Yearly Archives: 2011

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مثبت سوچ

یہ واقعہ شروع 1994ء کا ہے جب میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ دفتر کی صفائی وغیرہ کیلئے ایک آدمی کی ضرورت تھی جس کیلئے تنخواہ بہت کم رکھی گئی تھی ۔ اخبار میں اشتہار دیا گیا ۔ صرف تین اُمیدوار انٹرویو کیلئے آئے ۔ ان میں ایک چِٹا اَن پڑھ تھا

ایک نوجوان نے ملیشا کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی ۔ وہ ایف اے یعنی بارہویں پاس تھا ۔ اس کے بعد اس نے ٹائپنگ سیکھی تھی ۔ اور بنیادی کمپیوٹر اور ورڈ پروسیسنگ کورس کیا ہوا تھا ۔ اسے پوچھا کہ اتنی کم تنخواہ پر کیوں آ رہے ہو تو جواب دیا “میں آزاد جموں کشمیر کے ایک گاؤں سے ہوں ۔ یہاں ایک رشتہ دار نے مجھے اپنے گھر میں جگہ دے رکھی ہے ۔ میں ایک پھل والے کی ریڑھی پر آواز لگاتا ہوں ۔ جس دن وہ ریڑھی لگائے مجھے دس روپے دیتا ہے ۔ یہاں کچھ پیسے مل جائیں گے تو گھر بھیج سکوں گا

دوسرا تیس پنتیس سال کا تھا ۔ اچھی پتلون قمیض پہن رکھی تھی ۔ میں نے اُسے کہا ” آپ تو مجھے پڑھے لکھے اور اچھے عہدہ پر کام کرنے والے لگتے ہیں ۔ آپ یہاں کیسے ؟” اس نے جواب دیا “جناب آپ نے درست پہچانا ۔ میں نے سویڈش انسٹیٹوٹ سے الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ کے بعد ایک کمپنی میں ملازمت کی پھر ایک کمپنی کے ساتھ متحدہ عرب امارات گیا اور وہاں کام کرتا رہا ۔ کام مکمل ہو جانے پر کمپنی واپس آ گئی ہے ۔ میں بال بچے دار ہوں فارغ بیٹھا اپنی جمع پونجی کھا رہا ہوں ۔ اس طرح تو جتنا بھی مال ہو ختم ہو جاتا ہے ۔ میرا گھر یہاں قریب ہی ٹیکسلا میں ہے ۔ میں اپنے بائیساکل پر آ جایا کروں گا ۔ آپ مجھے کچھ دیں گے ہی نا ۔ اتنا میری جمع پونجی کی بچت ہو جائے گی ۔ مجھے کوئی کام کرنے میں عار نہیں ۔ میں آپ کا پورا دفتر صاف کروں گا جھاڑو دوں گا ۔ آپ کو چائے پکا کر پلاؤں گا اور سب برتن دھوؤں گا ۔ کچھ اور بھی کوئی دفتر کا کام ہوا تو کروں گا”

زخم خود بولتے ہيں

لاہور ۔ جمعرات 27 جنوری 2011ء قريب پونے 3 بجے بعد دوپہر چوک مزنگ چونگی کی عابد مارکیٹ کے قریب امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دونوں نوجوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دونوں نوجوانوں کے جسموں میں پیوست ہونے والی گولیوں کی تفصیلات يہ ہیں

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ طب شرعی کے ڈاکٹرز نے اس واقعہ میں ہلاک ہونیو الے فیضان حیدر اور فہیم شمشاد کا پوسٹ مارٹم کیا ۔ نوجوان فہیم شمشاد کی موقع پر ہی 2 بج کر 45 منٹ پرگولیاں لگنے سے موت واقع ہو ئی ۔ جس کی لاش کا پوسٹ مارٹم تقریبا 22 گھنٹے 30 منٹ بعد کیا گیا ۔ فہیم کے جسم پر زخموں کے4 نشان تھے ۔ اس کے جسم پر گولیاں بھی 4 لگیں ۔ فہیم کو ایک گولی سر کے پیچھے دائیں طرف دوسری سامنے سے پیٹ پر جو آر پار ہو ئی تیسری گولی کمر پر بائیں جانب چوتھی بائیں کلائی پر لگی جو فہیم کی بائیں ٹانگ کی ران کو چھو کر گزر گئی

