Yearly Archives: 2011

احوالِ قوم ۔ 8 ۔ بُغز

اگر اک جواں مرد ہم در انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں

وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت

سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو گویا تمنا ہماری بر آئی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

قانون کی خلاف ورزی صرف پاکستانی کرتے ہيں ؟ ؟ ؟

مندرجہ ذيل خبريں پڑھيئے اور اپنی قيمتی رائے کا اظہار کيجئے

لاہور ۔ امریکی قونصلیٹ سے منسلک امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس جمعرات کو اپنی گاڑی نمبر ایل ای جی 5445-10 پر کھانا کھانے کیلئے بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع ایک ہوٹل جا رہا تھا جب وہ قرطبہ چوک پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ دو موٹرسائیکل سوار جنہوں نے اپنے جسم کے ساتھ اسلحہ لگایا ہوا ہے اور جیسے ہی ان کی موٹرسائیکل امریکی باشندے کی گاڑی کے سامنے آئی تو ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہلاک ہوگیا اور دوسرا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا

ان میں سے ایک کی شناخت فیضان حیدر کے نام سے کی گئی اور وہ ٹمبر مارکیٹ راوی روڈ کا رہائشی تھا جبکہ اس کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ فیضان کبھی بھی ڈکیتی کے مقدمات میں ملوث نہیں رہا ہے ۔ شاہدرہ میں اس کا بھائی کچھ عرصہ قبل قتل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے فیضان اپنے پاس پستول رکھتا تھا وہ پستول لائسنس پر تھا

ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والا دوسرا نوجوان 17 سالہ مزدور فہیم شمشاد بیگم کوٹ کا رہائشی تھا ۔ اس کی شادی 6 ماہ قبل ہوئی تھی ۔ اس کی بیوی شمائلہ ہلاکت کا سنتے ہی بیہوش ہو گئی ۔ فہیم سیکورٹی گارڈ شمشاد علی کے 5 بیٹوں اور 2 بیٹیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فہیم کے والد شمشاد اور بھائی وسیم کا کہنا ہے کہ فہیم کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھا ۔ اسے بے قصور مارا گیا اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے

بعد ازاں امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس نے فوری طور پر امریکی قونصلیٹ کوا طلاع دی جس پر اس کی حفاظت کیلئے ایک گاڑی میں سوار امریکی قونصلیٹ کے دو افراد تیز رفتاری سے قرطبہ چوک کی طرف آنے لگے تو ٹریفک بلاک ہونیکی وجہ سے ڈرائیور نے گاڑی ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسری سڑک پر ڈال دی جس سے امریکی شہری کی گاڑی سامنے سے آنے والے موٹرسائیکل سوار سے ٹکرا گئی موٹر سائيکل سوار شدید زخمی ہوگیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا ۔

امریکی قونصلیٹ کی جس گاڑی کی ٹکر سے نوجوان عباد الرحمان جاں بحق ہوا اس پر جعلی نمبر پليٹ لگی تھی جس پر نمبر ایل زیڈ این 6970 لکھا تھا ۔ ذرائع کے مطابق یہ جس کار کا نمبر ہے وہ ساہیوال کے ایک شہری محمد ولدصوفی منور حسین کے نام رجسٹرڈ ہے

گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے موٹر سائیکل سوار عبادالرحمن کا تعلق گلشن راوی سے ہے ۔ وہ شاہ عالم مارکیٹ میں پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار کرتا تھا اس کے سات بہن بھائی ہیں

موقعہ پر موجود لوگ مشتعل ہوگئے جنہوں نے اس گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو گاڑی میں سوار ایک شخص نے اپنی گن نکال لی جس سے لوگ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے

اس دوران سو سے زائد افراد موقع پر جمع ہوگئے جنہوں نے دونوں کاروں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کو روکا ۔ مشتعل ہجوم نے پرانی انارکلی تھانے کا گھیراؤ کیا اور امریکا اور پولیس کیخلاف نعرے لگائے اور ٹائروں کو آگ لگا کر ٹریفک بلاک کر دی

پولیس نے امریکی باشندے کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا

پولیس ذرائع کی ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ موٹر سائیکل سوار افراد نے امریکی شہری کو لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے فائرنگ بھی کی پولیس کو جائے وقوعہ سے دو پستول ملے ہیں جس میں ایک کی میگزین خالی جبکہ دوسرے کی میگزین میں گولیاں تھیں

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واقعہ کی مکمل تحقیقات کا حکم دیدیا

