکوں کو بھی ميں جانتا ہوں
ميں کسی دنياوی وسيلے والے کی حمائت نہيں کرنا چاہتا ۔ ميں نے زندگی کی 6 سے زائد دہائياں اس ملک پاکستان ميں گذاری ہيں ۔ اس ميں سے جو وقت ملک کے باہر گذارا وہ 8 سال سے کم ہے اور اُس ميں سے بھی ساڑھے 7 سال حکومت کے حُکم کے تحت ملک سے باہر گيا اور وہاں رہا ۔ اصول پسندی اور سچ کا ساتھ دينے کے نتيجہ ميں نہ صرف بڑی کرسی والوں نے بلکہ ساتھيوں اور ماتحتوں نے بھی مجھے اتنا تنگ کيا کہ بالآخر 60 سال کی عمر پوری کرنے کی بجائے پونے 52 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ مانگ لی جبکہ کہ روزگار کا کوئی اور دنياوی وسيلہ نہ تھا
پاکستان بننے کے بعد 1953ء تک والد صاحب کو محنت کا پھل ملتا رہا پھر دنياوی وسيلے والوں کا دور شروع ہوا اور ہماری تنگدستی کے دن . نوبت يہاں تک پہنچی کہ جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا تو ميرے پاس سستے کپڑے کی 2 پتلونيں 2 قميضيں 2 قميض پاجامے اور ايک بغير آستين کا سويٹر تھا ۔ ايک سال اسی طرح گذارا پھر ايک لنڈے کا کوٹ ليا ۔ ميں نے ان حالات ميں انجيئرنگ پاس کی اور بعد ميں بچت کر کے وہ قرض اُتارا جو ميری انجيئرنگ کالج کی پڑھائی کے آخری سال ميں لينا پڑا تھا ۔ انجنيئر بن کے افسر لگنے کے بعد بھی 3 سال لنڈے کا کوٹ پہنا ۔
ہماری قوم کا الميہ نہ فوج ہے نہ تاجر اور نہ حکمران ۔ ان بُرے حکمرانوں کو ہم ہی ووٹ دے کر حکمران بناتے ہيں اور ووٹ دينے والوں ميں 90 فيصد وہی ہوتے ہيں جو بعد ميں نان نُفقے کو ترستے ہيں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کی غلط سوچ اور بُری عادات ہيں ۔ ہم لوگ اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے محنت کرنے سے کتراتے ہيں ۔ اپنے گھر يا دفتر ميں جھاڑو دينا اپنی توہين سمجھتے ہيں ليکن برطانيہ جا کر بيت الخلا صاف کرنا گوارا ہوتا ہے ۔ ہم لوگ اپنی ہر غلطی کا سبب دوسرے کو ٹھہراتے ہيں ۔ اپنے آپ کو درست کرنے کے روادار نہيں البتہ دوسروں ميں ہميں عيب ہی عيب نظر آتے ہيں
دراصل ہميں اللہ پر زبانی يقين ہے مگر عملی طور پر نہيں ہے ۔ ہم اللہ کو ماننے کا دعوٰی کرتے ہيں ليکن اللہ کی کوئی بات ماننے کو تيار نہيں ہيں ۔ جب ہم من حيث القوم اللہ پر يقين کامل کرتے ہوئے حق حلال کمانے کيلئے محنت شروع کريں گے اور ناحق کی کھانا چھوڑ ديں گے تو يہی ملک پاکستان دن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگے گا اور دنيا کی ہر آسائش ہميں ميسّر ہو جائے گی
´میرے خیال میں تو خاور صاحب کی بات میں وزن ہے …
یہاں ارفع مرحومہ کی صلاحیت کی بات نہیں ہے بلکہ زور اس بات پہ ہے کہ .. ایک اسلامی ملک میں سب کے پاس مواقع برابر نہیں ہیں …
آخر ہمارے پڑھے لکھے لوگ اس نا انصافی کو جائز کیوں سمجھتے ہیں یا تو آپ لوگوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جتنی مشکلیں ہم نے اٹھائیں دوسرے عام لوگ بھی اتنی ہی اٹھائیں تو انہیں پتا چلے …
بات اس کی نہیں ہو رہی کہ افتخار صاحب اور انکے دوستوں نے کتنی مصیبت سے پڑھ کے کامیابی حاصل کی ، بات یہ ہے کے ملک میں عام شہری کے بچے کے لئے اور فوجی افسر کے بچے کے لئے مواقع برابر کیوں نہیں ہیں …
جتنی رقم فوج اپنے بچوں کے اوپر اور انکی تعلیم کے لئے خرچ کرتی ہے .. ،جو کے جاتی بھی دفاعی بجٹ سے ہے، اتنی ایک عام شہری کے بچے پے کیوں خرچ نہیں ہوتی …
ہماری فوج کب قابض فوج کی ذہنیت سے چھٹکارہ پائی گی .. یہ برٹش انڈیا کی فوج نہیں بلکہ پاکستانی فوج ہے …. لہذا فوجی اور عام شہری کے بچوں کو برابر مواقع ملنے چاہیں .