دوسرے نوجوان فیضان حیدر کی موت واقعہ کے ایک گھنٹے 35 منٹ بعد اسپتال میں ہوئی ۔ اسکی لاش کا پوسٹ مارٹم 19 گھنٹے 55 منٹ بعد شروع ہوا ۔ فیضان کے جسم پر زخموں کے 6 نشانات پائے گئے جن میں 5 گولیوں کے جبکہ ایک آپریشن کا ہے ۔ فیضان کو ایک گولی سامنے سے چھاتی کے دائیں طرف جبکہ دوسری بائیں کولہے سے آر پار ہوئی تیسری گولی کمر کی بائیں جانب عقب سے اور دو گولیاں بائیں ران سے چھو کر گزر گئیں

پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہواہے کہ دونوں کو صرف ایک ایک گولی فرنٹ سے لگی اور دونوں کو باقی گولیاں عقب سے ماری گئیں

تو کيا ریمنڈ ڈیوس نے يہ سب گولياں اپنے دفاع ميں چلائی تھيں ؟
خيال رہے يہ معمولی سوال نہيں ہے
اگر دونوں نوجوان ڈاکو تھے اور ریمنڈ ڈیوس کو لوٹنے لگے تھے تو گولياں سب سامنے کی طرف سے لگنا چاہئيں تھيں
ايک خيال يہ بھی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سيکرٹ ايجنٹ ہے ۔ جب مقتول نوجوانوں نے حسبِ عادت ریمنڈ ڈیوس کی طرف ايک سے زيادہ بار ديکھا کہ “يہ گورا يہاں کيا کر رہا ہے”۔ تو ریمنڈ ڈیوس کو شک ہوا کہ انہوں نے اُسے پہچان ليا ہے چنانچہ اُنہيں ہلاک کر ديا

ریمنڈ ڈیوس ؟؟؟

1 ۔ واشنگٹن(آئی این آئی) امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور میں دوپاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی ریمنڈ ڈیوس نجی کمپنی کا ملازم ہے

پیر کو امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس ہائپریون پروٹیکٹو کنسلٹنٹ ایل ایل سی کا ملازم ہے۔ ریاست فلوریڈا کے شہر اور لانڈو میں قائم یہ کمپنی سی آئی اے جیسی کارروائیاں کرتی ہے لیکن بظاہر کیڑا مار ادویات اور دیگر خدمات فراہم کرتی ہے

2 ۔ لاہور يکم فروری 2011ء ۔ لاہور ہائیکورٹ نے دہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے اور اسکا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آج عدالت میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران یڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موٴقف اختیار کیا کہ ڈیوس کے استثنا کے بارے میں ابھی تک دعوی ٰنہیں کیاگیا ۔ وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانے نے ڈیوس کوڈپلومیٹ قراردیا مگرثبوت نہیں دیے، وزارت خارجہ سے ڈیوس کااسٹیٹس معلوم کیاگیا کچھ مہلت دی جائے، جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کوریمنڈڈیوس کوامریکا کے حوالے کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے اسکا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کاحکم دے دیا اور کیس پر کارروائی دن کے لیے ملتوی کر دی

3 . The trail to fake NOCs saga leads to deep-rooted covert arrangement whereby the key US agents try to get lawful cover for their unlawful movements as it happened in the case of Raymond Davis, it has been learnt. With the mystery shrouding the issuance of the fake documents as no objection certificates (NOCs) on the original letterheads of the Pakistan’s Ministry of Foreign Affairs (MOFA) to the US military personnel and diplomats, The Nation has acquired three more similar documents carrying the names of 17 US officials.

These credentials identify the officials of United States Agency for International Development (USAID) and Office of Defence Representative to Pakistan (ODR-P) as ‘defence contractors’ and allow them ‘private stay’ in Rawalpindi, Islamabad and Taxila. Sources are of the view that ‘defence contractors’ is an obvious reference to Blackwater or Xe Worldwide and allowing them ‘private stay’ in these letters has much to do with the covert activities and espionage.

The scenario co-relates to the killings of three Pakistanis at the hands of undercover US agent in Lahore on Thursday. The accused alias Raymond Davis had provided his fake name and credentials. In a bid to hush up the facts, the US State Department Spokesperson P J Crowley on Friday last said that the official arrested by Pakistani security agencies was not Raymond Davis. If Crowley’s statement is to be gone by, it becomes clear that all the travel documents, including passport and identification card provided by the US agent, were fake because these documents identified the US spy with the aforementioned name.

On Saturday last, Punjab’s Law Minister Rana Sanaullah said that original passport of the accused was received but the minister did not give any details whether the name written on the US spy’s passport had matched the name written on his previous credentials.