لاہور میں امریکن کونسل خانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو 2 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے الزام میں آج عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی آر نمبر 48/11کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ آج ریمنڈ ڈیوس کو ماڈل ٹاؤن کچہری میں سول جج کے سامنے پیش کیا جائے گا

معجزے

مونا [مُنٰی] سيّد صاحبہ نے بيان کيا کہ انسان جہاں بھی جاتا ہے اللہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے اور اس حوالے کو اس طرح بتايا کہ ہر انسان کے اپنے دو نقشِ پاء کے ساتھ دو اللہ کے نقشِ پاء ہوتے ہيں اور جب صرف دو نقشِ پاء ہوں تو اُس وقت اللہ نے انسان کو کسی بڑی آفت سے بچانے کيلئے اپنی آغوش ميں لے ليا ہوتا ہے ۔ ميں ان عوامل کو جب نقشِ پاء صرف دو ہی رہ جاتے ہيں معجزے کہتا ہوں

مونا سيّد صاحبہ نے فرمائش کی کہ “اپنی زندگی کا کوئی ایک ایسا لمحہ شیئر کرنا پسند کریں گے جب ‘ فٹ پرنٹس’ زندگی میں صرف دو ہی رہ گیے تھے ؟” ميں نے اللہ کو ہميشہ اپنے ساتھ پايا ۔ ميں کئی واقعات لکھ چکا ہوں ۔ پچھلے ہفتہ بھی “پاگل” کے عنوان سے اسی سلسلہ کی ايک تحرير شائع کی تھی ۔ سوچئے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مجھے اپنی آغوش ميں اُٹھا نہ ليتا تو کيا ميں آج تک زندہ اور بصحت ہوتا

معجزہ اللہ الرحمٰن الرحیم کی قدرت کا مظہر ہوتا ہے ۔ معجزے انسان کو اللہ تعالٰی کی ہمہ گیر موجودگی اور خالق و مالک و قادر ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔ کچھ معجزے خاص قسم کے تھے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنے نبیوں کے ہاتھوں کروائے ۔ لیکن معجزے آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ میں صرف اپنے پر بيتے چند واقعات لکھنے لگا ہوں جن کا دنیاوی جواز نہ تھا لیکن ایسا صرف اللہ کی کرم فرمائی سے ہو گیا

میں ابھی ایک سال سے کم عمر کا تھا کہ میں بیمار ہوا علاج ہوتا رہا مگر مرض کی تشخيص کئی ماہ بعد ہوئی کہ زہرباد ہے ۔ یہ جسم کے اندر چھپا ہوا ایک خطرناک پھوڑا [abscess ] ہوتا ہے ۔ اُس جگہ جراہی سے سارا گندا مواد نکال دیا گیا مگر زخم بھرنے کو نہیں آ رہا تھا کيونکہ کئی ماہ بخار ميں مبتلا رہنے کے باعث جسم پر سے گوشت ختم ہو چکا تھا ۔ آخر سرجن نے میرے دادا سے کہا “میں جو کچھ کر سکتا تھا کر لیا ۔ اب سوائے بھگوان سے پراتھنا کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا “۔ کچھ دنوں بعد میری طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی

6 اگست 1964ء کو سکوٹر پر جاتے ہوئے حادثہ میں زخمی ہو کر بیہوش ہو گیا ۔ جب کافی دیر بعد ہوش آیا تو لوگ میرے مرنے پر کلمہ شہادت بھی پڑھ چکے تھے

دسمبر 1964ء میں ملیریا کی دوائی کھانے سے ردِ عمل ہوا ۔ میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا لیکن مجھے سوائے کمزوری کے اور کچھ پتہ نہ چلا ۔ کمزوری بڑھتی دیکھ کر 3 روز بعد میں ہسپتال گیا ۔ وہاں میں پہنچ تو گیا لیکن جاتے ہی بیہوش ہو کر گر پڑا ۔ 3 دن بعد آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ خون کی بوتل لگی ہے ۔ ڈاکٹر پہنچ گیا اور میرا حال دریافت کیا ۔ اُس نے بتایا کہ جسم کا آدھا خون نکل گیا تھا ۔ بتایا گیا کہ ڈاکٹر بھی بہت پریشان رہے کہ میرے لئے کچھ کر نہ پا رہے تھے ۔ مزید 10 دن میں سر نہ اُٹھا سکا کیونکہ سر اُٹھاتے ہی بیہوشی طاری ہو جاتی تھی ۔ چلنے کے قابل ہونے میں مزید 2 ہفتے لگے