میرے خیال میں اس رائے بننے کے بارے میں میں زیادہ قصور اس لا علمی کا ہے جو فوجی افراد کی سہولیات کے بارے میں عوام میں موجود ہیں ۔ مثلا نعمان صاحب فرماتے ہیں کہ فوجی افراد کے بچے پر دفاعی بجٹ سے تعلیمی مواقع پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے ۔
فوجی افراد کے بچوں کے لئے ایک سسٹم اے پی ایس سکول سسٹم کا ہے جس کو کوئی مدد دفاعی بجٹ سے نہیں ملتی بلکہ کچھ امداد باہمی قسم کا سلسلہ ہے –
دوسرا سسٹم ایف جی سکولز کا ہے جو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہوتے ہیں اور سول اور فوجی افراد کے بچوں میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے ۔
تیسرا سسٹم کیڈٹ کالجز کا ہے جس کو دفاعی بجٹ سے رقم ملتی ہے مگر اس میں بھی سول اور فوجی افراد کے بچوں کی سیٹیں مخصوص ہیں اور کسی غیر فوجی فرد پر داخلہ لینے پر کوئی مالی قدغن نہیں ہے ۔ ان کالجز کا مقصد افواج کو افرادی قوت مہیا کرنا ہے کیونکہ سول اداروں سے پڑھ کر آنے والے پروفشنل افراد فوج میں شامل ہونے کے بعد نظم و ضبط اور سختی سے گھبرا کر کسی زیادہ آرام دہ پر کشش پرائیویٹ نوکری کی غرض سے جلد فوج چھوڑ جاتے ہیں ۔ کیڈٹ کالجز کا بانڈ سسٹم انہیں فوج میں شامل ہونے اور رہنے پر مجبور رکھتا ہے ۔
ارفع کریم کے والد کی فیصل آباد میں کچھ وراثتی زمین ہے جس سے انہیں کچھ آمدنی ہو جاتی ہے ۔ ارفع مرحومہ لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم رہی ہے ۔ ارفع کو اس کا شوق دیکھتے ہوئے کمپیوٹر اس کے والد نے اپنی اس تنخواہ سے لے کر دیا تھا جو وہ اپنی ایک سالہ بیرون ملک تعیناتی کے دوران بچت کرکے لائے تھے ۔
کمپیوٹر آج کل کوئی مہنگا سودا نہیں رہا ۔ ڈیل کا سیکنڈ ہینڈ سی پی یو پانچ ہزار میں بازار میں دستیاب ہے ۔ اصل شے اس کا ستعمال ہے کہ کوئی کیسے کرتا ہے ۔ اپنی قسمت کوسنے دینے کے لئے پوسٹ شائع کرنے یا اسی سے سرٹیفاٰئڈ پروفیشنل بننے کا امتحان دینے ۔ کوسنے دینا شاید زیادہ آسان ہے ۔
افتخار صاحب میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ مسئلہ ہم خود ہیں اور ذمے دوسروں کے لگتے پھر رہے ہیں۔ آپ نے بالکل صیح تصویر کشی کی ہے۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے آمین
ریاض صاحب میں نے ارفع مرحومہ کی قابلیت کی تو بات ہی نہیں کی …
فوج کو تمام مراعات یا مختلف مد میں جوپیسہ ملتا ہے وہ صرف پاکستان کے دفاع کے لئے یا دفاع کرنے کی وجہ سے ملتا ہے .. ایسے تو فوج کی تنخواہ اور پنشن بھی دفاعی فنڈ سے نہیں دی جاتی ….
