سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو عوام منتخب کرتے ہیں انہیں کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی خواہش اور مفاد کے تحت امور چلائیں انہیں قانون اور آئین کے مطابق تمام امور سرانجام دینا ہوتے ہیں اگر کوئی منتخب نمائندہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اپنا اختیار استعمال نہیں کرتا تو وہ حق رائے دہی کے ذریعے دیئے گئے مینڈیٹ سے انحراف کرے گا ۔ آئین کے مطابق ضروری ہے کہ ہر منتخب رکن اس کے مطابق کام کرے
عدالت نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کے تمام تر دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے پاکستان کے شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ تمام تر صورتحال سے آگاہ رہیں اور سچ جانیں اسلئے اعلیٰ ترین ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو اس میمو کے ماخذ ، اس کی ساکھ اور اس کے مقاصد کی تفصیلی تحقیقات کرے گا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق پاکستان نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے میمو کے وجود سے انکار نہیں صرف تکنیکی نقائص کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم کی اجازت کے بغیر منصور اعجاز سے ملاقات پر اعتراض بھی شامل ہے
منصور اعجاز نے اپنے جواب میں حسین حقانی کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت دینے کیلئے تیار ہیں کہ مائیک مولن کو جیمز جونز کے ذریعے بھیجا گیا میمو حسین حقانی نے ہی لکھا تھا
حسین حقانی نے عدالت میں دیئے گئے حلف نامے میں کہا ہے کہ میں نے 2008 ء میں امریکہ میں بطور سفیر تقرری کے بعد سے پوری قوت سے ملک کی خدمت کی ہے ۔ وزیراعظم اور حکومت کی ہدایات پر فرائض سرانجام دیئے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے بہت سے بحرانوں سے نمٹا ہوں ۔ افسوسناک امریہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے مخالف اور پاکستان و امریکہ کے بہتر تعلقات کے مخالفین نے ہمیشہ میرے خلاف کام کیا ہے اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں کہ میں مسلح افواج کو بدنام کرنا چاہتا ہوں بہت سے دیگر پاکستانیوں کی طرح میں بھی سیاست میں فوجی مداخلت کا مخالف ہوں لیکن میں نے مسلح افواج یا ان کی قیادت کیخلاف کوئی سازش نہیں کی اور نہ ہی ان کا رتبہ کم کرنے کی کوشش کی ہے مجھ پر تازہ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ میں نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس ایڈمرل مائیک مولن کو ایبٹ آباد میں 2 مئی کی کارروائی کے بعد میمو لکھا جس میں پاکستان کی فوجی قیادت میں تبدیلیوں کے لئے امریکہ سے مدد مانگی گئی میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے حکومت پاکستان نے ایسی کوئی ہدایت نہیں کی اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی میمو لکھا ہے اور نہ ہی حکومت یا صدر کی طرف سے کسی کو یہ بھجوانے کیلئے کسی دوسرے شخص کو کہا ہے ۔ سفیر ہونے کے ناطے امریکی حکام سے ہر سطح پر رابطہ میری ذمہ داری تھی اور میں تمام سرکاری پیغامات تیار کرنے اور بھجوانے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔ میں درخواست کرتا ہوں میرے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کی جائے اور اسی مقصد کیلئے میں نے قومی مفاد میں استعفیٰ دیا ہے ۔
فاضل اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق وفاق کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی وفاق کی تعریف میں آتے ہیں اس لئے وہ ان سب کی طرف سے پیش ہورہے ہیں ۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 14 دسمبر کو انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے ایک کورنگ لیٹر کے ساتھ بیانات داخل کرائے اسی طرح آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے 21 دسمبر کو حلف نامے بھی جمع کروائے گئے ۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ میمو کا کوئی وجود نہیں کیونکہ ایک شخص منصور اعجاز جو امریکی شہری ملک سے باہر بیٹھا ہے اس نے اپنے طور پر امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ملوث کرنے کیلئے یہ میمو تیار کیا وفاقی حکومت اور ایوان صدر پہلے ہی ان کی تردید کرچکا ہے اور مجاز اتھارٹی و پارلیمانی فورم اس کی تحقیقات کررہا ہے ۔
