شير محمد خان صاحب 15 جون 1927ء کو تحصيل پھلور ضلع جالندھر مشرقی پنجاب ميں پيدا ہوئے ۔ اُنہوں نے 1946ء ميں پنجاب يونيورسٹی سے بی اے پاس کيا ۔ پاکستان کے معرضِ وجود ميں آنے کے بعد کراچی ميں بسيرا کيا اور 1953ء ميں کراچی يونيورسٹی سے ايم اے پاس کيا ۔ وہ ايک بہترين مزاح نگار تھے اور کالم نويس بھی ۔ عمدہ شاعری کرتے تھے اور سفرنامے بھی خوب لکھتے تھے ۔ دنيا اُنہيں ” ابنِ انشاء ” کے نام سے جانتی پہچانتی ہے ۔ ہاجکنز لِمفوما ميں مبتلاء ہو کر 11 جنوری 1978ء کو لندن ميں وفات پائی اور کراچی ميں دفن ہوئے
ہوا يوں کہ ميں عنوان “نوکری” ديکھ کر جا پہنچا اُس تحرير پر جو ام تحريم صاحبہ نے “ابنِ انشاء” کی تصنيفات ميں سے اپنے بلاگ “ارتقاءِ حيات” پر نقل کی تھی ۔ دوسری غلطی يہ ہوئی کہ وہاں تبصرہ کے خانے ميں لکھ ديا کہ انشاء جی نے کہا کُوچ کرو اور خود کُوچ کر گئے ۔ خوب لکھا کرتے تھے ۔ ان کی آخری نظم يہاں ملاحظہ فرمايئے
https://theajmals.com/blog/2005/11/12
تير تو ميری کمان سے نکل گيا تھا ۔ اب پچھتائے کيا ہو ۔ جواب ميں آيا ايک ميزائل ان الفاظ ميں ” ساتھ ہی اس کی ویڈیو بھی شیئر کرتے تو کیا ہی بات تھی”
ميں ٹھہرا غيرتمند [:lol:]۔ ناک پر کبھی مکھی نہ بيٹھنے دی ۔ ہو گيا انٹرنيٹ کے گھوڑے پر سوار اور نکل گيا يوٹيوب کے جنگل کی طرف اور رکھ لی ميرے رب نے ميری عزت اور مل گيا مجھے جس کی تلاش تھی
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو ۔ ۔ ۔ اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب ۔ ۔ ۔ جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں ۔ ۔ ۔ دیکھو توسہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوۓ ۔ ۔ ۔ اس جھولی کو پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا ۔ ۔ ۔ زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو ۔ ۔ ۔ سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں ۔ ۔ ۔ کیوں بن میں نہ جا بسيرا ہم کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے ۔ ۔ ۔ تو اور کرے دیوانہ کیا
بہترین انتخاب
انشا جی سی چاشنی شاید ہی کسی اور کے ہاں ہو۔ ہم تو انشا جی کو تب کے دل دے چکے ہیں جب نہ شاعری کا پتہ تھا نہ دل دینے کا مطلب جانتے تھے۔ اللہ ان کی بخشش فرمائے۔
ياسر و علی صاحبان
ميں ابنِ انشاء کی نظميں اور دوسری تحارير بڑے شوق سے پڑھتا رھا ۔ جب اُستاد امانت علی نے ان کی يہ نظم پی ٹی وی پر گائی تو ميں نے بازار ميں اس کی آڈيو کيسٹ تلاش کر کے خريد لی اور سُنتا رہتا تھا ۔ اُستاد امانت علی بھی واقعی اُستاد تھے ۔ ميں نے اُنہيں سامنے بيٹھ کر بھی سُنا ہوا ہے
Pingback: ? ??? ???? ??? | Tea Break
شرمندہ نہ کیا کیجئے چچا جان
میں نے تو بس شاعری دیکھ کر ایک فرمائش کی تھی
آپ کو برا لگا ہے تو معاف کر دیجئے ورہ آئندہ کوئی بھی تبصرہ نہیں کروں گی کہ برا مان جاتے ہیں
میں کوئی بھی بات طنزیہ کہتی ہوں اور نہ ہی کسی بات پر تنقید کرنا پسند کرتی ہوں ہاں رائے یا تصیح کا کہہ دیتی ہوں
برا لاگا ہو تو دوبارہ معافی مانگ لیتی ہوں بابا جی
اُم تحريم صاحبہ
ارے آپ تو اتنا چھوٹا دل رکھتی ہيں کہ ذرا سے مذاق سے چھلک جاتا ہے ۔ ميں تو کبھی کسی سے ناراض نہيں ہوا بالخصوص بچيوں سے ناراض ہونے کا تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ۔ بچياں تو ہوتی ہی پيار کرنے کيلئے ہيں ۔ ايک عادت ميری شايد بُری ہے کہ شديد غم ميں بھی ہوں تو حسِ مزاح کو ضائل نہيں ہونے ديتا ۔ آپ جلدی سے مُسکرا ديجئے اور آپ کو منانے کيلئے محمد طارق راحيل صاحب کی منت سماجت پر مجھے مجبور نہ کيجئے
اور اتنی بڑی دھمکی مجھے از راہِ کرم نہ ديجئے “آئندہ کوئی بھی تبصرہ نہیں کروں گی”۔ ميں تو آپ کو اپنے بلاگ پر ديکھ کر خوش ہوتا ہوں کہ زيادہ مصروف ہوتے ہوئے بھی آئی ہيں
ان کی منت کرنے کی ضرورت نہیں موصوف مجھ سے بھنے بیٹھے ہیں کہ ہم نے آپ کو سکھایا اور ہمارا پتا صاف
ویسے میں بھی کسی بات کا برا نہیں مانتی آپ بزرگ ہیں اور اکثر بزرگ بات بے بات ناراض ہوجاتے ہیں
ذاتی تجربہ ہے
اس لئے معذرت کر لیتی ہوں کہ شائد کچھ برا ہی نا مان لیں سچ میں
اُم تحريم صاحبہ
ميں بزرگ نہيں ہوں ۔ عمر زيادہ ہے تو کيا ہوا ۔ ميں اپنے ماشاء اللہ 7 بچوں [2 بيٹے ۔ 2 بہو بيٹياں ۔ ايک بيٹی ۔ ايک پوتی اور ايک پوتے] کے ساتھ اُنہی کی طرح رہتا ہوں ۔ صرف گذشتہ سال ان کے ساتھ نتھيا گلی کی چوٹی پر گھوڑے پر سوار ہو کر نہ جا سکا کہ ميری بيگم کی طبيعت اچانک کچھ ناساز ہو گئی تھی
معذرت تو ميں بھی فوراً سے پيشتر کر ليتا ہوں ليکن آپ جو ميرے پاؤں تَلے کی دَری 2 بار کھينچ چکی ہيں کہہ کر کہ آئيندہ تبصرہ نہيں کريں گی اگر ميں گر گيا تو پھر آپ رونا نہيں