سن 1986ء میں میرے گردے میں پتھری بن گئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ ہومیو پیتھی کے ایک مشہور معالج کا علاج بھی کئی سال کروایا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ آخر 1996ء میں لِتھو ٹرِپسی کروائی جس کے نتیجہ میں پتھری کے 2 ٹکڑے ہو گئے مگر خارج نہ ہوئی ۔ میں علاج بھی کرواتا رہا اور ہر 6 ماہ بعد الٹراساؤنڈ کرواتا رہا تاکہ پتہ چلتا رہے کہ پتھری نکل گئی یا کچھ چھوٹی ہوئی ۔ لیکن پتھری نہ نکلی اور نہ چھوٹی ہوئی ۔ تنگ آ کر 10 سال بعد یعنی 2006ء میں الٹرا ساؤنڈ اور علاج دونوں چھوڑ دیئے ۔ جون 2009ء میں یونہی خیال آیا کہ کہیں پتھری بہت بڑی نہ ہو گئی ہو تو جا کر الٹرا ساؤنڈ کروایا ۔ معلوم ہوا کہ پتھری نہیں ہے ۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا ” ذرا اچھی طرح دیکھیئے ۔ 2 پتھریاں تھیں دائیں گردے میں”۔ اُس نے دوبارہ الٹراساؤنڈ کیا مگر پتھری ندارد ۔ سُبحان اللہ

آخر ميں وقوع پذير ہونے والا معجزہ ميں 26 اکتوبر 2010ء کو تحرير کر چکا ہوں ۔ مزيد يہ کہ جب داہنی طرف پندرہ بيس منٹ ديکھتے ميری گردن تھک گئی تھی تو ميں نے سامنے ديکھنا شروع کيا تھا ۔ اسی دوران ايک انتہای تيز رفتار موٹر سائيکل نے مجھے ٹکر ماری ۔ ميں 10 فٹ دُور اَوندھا چہرے کے بل موٹر سائکل کے ساتھ گھسٹتا گیا اور میرا سر ہتھوڑے کی مانند بار بار سڑک پر پڑتا رہا ۔ اس کے بعد موٹر سائيکل مع سوار کے گر گيا ۔ جو شديد چوٹ ميرے سر پر لگی اس کی بناء پر ڈاکٹروں کا خيال تھا کہ ميں

1 ۔ مر جاؤں گا يا
2 ۔ مستقل بيہوش رہوں گا يا
3 ۔ ميری بينائی ضائع ہو جائے گی يا
4 ۔ ميرا دماغی توازن قائم نہيں رہے گا

مگر ميں اللہ کے فضل و کرم سے تندرست ہو گيا

اس کہتے ہیں جو اللہ چاہے ۔ اللہ مہربان تو کُل مہربان

جموں میں تعلیم و سیاست اور ہندوؤں کا رویّہ

جموں میں تعلیم و سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ہمارا سکول باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور تین ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو عمر ميں مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ بڑی جماعت کے مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا “ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے” اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب گو ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ ہندو دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا

1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں کم از کم آٹھ سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے

” لے کے رہیں گے پاکستان”۔
“بَن کے رہے گا پاکستان”۔
“پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلّاللہ”۔
“تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”۔

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے 30 فٹ بلند دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا

ہندوؤں کا رویّہ

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے باہر کے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی

ایک دن ایک برہمن پٹری [Foot Path] پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا “پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے” یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا “کپڑے بڑھشٹ کری گیا” مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا

ہم ۔ ۔ ۔ يا ۔ ۔ ۔ ہم ہی ہم

نامعلوم کيوں ميں اپنے وطن کے معاشرے ميں مدغم نہ ہو سکا ۔ ميرے لئے ميرے ارد گرد کا ماحول ناقابلِ فہم ہی رہا ۔ شايد مجھ ميں خامياں بہت زيادہ ہيں يا ميں کم علم ہوں يا ميں ترقی نہ کر سکا ۔ ميرے بہت کم دوست بنے ليکن اللہ کی مہربانی ہے کہ جو آدھی درجن حضرات ميرے دوست ہيں ان پر ميں بھروسہ کر سکتا ہوں کہ بوقتِ ضرورت ميرے کام آئيں گے اور کام آتے رہتے ہيں