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس میں کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اس لئے یہ درخواستیں مسترد کردی جائیں ۔ان کا موقف تھا کہ عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کے معاملات آپس میں ملے ہوئے ہیں اور یہ درخواستیں بدنیتی کی بنیاد پر دائر کی گئی ہیں ۔
لفظ عوامی اہمیت کے بارے میں ڈکشنری یہ کہتی ہے کہ جس معاملے میں کوئی بھی شخص شریک ہو وہ عوامی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے ۔ یہ معاملہ کوئی شخص یا افراد مل کر اٹھا سکتے ہیں اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے اس میمو کے ماخذ ساکھ اور مقصد کی تحقیقات ضروری ہے یہ معاملہ عوامی اہمیت کے زمرے میں آتا ہے ۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں درخواست دینے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اس لئے انہوں نے 23 نومبر کو درخواست جمع کروائی ہے جبکہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 28 نومبر کو بلایا گیا ہے ۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ میمو ایک سیاسی معاملہ ہے اس لئے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کیلئے موزوں ہے
جبکہ رشید اے رضوی کا موقف ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے عدالت ہی انصاف کرسکتی ہے ۔
جہاں تک اس معاملے پر انصاف کا تعلق ہے یہ عدالتی اختیار کا امتحان ہے ہمارے ملک میں عدلیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں سیاسی امور میں ریلیف حاصل کرنے کیلئے عدالتوں سے وقتاً فوقتاً رجوع کیا گیا ان میں بے نظیر بھٹو بنام وفاق ، محمد نواز شریف بنام وفاق ، اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر معاملات شامل ہیں ۔
سیاسی سوال پر انصاف بنیادی طور پر اختیارات کی علیحدگی کا معاملہ ہے بہت سے امور کو سیاسی سوال کا لیبل لگا کر دبا دیا جاتا ہے ۔
حکومت کے ایک حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ حکومت کا دوسرا حصہ نہیں کرسکتا کہ کس نے اختیار سے تجاوز کیا ہے ۔ یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہوتا ہے اور عدالت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی حتمی تشریح کرے ۔
دلائل کے دوران دو سوالات عدالت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے مقصد کے تحت اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کیخلاف تحقیقات ضروری ہے اس لئے اس معاملے کا عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے ۔
آئین کے دیپاچے میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی ضمانت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کیاجائے گا ۔ عدلیہ آئین کے تحت دی گئی آزادی کی ضمانت پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی کیونکہ اس سمجھوتے سے حالات خراب ہوسکتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدلیہ نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے ۔
ڈاکٹر مبشر حسن بنام وفاق کیس میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے این آر او کو غیر قانونی ، غیر آئینی اور شروع سے ہی غیر موثر قرار دیا ہے اس حکم پر عملدرآمد کیلئے درخواستیں دی گئیں لیکن ہم نے آئین کے تحت جمہوری نظام یقینی بنانے کیلئے انہیں زیر التواء رکھا تاکہ کوئی انتشار پیدا نہ ہو تاہم جب بڑی کرپشن کے دھڑا دھڑ مقدمات آئے تو عدالت نے آئین کے آرٹیکلز 4,9,14 اور 25 کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کیا ہمیں خوشی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی عدالت سے رجوع کیا جس میں رینٹل پاور منصوبے شامل ہیں جس پر ایک وزیر مخدوم سید فیصل صالح حیات نے عدالت سے رجوع کیا اسی طرح ماروی میمن نے سیلاب کے دوران دریاؤں کا رخ موڑنے سے ہونے والے نقصانات کا معاملہ اٹھایا ۔ خواجہ محمد آصف او جی ڈی سی ایل کا کیس لائے اس کے ساتھ ساتھ اسٹیل ملز ، ایل پی جی ، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ، این آئی سی ایل ، حج انتظامات اور آر پی پیز ، کے مقدمات زیر التواء ہیں ۔ بینک آف پنجاب کیس میں کروڑوں روپے واپس لے کر بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا یہ رقم حکومتی اہلکاروں نے لوٹی تھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عدالت کرپشن کا نوٹس لے گی تو یہ آسانی سے ہضم نہیں ہوگا کیونکہ عوام کا پیسہ لوٹنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں بھارت کی سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں آنے والے کرپشن مقدمات کا حوالہ بھی دیا ۔
