Yearly Archives: 2011

خوشگوار حيرت

ميں نے اپنا انگريزی بلاگ “منافقت ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name” کے نام سے ساڑھے چھ سال قبل بلاگر [Blogger] پر شروع کيا تھا ۔ بلاگر پر پابندی لگنے پر اسے ورڈ پريس [Wordpress] پر منتقل کر ديا تھا ۔ ميں نے جلد ہی “منافقت [Hypocrisy]” سے زيادہ دوسرے موضوعات پر لکھنا شروع کر ديا تھا تو قارئين کے اصرار پر اس بلاگ کا نام بدل کر ميں نے “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter” رکھ ديا

پونے چھ سال قبل ميں نے اپنا يہ اُردو بلاگ عليحدہ شروع کر ديا تھا اور اس پر پوری توجہ دے رہا تھا چنانچہ ميرا انگريزی کا بلاگ بے توجہی کا شکار رہا ۔ پچھلے سال کيلئے ورڈ پريس کی انتظاميہ نے پہلی بار بلاگز کی کار کردگی کا تخمينہ لگايا جس کے مطابق ميرا بلاگ زيادہ پڑھے جانے والے بلاگز ميں شمار ہوا

مجھے ورڈ پريس کی جو ای ميل جنوری کے شروع ميں موصول ہوئی وہ مندرجہ ذيل فقرہ سے شروع ہوتی ہے

Here is a high level summary of your overall blog health :

WOW
We think you did great !

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ ويسے بھی ميرے انگريزی بلاگ پر اُردو بلاگ سے مختلف عمدہ تحارير پڑھنے کو مليں گی

احوالِ قوم ۔ 7 ۔ عصرِ حاضر کا مسلماں

وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچکی ہیں ۔ ۔ ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ ۔ ۔ ۔ بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ

مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں ۔ ۔ جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں ۔ ۔ زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا

عمل جن کا تھا اس کلامِ متیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مدار آدميّت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے

سمجھتے ہیں گُمراہ جن کو مسلماں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن کو عقبٰیٰ میں اُمیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں۔ ۔ نہ تقدیر میں حُور جن کے نہ غلماں
پس از مَرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمیم آب و زقُّوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغا تھا گویا کہ حصہ انہیں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ حُب الوطن ہے نشان مومنیں کا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

رحم کرو ۔ خد اکے لئے اس ملک پہ رحم کرو

تمام قومی ادارے ہمیشہ قوم کے مجموعی مزاج کو ملحوظ رکھ کر تعمیر ہوتے ہیں جس طرح 1973ء کا آئین بھٹو نے بنایا تھا۔ تمام قوانین اسلام کے مطابق

عدل ہی معاشروں کو جما جڑا رکھتا ہے۔ آئین کے تحت ، قانون کے تحت۔ علّامہ جاوید غامدی یوں تو ادھورے آدمی ہیں۔ اسلام کی روح سے زیادہ الفاظ کے لیکن ایک بات ان کی سو فیصد درست ہے ” آئین کو اگر مقدس نہ مانا جائے گا تو ملک کو قرار حاصل نہ ہوگا”۔

سلمان تاثیر کیس میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفہ ہے لیکن کسی کو انصاف کی فکر بھی ہے؟

آسیہ بی بی کیس میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ گوارا یا ناگوار ، اسے قبول کیا جاتا یا اعلٰی تر عدالت سے رجوع۔ شک کا فائدہ دے کر اعلٰی عدالتیں ملزموں کو ہمیشہ بری کرتی آئی ہیں۔ اسّی کے اسّی مقدمات میں

گورنر سلمان تاثير کو پریس کانفرنس نہ کرنی چاہئیے تھی۔ یہ نہ کہنا چاہئیے تھا کہ “صدر صاحب آسیہ بی بی کو معاف کر دیں گے”۔ عدالت رہا کرتی اور یہ تو ہولناک تھا کہ قانون ناموسِ رسالت کو “کالا قانون” کہا