آج جو کچھ ميں لکھنے جا رہا ہوں بھِڑوں کے چھتے ميں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو سکتا ہے يا کم از کم تُند و تيز جملوں کا حملہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے ليکن ميں اپنے ہموطنوں کی صرف ايک عادت جو وہ کہيں بھی چلے جائيں عام طور پر ان کا پيچھا نہيں چھوڑتی کی صرف چند مثاليں نقل کر رہا ہوں

1 ۔ تين چار دوست جب اکٹھے ہوتے تو جو دوست موجود نہ ہوتا اس کی غلطياں بيان کی جاتيں اور اس پر تبصرے کئے جاتے اور اس کی بيوقوفيوں پر قہقہے لگائے جاتے ۔ اگر ان ميں سے ايک چلا جاتا تو جانے والے کے متعلق وہی کچھ کيا جاتا ۔ اور اگر کوئی اور آ جاتا تو وہ بھی اسی لايعنی گفتگو ميں شامل ہو جاتا

2 ۔ ايسی باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کی جاتيں ہيں جو عملی طور پر ممکن نہ ہوں
طرابلس لبيا ميں تھا تو ايک ہموطن سينيئر انجيئر صاحب نے کہا “يہ ليبی انتہائی بيوقوف لوگ ہيں ۔ ايک دن ميں نے ديکھا کہ ايک ليبی اپنی بند فيملی کار ميں اُونٹ بٹھا کر لے جا رہا تھا “۔ ميں نے ان سے کہا “پک اپ ميں ليجا رہا ہو گا”۔ مگر وہ مُصِر تھے کہ پيجو فيملی کار ميں لے کر جا رہا تھا [جو کہ ممکن ہی نہ تھا]

3 ۔ ايک ہموطن جو اعلٰی عہديدار تھے نے بتايا “يہ عرب بہت جاہل قوم ہيں ۔ ايک پاکستانی بنک ميں اکاؤنٹ کھلوانے لگا تو
اسے کہا “اسماء ثلاثہ”
اُسے سمجھ نہ آئی تو کسی نے بتايا کہ “اپنا ۔ اپنے باپ کا اور اپنے دادا کا نام بتاؤ”
اس نے کہا ” نويد سن آف”
تو عرب کہنے لگا “بس بس ہو گئے تين”
کچھ دن بعد مجھے اُسی بنک ميں جانے کا اتفاق ہوا تو ميں نے ديکھا کہ وہاں سب اہلکاروں نے ميرے ساتھ شُستہ انگريزی ميں بات کی

4 ۔ ميں مسجد نبوی ميں نماز کيلئے بيٹھا تھا کہ ايک ہموطن ميرے پاس آ کر بيٹھ گئے
تھوڑی دير بعد گويا ہوئے ” آپ کب سے يہاں ہيں ؟”
ميں نے بتايا “دو ہفتے کيلئے عمرہ کرنے آيا ہوں ۔ 5 دن گذر گئے ۔ 10 دن بعد واپس چلا جاؤں گا”
بولے “چھوڑيں جی ۔ سب ايسے ہی کہتے ہيں ۔ واپس کوئی نہيں جاتا ۔ ميں بھی عمرہ کرنے آيا تھا تين سال قبل”

5 ۔ جو ہموطن لبيا ۔ سعودی عرب يا متحدہ عرب امارات جاتے ۔ پاکستان آنے پر يا وہاں ملاقات ہو تو کہتے ” عرب بہت بُرے لوگ ہيں ۔ ميں تو اس سال کنٹريکٹ ختم ہونے کے انتظار ميں ہوں ۔ واپس چلا جاؤں گا”۔ مگر يہ سب حضرات بيس بائيس سال بعد ريٹائرمنٹ پر ہی وطن واپس آئے

6 ۔ ايک صاحب پاکستان ميں ايک دھوکا دہی ميں ملوث قرار ديئے گئے مگر قبل اسکے کہ انہيں فارغ کيا جائے ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ لوگوں کو بتايا کہ متحدہ عرب امارت ميں ملازمت مل گئی ہے ۔ ايک سال بعد انگريزی سوٹ پہنا ہوا اور ہاتھ ميں بريف کيس پکڑے ادارے ميں آئے اور کسی کو بتايا پچاس لاکھ روپيہ جمع کر ليا ہے کسی کو کچھ بتايا اور انہيں پاکستانی سرکار کی نوکری کے طعنے دے کر چلے گئے ۔ کچھ ماہ بعد ميرا سابقہ ماتحت افسر اور سکول کے زمانہ کا ہمجماعت جو تين سال کی چھٹی لے کر متحدہ امارات ميں ملازمت کر رہا تھا واپس آيا ۔ وہاں کے حالات کے متعلق بات کرتے ہوئے متذکرہ بالا افسر کا بھی ذکر کيا کہ “بے چارہ بُرے حال ميں تھا ہموطنوں نے مدد کی اور واپسی کا ٹکٹ خريد کر ديا”