اس معاملے کی تحقیقات کیلئے انتہائی تجربہ کار عدالتی افسران جو تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز ہیں انہیں کہا گیا کہ اور یہ کام دو زاویوں سے کیا گیا کیونکہ ایک تو یہ معاملہ پاکستان کی خود مختاری ، آزادی اور سلامتی کا ہے اور تحقیقات کے دوران بہت سے شواہد پیش ہونگے جن میں فرانزک شواہد کی بنیاد پر مجرموں کا تعین کیاجائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9,14اور 19 اے کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ کیاجائے ۔
حسین حقانی کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ عدالت سے اجازت کے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتے تاکہ اس میمو کے ماخذ ساکھ اور اثرات کی کمیشن مکمل تحقیقات کرسکے ۔
فیصلے میں دو ججوں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے الگ الگ نوٹ میں کہا کہ قومی تاریخ بہت سے سانحات سے بھری ہوئی ہے جس میں ۔ ۔ ۔
ملک کا دولخت ہونا اور ایک وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم کا قتل شامل ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ حکومتی عہدوں پر فائز لوگ اور اس وقت کا میڈیا دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد تک سب ٹھیک ہے کہ جھوٹی رٹ لگاتا رہا سچ کو منظر عام پر لانے اور عوام تک پہنچانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور شہریوں کو محض افواہوں ، قیاس آرائیوں اور نیم واضح حقائق کی اندھیر نگری میں بھٹکنے دیا گیا ایک مسخ شدہ تاریخ پیش کرکے عوام میں تفریق کی بنیاد رکھی گئی ۔
آئین کے آرٹیکل 19 اے کی بدولت سابق طریقہ کار بدل چکا ہے اس دیس کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے امور کے بارے میں معلومات حاصل کرے ا ور اس کیلئے وہ عدالتی چارہ جوئی بھی کرسکتا ہے اور اس حق میں حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی حائل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر شہری کو یہ حق آئین نے دیا ہے ۔ فیصلے سچ سامنے لانے کی اہمیت کے حوالے سے فاضل چیف جسٹس نے قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی آیات کے حوالے بھی شامل کئے ہیں
میرا ماننا یہ ہے
“یہ حکومت بے تحاشہ کرپٹ ہے .. لہذا اگر یہ حکومت جاۓ تو کرپشن کے چارجز پہ جاۓ نے کہ میمو گیٹ جیسے کسی سکینڈل پہ ” اگر اس حکومت کو میمو کیس پہ گھر بھیجا گیا تو یہ سیاسی شہید بن جائیں گے …
پاکستان میں کوئی ایسی ریت یا رسم بھی چلے جس میں کرپشن کرنے والے کو سزا ملے … نواز سے لیکر بینظیر، گیلانی سے لیکر عام وزیر سب کرپٹ ہیں .. جو اپنی کرپشن چھپاتے بھی نہیں ہیں …
تف ہے ہم پاکستانیوں کے مائنڈ سیٹ پہ … وہ بینظیر جس پہ 100 ارب روپے کی کرپشن ثابت ہو گئی تھی .. اور وہ سزا سے بچنے کے لئے بارگین کرنے پہ مجبور ہو گئی … اسے حادثاتی موت مرنے کے بعد ایک بڑا لیڈر بنا دیا ہے ہم نے ….
ویسے ایک میمو لکھنے پہ جو آپ لوگ شور مچا رہے ہیں .. آپ ذرا بتائیں گے کہ جب سابق آرمی چیف یا کہیں آرمی نے پورا ملک اور اسکا ہر infrastructure امریکہ کے حوالے کیا تھا اور ابھی بھی کیا ہوا ہے آپ اسکے خلاف کیوں نہیں بولے تھے یا نہیں بولتے ہیں …
نعمان صاحب
بجا فرمايا آپ نے ليکن بہت کم ۔ ميرے عوامی ہموطنوں کا تو يہ ہال ہے کہ جس نے اس ملک کے اداروں کو ملياميٹ کرنے کا رواج ڈالا اور پاکستان توڑنے ميں اہم کردار ادا کيا تھا اس کی قبر پر جا کر منتيں مانتے ہيں ۔ رہی بات پرويز مشرف کے خلاف آواز اُٹھانے کی تو ميرے اس بلاگ پر نظر ڈالئے ۔ کافی کچھ مل ہی جائے گا پرويز مشرف کی حکومت کی تعريف ميں
جناب بھوپال صاحب ..