اب سبھی مانتے ہیں کہ قانون درست ہے اور معاملہ بے حد نازک۔ وزیر داخلہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ان کے سامنے کوئی توہینِ رسالت کرے تو وہ اسے گولی مار دیں [قانون ہاتھ میں لینے کا جواز کیا ہوگا؟]
وزيرِ قانون بابر اعوان کہہ چکے کہ ان کے جیتے جی کوئی اس قانون میں ترمیم نہیں کر سکتا
پیپلز پارٹی اور اس کے ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے مؤقف کا کھوکھلا پن اور تضاد آشکار ہے

سانحہ کے بعد حکمران جماعت کے دو ہدف ہیں ۔ ایک مذہبی پارٹیاں اور دوسرا شریف خاندان
انصاف نہیں ۔ قاتل کو سزا نہیں ۔ حریفوں سے وہ بدلہ چاہتے ہیں ۔ بابر اعوان ۔ راجہ ریاض اینڈ کمپنی نے کسی دلیل کے بغیر شریف برادران کو مجرم قرار دے دیا ۔ یہ تکرار البتہ جاری رہے گی کہ مفاہمت ان کی سیاسی پالیسی ہے۔سبحان اللہ، سبحان اللہ۔

اسلام آباد انتظامیہ کے اعلٰی افسر گورنر سلمان تاثير کی میت لے کر لاہور پہنچے تو گورنر کے خاندان نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا

عاصمہ جہانگیر کو بلایا گیا تو انہوں نے مذہبی جماعتوں کے خلاف مقدمہ داغنے کا مشورہ دیا ۔ وہی برصغیر کا مقدمہ بازی کا مزاج کہ حادثہ ہو جائے تو ہر اس شخص کو پھنسا دیا جائے جس سے “ذاتی” یا “نظریاتی”عداوت ہے

محترمہ عاصمہ جہانگیر سے پوچھيئے “کیا قتل کے قانون کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بے گناہوں کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں؟ کیا اسے ختم کر دیا جائے؟ کون سا قانون ، کون سا دفتر، کون سا ادارہ اور منصب ہے جو منفی مقاصد کے لیے برتا نہیں جاتا۔ خود ریاست بھی ۔ کیا سب کی بساط لپیٹ دی جائے؟”

مرحوم گورنر کی پریس کانفرنس اور شیریں رحمٰن کے مسوّدہ قانون جمع کراتے ہی آشکار تھا کہ طوفان اٹھے گا۔ بزرجمہر جو نہیں جانتے کہ معاشرے اتفاقِ رائے میں جیتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ قومی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگانی چاہئیے۔ ضد ایسی شدید کہ طوفان دیکھ کر بھی نہیں ٹلتے۔ معاشرہ منقسم ہے ، معیشت برباد، سیاست بے حد اُلجھی ہوئی، ملک کا مستقبل داؤ پر لیکن جذبات کا کھیل جاری ہے ۔ ہر شخص اپنے تعصبات کے پھریرے لہراتا ہوا نظر آتا ہے

اسلام کی اساس دو چیزیں ہیں۔ قرآن اور سنت

رحمتہ اللعالمین کی توہین ، اسلام کی عمارت کے دو ستونوں میں سے ایک کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ جذبات کا نہیں ، یہ عقیدے کا معاملہ ہے ۔ ایمان کا معاملہ ہے ۔ پانچ کے پانچ [حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اورجعفریہ] مکاتبِ فکر سو فیصد اس پر متفق ہیں۔ اقبال سے بڑھ کر کسی مفکر پر اتفاقِ رائے نہ ہوا، وہ بھی