7 ۔ جو ہموطن دساور ميں ملازمت وغيرہ کر کے آتے ہيں کوئی وہاں کی تعرفيں کرتے نہيں تھکتا اور بتاتا ہے کہ وہ وہاں بادشاہ ہے اور کوئی وہاں کی برائياں بيان کرتے نہيں تھکتا ۔ بہت کم ايسے ہيں جو اصل صورتِ حال بتاتے ہيں

8 ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے وطن سے باہر درجن بھر ممالک ميں رہنے کا موقع ديا ۔ وہاں ديکھا کہ جہاں دو چار ہموطن اکٹھے ہيں وہ ايک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہيں ۔ جبکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ ايک دوسرے کی مدد کرتے نظر آئے ۔ ميں نے 1975ء میں متحدہ عرب امارات ميں ديکھا تھا کہ بھارت سے آئے لوگوں نے ايک ايسوسی ايشن بنا رکھی تھی ۔ جو نيا شخص بھارت سے آتا روزگار ملنے تک اس کا کھانا پينا رہنا اور اس کے روزگار کيلئے کوشش کرنا اس ايسوسی ايشن کے ذمہ ہوتا ۔ جب وہ برسرِ روزگار ہو جاتا تو وہ بھی اپنی آمدن کا شايد 5 فيصد اس ايسوی ايشن کو دينے لگ جاتا

9 ۔ تمام ممالک کے سفارتخانے اپنےملک کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہيں ۔ ان کے برعکس ہمارے سفارتخانوں کے متعلق کچھ ہموطنوں نے کہا “بھارت کے سفارتخانہ جانے کيلئے ويزہ نہيں لينا پڑتا مگر اپنے سفارتخانہ ميں جانے کيلئے ويزہ کی ضرورت ہے”

10 ۔ ہموطنوں ميں کسی کو تنگ کرنا يا چھيڑنا يا اس کے خلاف افواہيں پھيلانا عام طور پر شايد عقلمندی کی علامت سمجھا جاتا ہے

11 ۔ دوسرے کا حق مارنے يا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا ہموطنوں ميں شايد ذہانت سمجھا جاتا ہے

12 ۔ وعدہ کر کے نہ نباہنا شايد مہارت اور ہوشياری سمجھا جاتا ہے

13 ۔ راہ جاتی جوان لڑکيوں کو چھيڑنا يا ان پر آواز کسنا کئی جوان لڑکے اور مرد شايد اپنا حق سمجھتے ہيں ۔ ميں نے صرف کراچی ميں جوان لڑکيوں کو نو وارد لڑکوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ديکھا ۔ دسمبر 1960ء ميں ڈی جے سائنس کالج کی طالبات نے مجھے گھير ليا اور فرسٹ ايئر کا طالب علم سمجھ کر بيوقوف بنانے کی کوشش کی ۔ ميں اُن کی باتيں سُن کر محظوظ ہوتا رہا پھر ميں نے کہا “آپ نے مجھے اپنے پرنسپل صاحب کے دفتر کا راستہ بتانے کی پيشکش کی ہے بہت شکريہ مگر اس وقت مجھے اپنے ہمجماعت لڑکوں سے ملنا ہے جو اين ای ڈی انجنيئرنگ کالج ميں ٹھہرے ہيں”۔ يہ کہتے ہی جھُرمٹ چھَٹ گيا ۔ اس کے بعد ميں نے 1984ء ميں کراچی يونيورسٹی ميں ايک نوجوان لڑکے کے ساتھ لڑکيوں کا حُسنِ سلوک ہوتے ديکھا۔ وہ بيچارہ پريشان تھا کيونکہ اُسے بھاگنے بھی نہيں ديا جا رہا تھا