جناب میرا سارا زور دوہرے تعلیمی نظام پی تھا … دنیا کے کس مہذب ملک میں دہرا تعلیمی نظام ہے … میرا سارا زور ایک ایسے تعلیمی نظام پہ تھا جو سب کے لئے ایک ہو … جہاں فوجی افسر اور عام شہری کا بچہ ایک جیسا نصاب اور ایک جیسے سہولیات میں تعلیم حاصل کرے ….
اور جناب آپ کو کیا پتا کے تبصرہ کرنے والے کی کیا قابلیت ہے …
پتا نہیں کیوں ، ہم مغرب سے سب کچھ سیکھنے کو تیار ہیں لیکن ایک ایسا تعلیمی نظام نہیں بنانا چاہتے یا اسکے متعلق سننا بھی نہیں چاہتے …جس نظام میں یکسانیت ہو ….
پتا نہیں کیسے اس فرسودہ دھرے تعلیمی نظام کو اتنے حمایتی کیسے مل جاتے ہیں … میرا یہ ماننا بھی نہیں ہے کہ فوج کا نظام ختم کیا جاۓ..بلکہ ایک ایسا نظام جس میں سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں.
اگر ہم اس دھرے تعلیمی نظام کے خلاف بولیں گے نہیں تو .. تو یہ کیسے پتہ چلے گا کے یہ نظام صحیح نہیں ہے …….
آپ تقابل کے لئے کسی چھوٹے سرکاری سکول اور کسی اچھے سکول چاہے بیکن ہاؤس ہو یا فوج کا سکول وہاں سے میٹرک کر کے نکلنے والوں کا تناسب دیکھیں کون زندگی میں کہاں تک گیا اور کتنی ترقی کی یا کر رہا ہے …
کیا ظلم ہے ایک طرف تو بچوں کو ایسے اساتذہ مل رہے ہیں جو پرامری پاس ہیں اور دوسری طرف BEd اور MASTERS …. اور نصاب کا تو موازنہ نہ ہی کریں تو بہتر ہے …
محترم نعمان صاحب
میری پیدائش ایک کچے گھروندے میں ہوئی تھی اور ٹاٹ سکولوں کا پڑھا ہوا ہوں ۔ کونونٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے بچوں سے زندگی میں مقابلہ کیا اور بہتر کارکردگی دکھائی ۔ وہی بات جو بلاگر کا کہنا ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے شوق اور لگن بنیادی ہتھیار ہیں ۔ اگر لگن ہے تو نظام تعلیم آپ کا رستہ نہیں روک سکتا ۔ مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ پورے پاکستان میں یکساں تعلیمی نظام نافذ ہونا چاہیئے ۔ لیکن اسے یکساں کرے گا کون ؟ ۔ حکومت ؟ تو اسے جب ” فرصت ” ملے گی تو تعلیم جیسے “غیر اہم ” موضوع پر بھی شاید سوچے گی ۔ ایسے میں معاشرے کے افراد اور ادارے اپنے دائرے میں جیسے تیسے بہتری کی کوشش ہی کر سکتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ مندرجہ بالا گذارشات کی روشنی میں اپنے مندرجہ ذیل کمنٹ پر مزید غور کرنا پسند کریں گے ۔
ہماری فوج کب قابض فوج کی ذہنیت سے چھٹکارہ پائی گی .. یہ برٹش انڈیا کی فوج نہیں بلکہ پاکستانی فوج ہے
نعمان صاحب
يہ شکائت بڑی عام ہے کہ ہمارا تعليمی نظام خراب ہے اور مساوی مواقع نہيں ہيں ۔ اگر ہم يعنی پوری قوم پوری صدی يہی واويلا کرتے رہيں تو نتيجہ کچھ نہ نکلے گا ۔ اچھائی کی توقع صرف اس وقت ہو گی جب ہم ميں سے ہر ايک نہيں تو اکثريت اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ تعليم کے نظام کو تباہ کسی فوجی نے نہيں بلکہ عوام کے محبوب قاعدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تعليمی اداروں کو قوميا کے ان پر اپنے جيالے مسلط کر کے کيا تھا ۔ اس اس وڈيرہ اور غلام تعليمی نظام کو بعد ميں پرويز مشرف نے جلا بخشی
