کسی پر تنقید کرنے سے قبل
جس پر تنقيد کرنے کو ہيں کچھ دیر اس کے نقشِ قدم پر چل کر دیکھیئے
اس طرح آپ اُسے پہلے سے بہتر سمجھ چکے ہوں گے
اور تنقید کرنا ہوئی تو بہتر طریقہ سے کر سکیں گے
کيا معلوم اس طرح آپ تنقيد کے ناخوشگوار عمل سے بچ ہی جائيں
کسی پر تنقید کرنے سے قبل
جس پر تنقيد کرنے کو ہيں کچھ دیر اس کے نقشِ قدم پر چل کر دیکھیئے
اس طرح آپ اُسے پہلے سے بہتر سمجھ چکے ہوں گے
اور تنقید کرنا ہوئی تو بہتر طریقہ سے کر سکیں گے
کيا معلوم اس طرح آپ تنقيد کے ناخوشگوار عمل سے بچ ہی جائيں
کسی صاحب نے ميرا نام استعمال کر کے مختلف بلاگز پر فضول قسم کے تبصرے شروع کر رکھے ہيں
تمام بلاگرز سے درخواست ہے کہ ميرے نام سے کيا گيا تبصرہ اگر غير مہذب يا بے تُکا يا قابل اعتراض ہو تو سمجھ ليجئے کہ وہ تبصرہ ميرا نہيں ہے
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے
ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا
بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں
اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی
بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی
ميری تحرير شکست خوردہ قوم پر ايک قاری عمران اقبال صاحب نے مندرجہ ذيل تبصرہ کيا ہے جس ميں ايک اہم قومی معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ آج کی جوان نسل سے ميری درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں
عمران اقبال صاحب لکھتے ہيں ۔ ۔ ۔
کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ “پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا” اور پھر آپ نے مثال دی کہ “پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاؤ ورنہ راہ داری پر چلو” ۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ “آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی ؟” ۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ “دین اور قانون سے بيگانگی”۔۔۔
میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پست اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہئیں ۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نہ ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا ذکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔
جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیئے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں ؟ ۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاںنہیں رہ گئيں جو ہم نے قرآن میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔
لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سُوّر بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔
آپ نے فرمایا تھا کہ” آج کی نسل بہت بہتر ہے” تو میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے اور لوجیک کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔
میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نہ رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل علی اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔
عمران اقبال صاحب نے عجمان سے مجھے ٹيليفون کيا اور سير حاصل گفتگو کی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ميرے ملک ميں ايسے جوان ہيں جو درست معلومات حاصل کرنے اور اپنے علمِ نافع ميں اضافہ کرنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں ۔ ميں عمران اقبال صاحب کی صرف دو باتوں پر اپنا خيال پيش کروں گا
درست ہے کہ آج کی جوان نسل کی بے راہ روی ان سے پہلی نسل يعنی ميری نسل کی عدم توجہی يا غلط تربيت يا خود غرضی کا نتيجہ ہے مگر کُلی طور پر پچھلی نسل اس کی ذمہ دار نہيں
درست ہے کہ ہماری مسجدوں کی بھاری اکثريت پر غلط قسم کے لوگ قابض ہيں ۔ مگر اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہيں ۔ ہم ميں سے کتنے ہيں جنہوں نے مساجد ميں دينی لحاظ سے بہتری کيلئے خلوصِ نيت سے کوشش کی ہے ۔البتہ نکتہ چينی کرنے کيلئے اکثريت ميں ايک سے ايک بڑھ کر ہے
اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری مسجد جسے لوگ لال مسجد کہتے ہيں کے خطيب کو حکومت گريڈ 12 کی تنخواہ ديتی ہے باقی مساجد ميں گريڈ 10 اور 8 کی ۔ دسويں جماعت کے بعد 8 سال علمِ دين حاصل کرنے والے کتنے ايسے خدمتگار ہو سکتے ہيں جو گريڈ 12 يا 10 يا 8 ميں ملازمت اختيار کريں گے ؟ جب حکومت ان کی سند کو ماسٹرز کے برابر مانتی ہے تو پھر ان لوگوں کو دوسری جامعات سے ماسٹرز کرنے والوں کی طرح گريڈ 15 کيوں نہيں ديا جاتا ؟ خاص کر اسلئے کہ ان لوگوں نے ايک اہم دينی فريضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل ميں خيال پيدا ہو کہ پھر يہ سب کہاں چلے جاتے ہيں ؟ ان ميں کئی ساتھ ساتھ بی ا انگلش اور ايم اے انگلش کے امتحان پاس کر ليتے ہيں اور مسجد کی بجائے دوسری ملازمتيں اختيار کرتے ہيں ۔ صرف چند ايسی مساجد کے خطيب بنتے ہيں جہاں جائز آمدن کا کوئی اور ذريعہ بھی ہو ۔ ايسی مساجد کے طور طريقے ہی الگ ہوتے ہيں ۔ کوئی کہيں چندہ مانگنے نہيں جاتا ۔ جمعرات کی روٹی کا کوئی رواج نہيں ہوتا اور نہ کسی کے گھر ميں ختم کے نام پر کھانا کھاتے ہيں ۔ يہاں يہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ايسے امام مسجد بھی ہيں جنہوں نے دينی تعليم کے ساتھ ساتھ معاشيات يا رياضی يا سائنس کی کم از کم گريجوئيشن کی ہوئی ہے
لفظ “مَنڈوا” پر کئی قارئين سوچ ميں پڑ جائيں گے کہ “يہ کيا بلا ہے ؟”
جسے آجکل سنيما کہا جاتا ہے اس کی اُردو “مَنڈوا” ہے اور يہ لفظ ميں نے اپنے بچپن ميں استعمال ہوتے سُنا تھا ۔ اب کچھ پڑھے لکھے کہہ سکتے ہيں کہ “کتنا گنوار لفظ ہے”۔ ٹھيک ہی کہيں گے کيونکہ جہاں “غسلخانہ” “باتھ روم” ۔ “باورچی خانہ” “کچن” ۔ “ملازم” “سرونٹ” اور “ملازمہ” “ميڈ” بن چکے ہيں وہاں اور کيا توقع ہو سکتی ہے ؟
شايد اسی لئے کسی نے کہا تھا “جو تھی آج تک حقيقت وہی بن گئی فسانہ”
ہاں تو بات ہے حقيقت اور مَنڈوے يا سنيما کی ۔ اور اسی پر بس نہيں ۔ سنيما ۔ سنيما ۔ سنيما اور سنيما کی
آيئے ديکھتے ہيں
حقيقت
اب کوئی وُڈ يعنی ہالی وُڈ ۔ بالی وُڈ ۔ لالی وُڈ يا ڈالی وُڈ يعنی انگريزی فلم ۔ ہندی فلم ۔ پاکستانی فلم اور پنجابی فلم باری باری
انگريزی فلم
ہندی فلم
پاکستانی فلم
اور يہ رہی پنجابی فلم