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ظالم

ڈراموں کی کہانياں اور افسانے لکھنے والوں ۔ ناول نگاوں اور صحافيوں نے ہمارے ملک ميں ايسی فضا تيار کی ہے کہ ہر طرف مرد کے ظُلم کا ڈھنڈورہ پيٹا جاتا ہے اور عورت کی ہر تکليف مرد کے سر منڈھ دی جاتی ہے ۔ علمِ شماريات کا اصول ہے کہ اُوپر اور نيچے کے 34 فيصد کو چھوڑ کر درميانے 66 فيصد کو بنياد بنايا جائے تو درست صورتِ حال سامنے آتی ہے ۔ ہمارے ہاں عام رجحان يہ ہے کہ درميانے يا سفيد پوش 66 فيصد افراد کو يکسر نظرانداز کر کے اُوپر والے يعنی مالدار ايک فيصد يا پھر غربت کی لکير سے نيچے والے 33 فيصد ميں سے چند کی مثال لے کر ساری توانائی اسی پر خرچ کر دی جاتی ہے ۔ مرد کو ظالم قرار دينے کی بنياد يہی ہے

بلاشُبہ عورت پر ظُلم کے اکثر واقعات ان اوپر کے ايک فيصد اور نيچے کے 33 فيصد لوگوں ہی ميں ہوتے ہيں ۔ اوپر کے ايک فيصد ميں ہونے والے واقعات بہت کم منظرِ عام پر آتے ہيں ۔ نيچے کے 33 فيصد ميں ہونے والے واقعات کو عام طور پر وقعت نہيں دی جاتی ۔ بچے اُٹھائے گھر گھر جا کر بھيک مانگنے والی عورتوں سے بات کر کے ديکھ ليجئے ۔ کسی کا خاوند نشئی ہو گا کسی کا جوئے باز يا کسی اور لَت ميں اور بيوی کی مانگی ہوئی بھيک بھی بعض اوقات اس سے چھين لے گا اور اس کی پٹائی بھی کرتا ہو گا

بھاری اکثريت يعنی 66 فيصد کا حال يہ ہے کہ بيٹے ماؤں کے حُکم سے اور خاوند بيوی کی مرضی سے باہر شاذ و نادر ہی ہوتے ہيں ۔ ان ميں ايک خاصی تعداد ايسے خاوندوں کی ہے جو بيوی کی ہم خيالی نہ کرنے پر اُس کی سرزنش کا شکار ہوتے ہيں ۔ ان گھرانوں ميں اکثر کمانے والے خاوند کے پاس جتنے جوڑے کپڑے ہوتے ہيں بيوی کے پاس اس سے 4 گُنا ہوتے ہيں ۔ خاوند کے پاس 5 سے 15 سال پرانے کپڑے ہوتے ہيں اور بيوی کے پاس 3 سال سے زيادہ پرانا کوئی لباس نہيں ہوتا ۔ اس پر بھی بيوی کو اچھے کپڑے نہ ہونے کی شکائت ہوتی ہے

بيوی ملازمت کرتی ہو تو اس کے پاس خاوند سے 20 گُنا زيادہ لباس ہوتے ہيں اور خاوند کو آئے دن بيوی کے طعنے بھی سننا پڑتے ہيں ۔ استثنٰی تو ہر جگہ ہوتا ہی ہے ۔ بلا شُبہ ايسی بيوياں بھی ہيں جو کما کر اپنے خاوندوں کی گھر چلانے ميں بہت مدد کرتی ہيں ۔ امورِ خانہ داری بھی سنبھالتی ہيں اور خاوند کی تابعداری بھی کرتی ہيں

بيٹے کی شادی ہو يا بيٹی کی ان 66 فيصد لوگوں ميں اول رائے ماں کی اور پھر بہنوں کی ہوتی ہے ۔ ماں کی طرف سے دھمکی آخری حربہ ہوتی ہے اور وہ کامياب رہتی ہے جن ميں سے کچھ يہ ہيں ۔ “ميں تمہيں دودھ نہيں بخشوں گی”۔ “ميں نے تجھے پال پوس کر اسلئے جوان کيا تھا کہ تُو مجھے ہی تج دے”۔ “اُس کے ساتھ شادی کرنا ہے تو مجھے مار ڈالو يا گھر سے نکال دو”۔ “اس گھر ميں وہ رہے گی يا ميں”

ماں اپنی پسند کی بہو لانے کے بعد بھی حکومت مکمل اپنے ہاتھ ميں رکھنا چاہتی ہے اور نتيجہ بہو پر ظُلم کی صورت ميں نکلتا ہے ۔ اور اگر بہو تيز ہو تو ساس پر ظُلم ہوتا ہے مگر دونوں صورتوں ميں خاوند يا بيٹا موردِ الزام ٹھہرايا جاتا ہے يا سولی پر لٹکا رہتا ہے ۔ بعض گھرانوں ميں بيٹيوں کی حکومت ہوتی ہے جو بيٹيوں کی شادی ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتی ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں مياں بيوی يا کم از کم بيوی عذاب ميں مبتلا رہتی ہے