بات سمجھ میں نہیں آتی تو ناموسِ رسالت کے قانون پر ریفرنڈم کرا لیجئے۔ کسی ایک شہر میں کوئی ادارہ سروے کرلے۔ 90 فیصد لوگ اس قانون کے حامی ہیں۔ جو دانشور معترض ہیں، ان میں لاہور والوں کو میں جانتا ہوں۔ اقبال اور قائداعظم ہی نہیں ، اسلام کا بھی وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ سوال بالکل سادہ ہے “آپ لوگ اپنی رائے ہم پر مسلّط کیسے کر سکتے ہیں؟”

دانا اتنے ہیں کہ زندگی کے اولین سوال پر غور کرنے کی کبھی فرصت نہ پا سکے ۔ اس حیات اور کائنات کو کس نے پیدا کیا ؟ شرعی قوانین سے بحث کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم، حدیث اور اسلام کی علمی روایت کو چھُوا تک نہیں

درختوں کی جڑیں زمین اور اداروں کی جڑيں قومی مزاج ، تمدن ، تاریخ اور روایات میں ہوتی ہیں۔ مغربی تحریکوں کے زیرِ اثر یہ مفکرین ہوا میں جھُولتے ہیں اور قوم سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ بھی خلاء میں معلّق رہے۔ عام لوگوں کا اندازِ فکر عملی ہوتا ہے ۔ وہ احساسِ کمتری سے اُگنے والے فلسفوں کے جنگلوں میں نہیں جِیا کرتے

اب دوسری طرف آئیے
مولانا فضل الرحمٰن کو سرکار سے جو کچھ سمیٹنا تھا ، سمیٹ کر باہر نکلے اور تحریکِ ناموسِ رسالت کا اعلان ہوگیا۔ ٹی وی پر اور اس کالم میں بار بارعرض کیا: جذبات کی آگ مت بھڑکائیے ، جلسہ جلوس کی ضرورت کیا ہے ؟ ناموسِ رسالت کے قانون کو کون چھیڑ سکتا ہے۔ بحث مطلوب ہے تو اٹھارویں ترمیم کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس کے کسی بند کمرے میں کر لیجئے۔ مشاورت کا دائرہ بتدریج بڑھا کر اتفاقِ رائے پيدا کيجئے۔ بعض مقدمات عدالتیں بند کمروں میں سنا کرتی ہیں۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے۔ مسئلہ ہے قانون کے غلط استعمال کا۔ روکا جا سکتا ہے۔ بدنیتی سے الزام لگانے والے کے لیے سزا کا تعین ، ایک نئے قانون سے

لیڈروں اور دانشوروں پہ خدا رحم کرے۔ سب کے سب معاشرے کو ادھیڑنے پر تُلے ہیں۔ ترقی پسندوں کو اپنی دانائی اورعلماءِ کرام کو اپنے ایمان اور تقویٰ پر فخر بہت ہے ۔ غور لیکن وہ ہرگز نہ فرمائیں گے۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے : “انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے” ۔ اپنے آپ پر زعم ، اپنے فرض کی اہمیت سے بے خبر

سوچا ۔ علماءِ کرام سے پوچھوں “اللہ کے نام پر بننے والے ملک کی آپ نے کیا خدمت کی؟” یاد آیا کہ ان میں جو زیادہ موثر ہیں، وہ تو پاکستان بنانے کے مخالف تھے۔ ریاست کو وہ مانتے نہیں، دہشت گردوں، حتٰی کہ خود کش حملہ آوروں کی مذمت سے گریز

ترقی پسند فرماتے ہیں “سیکولر ازم اختیار کیا جائے”۔ کوئی انہیں تاریخ پڑھائے کہ مغرب میں ظالم چرچ حکمران تھا، جس کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جیسا کہ قائداعظم بار بار کہتے تھے “اسلام میں پاپائیت کا وجود ہی نہیں”۔ مسلم عوام علماء کو کارِ سیاست سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دو آدمیوں پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اقبال اور قائداعظم