یہ تو بات آپکا ہر قاری مانے گا .. کہ آپکا کلمہ حق بلند کر رہے ہیں ایک طویل عرصے سے جس میں آرمی کا پچھلہ دور حکومت بھی شامل ہے …
میرا ماننا یہ ہے … اگر میں غلط ہون تو تصحیح کی درخواست ہے … کہ بجاۓ پرویز مشرف کو برا کہنے کے .. یہ کیوں نہ کہا جاۓ کہ سابق آرمی چیف غلط تھا …
دیکھیں نہ پاکستان پہ آرمی نے جتنے عرصے بھی حکومت کی ہے اس میں فوجی حکمرانوں نے ایسی غلطیاں کی ہیں جس کا خمیازہ پاکستانی آج تک بھگت رہے ہیں … ایوب کے دور کا ٣ دریا بیچنے کا اور باقی دریاؤں کا پانی استمعال کرنے کا حق دینا کا غلط فیصلہ جس میں بھارت کی کامیابی ہی تھی یعنی ٣ دریا تو ہیں ہی اسکے باقی دریا وں کا پانی بھی استمعال کرو … کوئی سوچ سکتا ہے اگر یہ فیصلہ کسی عام شہری وزیر آزم نے کیا ہوتا تھا تو تاریخ کچھ اور ہی بتا رہی ہوتی ..
دوسرا حال ہی کا سابق آرمی چیف کا فیصلہ .. پورے پاکستان کو امریکہ کے حوالے کر دینا — کبھی کراچی سےخیبر یا چمن جانے والی ہائی ویز کی حالت دیکھیں کیا ہو گئی ہے نیٹو کے ٹرالرز کی وجہ سے .. دنیا کی تاریخ میں کسی فوج نے اپنا ملک اتنا سستا بچا ہو گا …
آپ صرف مشرف کو برا کیوں کہتے ہیں وہ تو اس فوج کے ادارے کا ایک پرزہ تھا .. جس نے اپنا کام کیا … اب اس ادارے کی بات کیوں نہ کی جاۓ جو ہمیشہ حب الوطنی کے نام پی ملک کو بچ دیتا ہے .. بس بیچنے والے ادارے کے سربراہ کے نام بدل جاتے ہیں .. ایوب ، یحییٰ ، ضیاالحق اور پرویز مشرف …
کہنے کو تو بہت کچھ ہے .. فوج کا جو کم ہے وہ کرے .. یعنی پاکستان کی حفاظت … جس میں ماشا الله سے فوج آج تک ناکام ہی رہی ہے … ہن اگر کسی پاکستانی کو مارنا ہو تو یہی فوج ایسا آپریشن کرتی ہے کہ مرنے والہ کو پتا ہی نہیں چلتا کے کہاں سے مارا (سابق وزیر دفا ع اور گورنر بگٹی کی مثال)…
Pingback: منتخب نمائندوں کو کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی | Tea Break
نعمان صاحب
گستاخی معاف ۔ جب بہت سے ايک آنکھ والے ہوں تو اُسے بُرا کہا جاتا ہے جس کی دونوں آنکھيں نہ ہوں ۔ فوج کا سرباہ ميں اسلئے نہيں کہتا کہ جو غلط اقدامات کئے گئے وہ ذاتی مفاد کے تھے سربراہ کے فرائض ميں شامل نہيں ہوتے ۔ تمام ادارے اور ان کے سربراہ آئين اور قانون کے پابند ہوتے ہيں ۔ ليکن ہمارے ہاں تو عجيب تماشہ لگا ہوا ہے کہ غيرفوجی صدر اور وزير اعظم بھی ملک کے آئين اور قانون کے خلاف کام کرتے ہيں اور بڑے طمطراق سے اپنتے آپ کو قوم کا مُنتخب نمائندہ بھی کہتے ہيں ۔ يہاں ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق ۔ اس ملک کو سب سے زيادہ نقصان علی الترتيب ان لوگوں نے پہنچايا ۔ غلام محمد ۔ چيف جسٹس منير ۔ اسکندر مرزا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ۔ پرويز مشرف . چيف جسٹس عبدالحميد ڈوگر اور آصف علی زرداری