ظالم پھر بھی مرد کو کہا جاتا ہے جس کی صرف ايک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور گھر ميں گڑ بڑ کا ذمہ دار گھر کا سربراہ ہوتا ہے

اصل ظالم کون ؟

اصل ظالم جو ہيں اُن کی بات کوئی نہيں کرتا ۔ نہ کسی اخبار ميں ان کے بارے ميں کچھ شائع ہوتا ہے اور نہ کسی ٹی وی چينل پر اس سلسلہ ميں کچھ دکھايا جاتا ہے ۔ يہ چھياسٹھ فيصد ميں سے وہ پڑھے لکھے خاوند ہيں جو ديکھنے ميں تو بہت وضع قطع رکھتے ہيں مگر معاشرہ کے ناسور ہيں ۔ اپنی بيويوں کو آزادی کے نام پر بننے سنورنے کا موقع يا ترغيب دے کر اُنہيں اُونچی سوسائٹی کی فرد ہونے کا احساس دلاتے ہيں اور پھر اُنہيں اپنی مادی ترقی کا ذريعہ بناتے ہيں ۔ ايسی عورتيں ہائی سوسائٹی کے چکر ميں اپنے اندر کی عورت کو مارفين کھلا ديتی ہيں اور عورت کی بجائے رونقِ محفل بن جاتی ہيں ۔ ميں مزيد کچھ لکھنا مناسب نہيں سمجھتا ۔ قارئين سمجھ جائيں گے کہ يہ سب کيا ہے

جن کے نقشِ قدم پر يہ عورتيں چلنے کا شوق رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کی عورتيں غلط راہ کو محسوس کر نے کے بعد اسے تج کر دنيا کے سچے دين اسلام کو اختيار کر رہی ہيں

پاگل

ہاں جناب ۔ ميں پاگل ہوں ۔ کيونکہ ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے کئی موقعوں پر يہی کہا “پاگل ہو گئے ہو کيا ؟ ” مگر میں ٹھہرا پاگل اسلئے اُن کے نصائح ميری سمجھ ميں کبھی نہ آئے ۔ مختلف انواع کی وارداتوں میں سے نمونہ کيلئے صرف ایک ايک تحرير کر رہا ہوں

ايک قسم کا نمونہ
میں جب گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ 14 اگست کو سُنا کہ راجہ بازار خُوب سجايا گيا ہے ۔ اپنے دو ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد راجہ بازار کی سير کا قصد ہوا ۔ مرکزی جامعہ مسجد کی طرف سے نمک منڈی جو ميوہ منڈی بھی کہلاتی تھی تک پہنچے تو دل سَير ہو گيا اور واپس لوٹے ۔ ہم تينوں تيز چلنے کے عادی تھے ۔ ہمارے سامنے تين چار لڑکياں آ گئيں جو ہمارے آگے چل رہی تھيں ۔ ابھی اُنہيں اورٹيک کرنے کا سوچا ہی تھا کہ سامنے سے تين ہٹے کٹے لڑکے آتے ہوئے نظر آئے ۔ صاف نظر آيا کہ اُن کی نيت ان لڑکيوں سے ٹکرانے کی ہے ۔ ميں جلدی سے اُچک کر اُن لڑکيوں کے سامنے پہنچا اور دونوں بازو اطراف میں پھيلا کر لڑکوں کے ساتھ سينہ بسينہ پوری قوّت سے ٹکرايا ۔ اس ناگہانی ٹکر کے نتيجہ ميں درميان والا لڑکا گر گيا ۔ ميری عمر اس وقت 16 سال تھی ۔ فوری طور پر کچھ بڑی عمر کے لوگوں نے مجھے الگ کر کے اُن لڑکوں کو پکڑ ليا

آگے بڑھے تو ميرے دو ساتھی کہنے لگے “يار ۔ تُو تَو پاگل ہے ۔ اچھا ہوا لوگوں نے اُنہيں سنبھال ليا ورنہ اُنہوں نے تمہاری ہڈيوں کا قيمہ بنا دينا تھا”