بھٹو 35فیصد ووٹ لے کر جیتے، وہ بھی بھارت اور امریکی استعمار کے خلاف نعرہ زن ہو کر۔ غریب آدمی کے جذبات جگا کر۔ اعلان کیا کہ اسلام ہمارا دین ہے ۔ سوشلزم ترک کر کے مساوات محمدی کی اصطلاح وضع کی۔ قادیانیوں کو اقلیت کیا، حج کا کوٹہ ختم کر دیا۔ قوم کو مطمئن رکھنے کے لیے عالمِ اسلام سے قریبی روابط استوار کئے۔ دہلی کی دائم مخالفت کرتے رہے ۔ ان کے وارث دوسرا ہی راگ الاپتے ہیں۔ پہلے ماسکو اور اب واشنگٹن کا گیت

اسلام آباد کے وکیلوں نے کمال کر دیاکہ قاتل پر پھول برسائے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ انارکی؟ قانون کا خاتمہ؟
وزیر داخلہ کا بھی جواب نہیں کہ صبح سویرے ریمانڈ کی بجائے معاملے کو ملتوی کرتے رہے۔ کئی ایک بزرجمہر پولیس کو گالی دیتے رہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مرحوم گورنر نے اسلام آباد پولیس کو دورے سے مطلع ہی نہ کیا تھا۔ پولیس کا قوم کو شکر گزار ہونا چاہئیے ۔ اوسطاً ہر ہفتے دو خودکش حملہ آور دارالحکومت میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ سو گرفتار ہوئے ۔ تحسین کی بجائے پوليس کی مذمت ؟
پولیس کو حکومت اور بارسوخ لوگوں نے برباد کیا ۔ قوانین کے تحت آزادی سے کام کرنے دیا جائے تو آدھے جرائم فوراً ختم ہو جائیں۔ یہاں مگر بھرتی میں سفارش، مناصب میں سفارش اور ایک ایک کیس میں سفارش۔ اس کے بعد شکوہ کيسا ؟

رہنما اوردانشور پہلے ہی قوم کو تقسیم کر چکے، مزید تقسیم نہ کریں۔ اسے اعتدال پر رہنے دیں جو اس کا مزاج ہے اور جس پر بقا کا انحصار۔ آئین اور قانون کی اہمیت اُجاگر کریں۔ طعنہ زنی کی بجائے دلیل دیں۔ پہلے ہی چوہدری، نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری، جناب الطاف حسین اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن اس کے مقدر میں ہیں۔ معیشت برباد، لوٹ مار بے حد چنانچہ استعمار پہ انحصار ۔۔۔ اب اورکیا ؟

رحم کرو ، خدا کے لئے اس ملک پر رحم کرو

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ شادی خانہ آبادی يا ۔ ۔ ۔

شادی کا لفظ نکلا ہے شاد ۔ شاداں يا شادمانی سے يعنی خوشی ۔ عقد النکاح کا نام شادی رکھنا تب درست معلوم ديتا ہے جب خانہ آبادی ہو ورنہ بربادی کو شادی کہنا کہاں کی عقلمندی ہے
:lol:
ويسے اس نہائت اہم سلسلہ ميں ہماری قوم کی اکثريت عقلبندی کا مظاہرہ کرتی ہے عقلمندی کا نہيں ۔ شادی تو بعد کی بات ہے اسے خانہ بربادی بنانے کا بندوبست اُسی وقت شروع کر ديا جاتا ہے جب کسی لڑکے کی شادی کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے

کسی نے کہہ ديا “بيٹے سے پوچھ ليا ؟” تو جواب ملا “اے ہے ۔ ہمارا بيٹا ہے ۔ بڑے لاڈ چاؤ سے پالا ہے ۔ کيسے نہ پسند ہوگی اُسے”۔ اگر لڑکے کا باپ مداخلت کی کوشش کرے تو جواب ملتا ہے “تمہيں کيا معلوم کہ گھر کيسے چلتا ہے ۔ تم تو سارا دن باہر رہتے ہو ۔ بہو کے ساتھ سارا دن ميں نے گذارنا ہے”