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کے والد عبدالحمید اور ان کی والدہ آمنہ بیگم کو گھر میں قتل کر دیا گیا ۔ مقتول عبدالحمید پولیس سے ڈی آئی جی کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے اور ان کی زیادہ تر سروس کوئٹہ کی ہی ہے۔ ذرائع کے مطابق مومن لین افسرز کالونی کیولری گراؤنڈ [لاہور] کے مکان نمبر 164 اور گلی نمبر 7 کے رہائشی تھے اور گزشتہ شام ڈاکو ان کے گھر داخل ہوئے اور ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کر دیا ۔ اہل محلہ کے مطابق تین گولیاں چلنے کی آوازیں سنی گئیں۔ پولیس نے گھر کے دو ملازمین کو حراست میں لے لیا
واقعہ کی اطلاع پا کر گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور اعلیٰ پولیس حکام جسٹس جاوید اقبال کے [والد کے]گھر 164 کیولری گراؤنڈ پہنچ گئے جنہیں جاوید اقبال کو افسوسناک واقعہ کی اطلاع رجسٹرار سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے دی ۔ ایس پی کینٹ جواد قمر کے مطابق دونوں گھر میں اکیلے تھے۔ گزشتہ روز رشتہ دار ملنے آئے تو انہوں نے لاشیں دیکھ کر شور مچایا
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آج ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے
قبل ازیں جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل کی اطلاع ملتے ہی چیف جسٹس افتخار چوہدری وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان ، چیئرمین نیب سید دیدار حسین شاہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد علی مرزا اور سپریم کورٹ کے تمام ججز فوری طور پر ججز کالونی میں جسٹس جاوید اقبال کی رہائشگاہ پر پہنچ گئے۔ اس دوران جسٹس جاوید اقبال چیف جسٹس اور وزیر قانون اور دیگر ججوں کے گلے لگ کر روتے رہے۔ جسٹس جاوید اقبال کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ان کے والدین کے قتل کا اس وقت پتہ چلا جب ایک مہمان لاہور میں واقع ان کی رہائشگاہ پر ملنے آئے ، جسٹس جاوید اقبال قتل کے واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد رات کو ہی اسلام آباد سے لاہور کیلئے روانہ ہو گئے ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلیل الرحمن بھی جسٹس جاوید اقبال کے ہمراہ لاہور کیلئے روانہ ہوئے جسٹس جاوید اقبال کو بذریعہ طیارے کے لاہور کیلئے روانہ ہونا تھا تاہم دھند کی وجہ سے طیارہ نہ اڑ سکا جس کے بعد جسٹس جاوید اقبال سڑک کے ذریعہ ہی لاہور کیلئے روانہ ہو گئے
ميرے ہموطنوں کی اکثريت کی يہ عادت بن چکی ہے کہ ہر آدمی اپنی کمزوری اور عِلّت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے ۔ قومی سطح پر بھی يہی صورتِ حال ہے کہ قصوروار کبھی امريکا و اسرائيل اور کبھی حکمران يا طالبان يا مُلا ہوتے ہيں يا اور کچھ نہيں تو اُن کا پاکستانی ہونا ہی بڑا قصور ہوتا ہے ۔ جسے ديکھو ذاتی غرض کے تحت پہاڑ کھودے گا اور غليظ کام کرنے کو بھی تيار ہوگا ليکن کسی ہموطن کی بھلائی کی خاطر ايک تنکا اُٹھانے کا روادار کم ہی ہو گا ۔ خود کچھ کرنے کا نہيں مگر کہتا پھرے گا کہ فلاں يہ کيوں نہيں کرتا اور فلاں وہ کيوں نہيں کرتا ؟ يا پھر کہے گا کہ يہ مُلک ہی خراب ہے
پچھلے دنوں کی بات ہے کہ کسی محفل ميں ايک شخص نے پاکستان کے چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے عزم کی تعريف کی۔ ايک صاحب بولے “يہ سب کچھ وہ اپنی ذات کيلئے کر رہا ہے ۔ فلاں آدمی کو قتل کر ديا گيا ۔ اُس کا سوئو موٹو نوٹس کيوں نہيں ليا ؟”۔ جب اُن صاحب سے پوچھا گيا “آپ اتنے بڑے کھڑپينچ ہيں ۔ آپ بتايئے کہ آپ نے کسی کيلئے یا ملک کيلئے کيا کيا ہے ؟” تو وہ صاحب خاموش بيٹھ گئے