دوسری قسم کا نمونہ
ميں نے ملازمت کے دوران 1965ء میں تيرنا سيکھنا شروع کيا ۔ ابھی چند دن گذرے تھے کہ گرمی زوروں پر تھی تو میں نے دفتر سے آتے ہی اپنے کمرے سے توليہ اور سومنگ کاسٹيوم پکڑا اور سوِمِنگ پُول پہنچا ۔ غُسلخانہ ميں کپڑے تبديل کئے اور نہا کر باہر نکلا ہی تھا کہ ايک دس بارہ سالہ لڑکے نے 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگائی مگر اُوپر آنے کی بجائے دس گيارہ فٹ پانی کے نيچے ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ ميں اُسے ڈوبتے ديکھ نہ سکا اور میں نے بھاگ کر 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ نمعلوم کيسے میں سيدھا گہرائی ميں گيا ميرے پاؤں زمين سے ٹکرائے تو میں نے پوری قوّت سے زمين کو دھکا ديا اور دونوں ہاتھ سيدھے اُوپر کو اُٹھا ديئے ۔ ميں تيزی سے اُوپر کی طرف اُبھرا ۔ اسی دوران ميں نے ڈوبتے لڑکے کو نيچے سے دونوں ہاتھوں سے اُوپر کی طرف اُچھالنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد ميرا سر پانی سے باہر نکلا ۔ میں نے اپنے جسم کو نيچے کی طرف دھکيلا اور جب لڑکے سے نيچے ہو گيا تو اُوپر اُٹھتے ہوئے لڑکے کو پھر اُوپر کی طرف دھکيلا ۔ میں اور لڑکا دونوں پانی کی سطح پر پہنچ گئے ۔ اتنی دير میں دو تيراک تالاب میں کود چُکے تھے جو لڑکے کو کنارے پر لے آئے

اس واقعہ کے بعد کئی دن تک میں لوگوں سے سُنتا رہا “تم نے کمال پاگل پن کيا ۔عجب پاگل ہو تم ۔ ڈوب جاتے تو”۔

تيسری قسم کا نمونہ
مجھے مارچ 1983ء ميں ايک جديد ترين فنی تربيتی مدرسہ [State-of-the-art Technical Training Institute] کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور تکميل [Planning, development and completion] کا کام سونپا گيا ۔ ميں نے منصوبہ بندی کے بعد پہلے سارے نصاب جديد ضروريات کے مطابق ڈھالے پھر عملی کام کی منصوبہ بندی کی ۔ 1985ء ميں ايک سی اين سی تربيتی کارخانے کی پيشکشيں بھی طلب کيں [offers were invited for establishment of computerised numerical controled machines training workshop] ۔ جب پيشکشيں موصول ہو چکی تھيں تو اُوپر سے حُکم آيا کہ فلاں کمپنی کی پيشکش قبول کر لو ۔ يہ پہلے مجھے موصول نہ ہوئی تھی پھر بھی ميں نے اس کا مطالعہ کيا ۔ يہ ايک تو بہت مہنگی تھی دوسرے ہماری ضروريات پوری نہيں کرتی تھی تيسرے فاضل پرزہ جات کی ضمانت بھی نہ تھی ۔ قوانين کے تحت ميں اُوپر سے آنے والی پيشکش کی حمائت نہيں کر سکتا تھاسو ميں نے ساری تفصيل لکھ کر بھيجی ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ ميرا وہاں سے تبادلہ کر ديا گيا اور ميری دو سال کی تمام محنت اور اس کے اچھے نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے سال کے آخر ميں ميری سالانہ رپورٹ ميں لکھا گيا not fit for promotion

ساتھی کہنے لگے ” تم بھی پاگل ہو ۔ کيا پڑی تھی قوم کا پيسہ بچانے کی ؟ صاحب بہادر کو خوش کرتے ترقی پاتے”

چوتھی قسم کا نمونہ
جب 4 اگست 1992ء کو مجھے ڈائريکٹر پی او ايف ويلفيئر ٹرسٹ بنايا گيا تو چند ماہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ عوام کی کم اور افسران کی زيادہ ويلفيئر ہوتی ہے ۔ میں نے پيچ کسنے شروع کئے تو کچھ افسران کو پريشانی ہوئی اور ميرے خلاف ہوا گرم ہونا شروع ہوئی ۔ نوبت بايں جا رسيد کہ مجھے 2 سال بعد يہ نوکری چھوڑنا پڑی جبکہ مجھے 7 سال يہ نوکری کرنے کی اُميد تھی يعنی 60 سال کی عمر تک

ساتھيوں نے کہا “تم بھی پاگل ہی ہو ۔ جو دوسرے کرتے تھے کرتے رہتے ۔ تمہيں کيا پڑی تھی ايمان داری دکھانے کی ۔ خواہ مخوا اپنے رزق پر لات مار دی”۔