يہ بات جاہلوں يا کم پڑھے لکھوں کی نہيں ہو رہی ۔ بڑی بڑی پڑھی لکھیاں جب ماں بنتی ہيں تو عقلبند ہو جاتی ہيں ۔ عورت بہو کی تلاش ميں نکلتی ہے تو پہلی شرط چاند سا مکھڑا ہوتی ہے جب مل جائے تو اُس کے باپ کی جائيداد يا عہدے کا حساب لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ شادی ہو جانے پر پتہ چلتا ہے کہ بيٹا مشرق کی طرف جا رہا ہے اور بہو مغرب کی طرف پھر وہی چاند سا مکھڑا گہنا جاتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ شادی نہيں خانہ بربادی ہوئی ہے

ہمارے ہاں ايک رواج بيٹے برآمد [export] کرنے کا بھی چل رہا ہے ۔ برطانيہ يا امريکا ميں لڑکی پسند کی اور بہو گھر لانے کی بجائے بيٹے کو بہو کے گھر بھيج ديا ۔ دل ميں لڈو پھوٹتے ہيں کہ بيٹا برطانوی يا امريکی شہری بن جائے گا تو گويا بادشاہت مل جائے گی ۔ بھلا ہو امريکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ورنہ بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا تھا ہمارے بيٹے کے پاس گرين کارڈ ہے يا ہمارے بيٹے کے پاس لال پاسپورٹ ہے ۔ ايسے لڑکے عام طور پر ساری عمر بيوی کی غلامی ميں گذارتے ہيں کيونکہ امريکا اور برطانيہ کے قانون کے مطابق اُن کی بيوياں جب چاہيں اُنہيں مُلک سے نکلوا سکتی ہيں ۔ تو کيا يہ شادی ہوئی يا خانہ بربادی

انسان اور درندہ

چيتا ايک جنگلی جانور ہے جسے اس کی تيز رفتاری اور اعصاب کی مضبوطی کی وجہ سے بہت خوننخوار درندہ سمجھا جاتا ہے

کمال يہ ہے کہ ہر جنگلی جانور اصولوں کا پابند ہوتا ہے چاہے وہ چيتا ہی کيوں نہ ہو مگر انسان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے اسے اصولوں کا پابند بنانا بہت مُشکل ہے ۔ کيا عجب کہ اپنے آپ کو انسان سمجھنے والا خونخوار سے بڑھ کر خونخوار ہو

چيتے کی اصول پسندی کا مظاہرہ

ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت کرنے والے ایلیٹ فورس کے سکواڈ میں شامل جوان ممتاز قادری نے ہلاک کر ديا

نتيجہ ۔
ہميشہ کی طرح عوام کی آپس ميں لے دے ۔ فضول بحث اور ايک دوسرے پر تہمت طرازی
سوال ہے ۔ کيا ہميں اس سے بہتر کوئی کام نہيں آتا ؟

[ميں شروع ہی ميں واضح کر دوں کے ميری سوچ کے مطابق ممتاز قادری ملک کے قانون کا مجرم بنا ہے ۔ اللہ کا مجرم بنا ۔ يا نہيں ۔ وہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ميں دو جماعت پاس کيا کہہ سکتا ہوں ؟]

جسے ديکھو وہ قرآن شريف اور حديث سے بالا بالا اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے جسے وہ اصلی اسلام منوانے پر تُلا بيٹھا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت صرف يہ سمجھ ليا گياہے کہ ميلادالنبی کا جلوس نکالا جائے محفل ميلاد رچائی جائے ۔ ان ميں نعت کے عنوان سے شرک کی حديں پار کی جائيں مگر اپنی زندگی ميں صرف وہاں نبی کی پيروی کی جائے جہاں آسانی ہو يا اپنی مطلب براری ہوتی ہو ۔ اور جب توہينِ رسالت کی بات آئے تو “قانون امتناع توہينِ رسالت” کو ظالمانہ يا کالا قانون کہا جائے ۔
يا
رحمت للعالمين کی حيات طيّبہ ميں سے چند مثاليں دے کر توہين کرنے والے کی معافی کا جواز نکالا جائے