جب کبھی کبھار سڑک پر کار چلاتے ہوئے یا پيدل سڑک کو پار کرتے ہوئے کوئی کار والا راستہ دے ديتا ہے تو اُسی وقت دل و جان سے اُس کا اور اللہ کا شکر بے اختيار ادا ہو جاتا ہے کہ ہماری قوم ميں اِکّا دُکّا ہی سہی مگر کچھ انسان موجود ہيں ۔ ورنہ يہ حال ہے کہ ايک دن میں جا رہا تھا ۔ ايک سکول کے قريب بچے سڑک پار کر رہے تھے ۔ ميں نے کار روک لی ۔ ايک کار نے ميری گاڑی کو تيزی سے اوورٹيک کيا ۔ ايک آٹھ دس سالہ بچہ اُس کار کے نيچے آتا بچا ۔ قبل اس کے کہ ميں اپنی گاڑی سے اُتر کر اُس کار تک پہنچتا اُس کار کو چلانے والے نے اپنی کار سے نکل کر اُس بچے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا “حرامزادے مرنا ہے تو کسی اور کے آگے آ کر مر”
ايک جگہ سڑک پر بھيڑ لگی تھی جا کر ديکھا تو ايک بچہ کسی گاڑی سے ٹکرا کر گرا پڑا ہے ۔ ٹانگ سے خون نکل رہا ہے ۔ ارد گرد کھڑوں ميں سے کوئی کار والوں کو گالی دے رہا ہے کوئی پوليس کو گالی دے رہا ہے کوئی پاکستان کو گالی دے رہا ہے کوئی مسلمانوں کو گالی دے رہا ہے مگر کسی نے جھُک کر بچے کو نہيں ديکھا اور نہ اسے طبی امداد پہنچانے کی فکر کی ۔ جب ميں بھيڑ ميں داخل ہوا اُسی وقت ايک اور شخص سامنی طرف سے آيا ہم دونوں نے بچے کو اُٹھايا ۔ وہ بچے کو لے ہسپتال روانہ ہوا اور ميں نے بچے کے گھر جا کر اطلاع کی
اپنے ملک ميں سڑک پار کرنے کيلئے کھڑے ہيں مگر مجال ہے کہ کوئی گاڑی والا راستہ دے ۔ اگر گاڑيوں کے درميان فاصلہ ہو تو پچھلی گاڑی والا ہارن بجا کر گاڑی تيز کر ليتا ہے ۔ دو سال قبل دبئی ميں ميں سڑک کے کنارے پٹڑی [foot path] پر کھڑا ہوا کہ گاڑياں گذر جائيں تو ميں سڑک پار کروں ۔ سب گاڑياں رُک گئيں اور اگلی گاڑی ميں بيٹھے شخص نے مجھے سڑک پار کرنے کا اشارہ ديا ۔ ہمارے مُلک ميں اپنی تيزی ميں سڑک کے کنارے کھڑے کو ٹکر مار کر بھاگ جاتے ہيں يا بھاگنے کی کوشش کرتے ہيں جيسا ميرے ساتھ پچھلے برس اٹھائيس ستمبر کو ہو چکا ہے
مُلک ميں چوربازاری عام ہے تو قصور امريکا يا اسرائيل کا ہے ۔ جوانوں کا چال چلن انحطاط پر ہے تو قصور دينی مدرسوں اور مُلا کا ہے ۔ آج کا مسلمان خود کو اسلام پر چلانے کی بجائے اسلام کو اپنے مطابق چلانا چاہتا اور اس خواہش کی تکميل ميں دينی مدرسہ اور مُلا کو راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوتاہيوں کا ملبہ اُن پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کچھ باريک بين مدرسہ اور مُلا کا تعلق امريکا سے دريافت کر ليتے ہيں
جسے ديکھو وہ دوسروں کو ٹھيک کرنے کيلئے لمبی تقارير کر رہا ہے اور تحارير لکھ رہا مگر چراغ تلے اندھيرا کی مصداق اپنے قول فعل کے تضاد پر نظر ڈالنے کی اُسے فرصت نہيں ہے ۔ کوئی صوبائی سطح پر بات کرتا ہے تو کوئی ضلعی سطح پر ۔ کوئی قبيلہ کی سطح پر تو کوئی لسانی سطح پر ۔ محدب عدسہ اور چراغ لے کر سورج کی روشنی ميں پاکستانی کو ڈھونڈنا پڑتا ہے
زندہ قوم کے افراد اجتمائی بہتری کا سوچتے اور اس کيلئے کام کرتے ہيں جبکہ شکست خوردہ قوم کے افراد صرف اپنے لئے کام کرتے ہيں اور صرف اپنی بہتری کا سوچتے ہيں خواہ دوسرے کی اس ميں حق تلفی ہو