شايد آپ نہيں جانتے کہ فوجی افسروں کو مراعات کس نے ديں ۔ 1972ء تک فوجی افسروں کی يہ حالت تھی کہ ان کی کل تنخواہ اُن کے مساوی سويلين افسروں سے کم ہوتی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اُن کی تنخواہيں بڑھا کر سولين افسروں سے زيادہ کيں اور پروفيشل سويلين افسروں يعنی انجنيئر ۔ ڈاکٹر ۔ اکانومسٹ وغيرہ کی تنخواہيں کم کر ديں ۔ پھر بينظير بھٹو صاحبہ نے اپنے 2 ادوار ميں نہ صرف فوجی افسروں کی تنخواہيں مساوی سويلين افسروں کی نسبت زيادہ بڑھائيں بلکہ ريٹائر فوجی افسروں کو سول محکموں ميں کھُلے دل سے نوکرياں ديں ۔ اس کے بعد پرويز مشرف صاحب نے لوٹ مار متعارف کرائی جسے زرداری اور گيلانی پال رہے ہيں
آخر ميں ميں دہراؤں گا کہ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہيں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خيال خود اپنی حالت بدلنے کا
جناب اجمل بھوپال صاحب اور شاہد صاحبان ،
میں نے آپ لوگوں کو غلط نہیں کہا .. بلکہ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے تو میں اس بات پہ ضرور زور دیتا ہوں کہ تعلیمی نظام یکساں ہو .. اور آپ صاحبان جو خود میری طرح ٹاٹ کے سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں .. وہ تو یہ بات جانتے ہی ہیں .. کے موجودہ تعلیمی نظام کیا غضب ڈھا رہا ہے …
باقی بات رہی خود ٹھیک ہونے کی اور آگے بڑھ کے اپنی ذمہ داری پوری کرنی کی .. تو جناب یہ عارضی انتظام ہو گا … اصل مسائل کا حل اسی وقت سامنے آے گا جب حکومت آگے بڑھے گی اور اس طرف توجہ دے گی ..کیونکہ افراد انفرادی طور پہ کام کریں یا اجتماعی طور پہ یہ حکومت کی انتظامی صلاحیت اور مالی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے … دیکھیں HEC نے بھی تو اچھی کارکردگی دکھائی جب وہاں ایک پروفیسر انتظامی سربراہ بنا . جسے مسائل کا پتہ تھا .. آج HEC یا unversties کی حالت بہت بہتر ہے …
بس یہی کہنا تھا بے شک آپ لوگ صحیح ہیں اور میں نے آپ کو غلط بھی نہیں کہا .. لیکن فوج پہ تنقید کا مقصد بھی یہی تھا کہ بجاۓ اس بات کے معاشرے کے مقتدر اور با اثر لوگ مسائل حل کریں وہ متوازی ایک اپنا الگ انتظام بنا لیتے ہیں … جو بناتے اپنے لئے ہی ہیں .. ساتھ میں دوسروں کو بھی آٹے میں نمک کے برابر حصہ دے دیتے ہیں .. تاکہ منہ بند رہے ..
جناب شاہد صاحب .
میں اپنے اس کمنٹ پی قائم ہوں ”
ہماری فوج کب قابض فوج کی ذہنیت سے چھٹکارہ پائی گی .. یہ برٹش انڈیا کی فوج نہیں بلکہ پاکستانی فوج ہے
”
وجوہات پہ بات ہو گی تو لمبی جاۓ گی. فوج کی برٹش انڈیا کی فوج کی ذہنیت ہے لیکن آپ محسسوس نہیں کر سکتے …اس کے لئے آپ کو “فوج کےاپنے ملک” سے باہر نکل کے باقی تین صوبوں میں رہنا پڑے گا ..
اور ہاں فوج کی نظر میں جو غدار ہوتے ہیں وہ باقی تین صوبوں میں ہی کیوں ہوتے ہیں …کبھی سوچیے گا اس بات پہ !