ميں ايک عام سا انسان ہوں اور ہر بات کو اس نظر سے ديکھتا ہوں جيسا کہ ميرا اپنا عمل ہے ۔ اگر کوئی ميری بے عزتی کرے تو ميں اُسے معاف کر سکتا ہوں اور يہ حقيقت ہے کہ ميں نے اپنی زندگی ميں ہميشہ ايسے لوگوں کو معاف کيا بھی بلکہ ايک بار حالات کی سازگاری کے پيشِ نظر ايک سِنيئر افسر ہوتے ہوئے ايک ورکر سے سب کے سامنے معافی مانگی ليکن ميں اپنے والدين کی توہين برداشت نہيں کر سکتا چاہے ميری جان جائے ۔ ايک بار ايک شخص نے يہ حرکت کی تھی اور وہ پہلی اور آخری بار تھی کہ لوگوں نے مجھے بپھرا ہوا ديکھا تھا ۔ ميں نے اپنے سے زيادہ جسمانی لحاظ سے طاقتور توہين کرنے والے کے دو چار ہاتھ ايسے رسيد کئے کہ وہ پريشان ہو گيا تھا ۔ اس کے بعد آج تک کسی کو جراءت نہيں ہوئی کہ وہ ميرے ماں باپ کے خلاف بولے

کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کوئی شخص مُسلمان ہو ہی نہيں سکتا جب تک اُسے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اپنی عزيز ترين چيز حتٰی کہ اپنے والدين سے بھی زيادہ عزيز نہ ہو جائيں ؟

پھر کہاں رہ جاتی ہے ہماری مسلمانی جب کوئی ملعون توہنِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ؟

کيا ہمارا حال کچھ اس طرح نہيں جس طرح گارڈن کالج راولپنڈی ميں ہمارے پروفيسر جناب وی کے مل صاحب نے انگلش پوئٹری پڑھاتے ہوئے بتايا تھا “ايک جوان اپنی محبوبہ کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے بہت زيادہ محبت کرتا ہے يہاں تک کہ اس کيلئے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے ۔ اسی اثناء ميں ايک بھينسا اُن کی طرف بھاگتا ہوا آيا تو جوان نے اپنی محبوبہ جس نے سُرخ رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا کو اُٹھا کر بھينسے کے سامنے کر ديا”

يہ کہنا درست ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثير کو قتل کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس پر بہت شور شرابا ہے ۔ ملک ميں اس سے زيادہ قانون کی خلاف ورزياں ہو رہی ہيں ۔ ان پر خاموشی ہے ۔ کيوں ؟

سلمان تاثير نے قانون امتناع توہينِ رسالت کو “کالا قانون” کہہ کر نہ صرف ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ توہينِ رسالت کا بھی مرتکب ہوا تھا

اس پر ملک کے وزيرِ اعظم سيّد يوسف رضا گيلانی نے يہ کہہ کر کہ يہ حکومت کی پاليسی نہيں ہے ايک گڑوی پانی سے اشنان کر ليا تھا ۔ توممتاز قادری کے بارے ميں بھی ايک گڑوی پانی سے اشنان کر لينے ميں کيا مانع ہے ؟

اس سے اُن کی اپنی جماعت اور حواری زد ميں آتے ہيں اور اُنہيں اپنی کرسی چھننے کا خدشہ ہے

آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی

اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے

خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے

آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں

آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات

سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :

ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس

ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”

جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔

ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں

In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.

Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”

نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]

“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.

Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”

Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.

The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.

The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.

When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.

With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.