آپ کبھی فوج کا کوئی حمایتی ایسا بھی دیکھا دیں جو غیر پنجابی (پنجاب کا رہنے والا نہیں ہو) ہو .. یا اسکا کوئی بھائی، یا اسکے کوئی رشتہ دار فوج میں نہ ہوں …
ویسے پاک فوج کی جتنی محبت آج کل باقی تین صوبوں میں ہے اتنی تو شاید کبھی بھی نہ ہو
نعمان صاحب
ميں شايد واضح نہيں کر پايا ۔ ميرا مقصد يہ ہر گز نہيں کہ افراد سب کچھ کريں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو کام فرد کے کرنے کا ہے وہ درست کرے جس ميں سب سے اہم کام حق رائے دہی ہے جسے ہمارے اَن پڑھ اور پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثريت کوتاہ بين خود غرضی کے تحت يا وقتی مالی فائدہ يا ناجائز خواہشات کی برآری کيلئے استعمال کرتی ہے
محترم نعمان صاحب
بات تعلیمی نظام سے شروع ہو کر وہی پرانی بحث پنجابی پشتون اور مہاجر پر چلی جاتی ہے ۔ میں ذاتی طور پر اس طرح کی لسانی اور نسلی تقسیم کے خلاف ہوں ۔ جب معمولی مالی اور معاشرتی بیک گراونڈ کے حامل افراد خیبر پختون خواہ ، بلوچستان اور سندھ اور اردو سپیکنگ سے تعلق رکھنے والے افراد اس فوج کے کے طاقتور سربراہ اور کور کمانڈر رہے ہیں اور اس میں کوٹے کے حساب سے ہر صوبے کی نمائندگی موجود ہے تو پھر پتہ نہیں کیوں یہ پنجابی فوج کیوں بن جاتی ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ اس طرح کی لسانی اور علاقائی سوچ کے حامل ہیں ۔
گستاخی کی معافی چاہوں گا۔
خاور نے جو بات لکھی یا میں نے کچھ لکھا تو اسکا مطلب مقدس فوج کی توہین کرنا نہیں تھا۔
یا ارفع بی بی یا ان کے والد سے کو ئی نفرت یا بغض۔
ارفع بی بی یا ان کے کسی بھائی نے یہ تشدد سہنے کا تصور کیا ہو گا؟
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101429008&Issue=NP_ISB&Date=20120119
اور جناب اگر آپ سب یہ کہیں کہ ایک آدھ ایسا واقعہ ہو ہی جاتا ہے۔اسے ایشو بنانے کی کیا تک؟!!۔
کیا سال میں ایسےدو چار واقعے اخبار کی زینت نہیں بنتے یا ہم لوگ ایسےواقعات کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
عرض یہ کرنا چاہوں گا۔۔جاپان کے کفار کا شہنشاہ بھی مڈل تک تارک وطن فرام پاکستان کے دیہاڑی دار مزدور جیسا نصاب پڑھ چکا ہے اور شہزادہ بھی۔۔۔وزیر اعظم کا بچہ بھی ایک جیسا ہی نصاب پڑھتا ہے۔
ارفع بی بی کو اللہ نے ذہانت دی اور اللہ کی عطا کردہ اچھی قسمت سے اچھا گھرانہ مل گیا تو اس بچی کو اپنی ذہانت دکھانے کا موقع مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملکی نظام نے اس جیسے کروڑوں بچوں کو کیا دیا؟۔۔انہیں پیدا ہوتے ہی محنت کر کے اپنے زور بازو سے آگے بڑھو کا سبق سب دیتے ہیں۔۔۔ارفع بی بی جیسی سہولیات دینے کی کوئی بات نہیں کرتا۔۔
پھرارفع بی بی پر فخر بھی وہی کریں جنہیں یہ سب کچھ میسر ہے۔۔۔تے سانوں کی
ياسر صاحب
آپ نے جس خبر کا ربط ديا ہے وہ ميں نے پڑھی تھی ۔ اس سے قبل بھی ايسے ہی واقعات ذرائع ابلاغ ميں آ چکے ہيں ۔ يہ تو ايک الگ معاملہ ہے جس کی وجہ آج تک ميری سمجھ ميں نہيں آئی ۔ ميں جسمانی سزا کے حق ميں نہيں ہوں اور اسے ظُلم سمجھتا ہوں ۔ ليکن ميں نے جو بات واضح کرنے کی کوشس کی وہ يہ ہے کہ دولت اور ذہانت دو فرق وصف ہيں اور وسيلہ کچھ نہيں کر سکتا اگر محنت نہ کی جائے ۔ ميں اس کے بھی خلاف ہوں کہ آدمی اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرے اور پير کی قبر پر نذر نياز کرے
باقی نعمان صاحب کے تبصروں کے ميری طرف سے جواب پڑھ ليجئے
Pingback: کيا ارفع کريم والدين کی طفيلی تھی | Tea Break