ايک نظر ادھر بھی

اس غريب مُلک اور قوم کے مال پر پلنے والوں بلکہ گُلچڑے اُڑانے والے کہاں کہاں ہيں اور کيا خدمتِ خلق کر رہے ہيں ؟
يہ سرکاری اعداد و شمار ہيں ۔ کسی نے پنجاب کو گالی دينا ہے تو ضرور دے [ميرے بابا يا چاچا يا ماموں کی حکومت نہيں ہے پنجاب ميں] ليکن پہلے اپنے گريبان کے اندر اور اپنی چارپائی کے نيچے اچھی طرح نظر مار لے

اسمبلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعداد اراکين ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران فی
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100 اراکين اسمبلی

قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 342 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19.00

پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 371 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.31

سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 168 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 70 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41.67

خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ 124 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26.16

بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72.30

چھوٹی چھوٹی خبريں

اسلام آباد ۔ 30 جنوری 2011ء کے اخبار سے ۔ واشنگٹن کے دباؤ اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی جانب سے اسلام آباد کے حکمرانوں کو امریکی قاتل کی فوری رہائی کیلئے فون کرنے کے باوجود پنجاب حکومت کے ترجمان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے قانون کے مطابق پیش رفت ہوگی اور رات کی تاریکی میں دو افراد کو قتل کرنے والے شخص کو امریکا بھیجنے نہیں دیا جائے گا۔ دفتر خارجہ اور پنجاب حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ جمعرات کو لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے والے امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس یا دوسرے امریکی کیلئے کوئی غیر معمولی رعایت اختیار کی جائے گی
ایک ایسے موقع پر جب دفتر خارجہ کا اصرار ہے کہ ہلیری کلنٹن نے فون کال کی اور اعلیٰ سطح پر رابطے ہوئے ہیں، وزارت خارجہ نے پرعزم ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ملکی قانون کے تحت کارروائی ہونا چاہئے اور امریکی قاتلوں کی قسمت کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا چاہئے۔ پرویز رشید نے کہا کہ صوبائی حکومت کی اصلیت کو افعال ہی ظاہر کرسکتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ واقعہ امریکا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا سبب بنے لیکن ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستانیوں کے قاتلوں کیلئے قانون کے مطابق نمٹا جائے اور اس معاملے میں میری پارٹی اور صوبائی حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی اور قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کا مقدمہ اب عدالت میں ہے اور اب وہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گی اور یہ بھی اسے سفارتی استثنٰی حاصل ہے یا نہیں ۔
پنجاب پولیس کے ذارئع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تین مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے اسلحہ اور دہرے قتل کے دو مقدمات ریمنڈ ڈیوس کے خلاف جبکہ ایک اور کیس بھی امریکی باشندے کے خلاف درج کیا گیا ہے جس کا نام تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔
ریمنڈ ڈیوس سے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (G P S) اور چہرے پر پہننے والا نقاب (Face Mask) برآمد ہونے کے بعد اس بات کے خدشات بڑھ گئے ہیں کہ وہ خفیہ (UnderCover) جاسوس تھا۔

لاہور ۔ 31 جنوری 2011ء بوقت 15:35 ۔ وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ نے لاہور میں شہریوں کے قتل کیس میں گرفتار امریکی ریمنڈڈیوس کے خلاف آئین کے آرٹیکل184 3 کے تحت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل نہیں ہے اور امریکی سفارت خانے نے اسے سفارت کار بھی غلط طور پر قرار دیاہے ۔ پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا یا امریکا کے حوالے نہ کرنے کا حکم دیا جائے

لاہور ۔ 31 جنوری 2011ء بوقت 15:50۔ وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے تو اسے امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں ریمنڈ کے خلاف کیس امریکا میں ہی چلے گا ۔ وہ اسلام آباد جاتے ہوئے لاہور ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفت گو کر رہے تھے۔ سردار آصف احمد علی کا کہنا تھاکہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو استثنٰی حاصل نہیں تو اس کا ٹرائل پاکستان میں ہی قانون کے مطابق ہو گا ۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ اسے استثنٰی نہیں تھا اس لئے کیس امریکا میں چلا

Let Joe Do It

“Who will do it ?”
“Let Joe do it”
“But Joe is not yet born, then who will do it ?”

يہ مکالمہ مجھے اسلئے ياد آيا کہ ميں نے “ميں کيا جواب دوں” کے عنوان سے تمام قارئين سے درخواست کی تھی کہ اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں ۔ مجھے يہ لکھتے ہوئے صرف افسوس ہی نہيں بلکہ دُکھ ہو رہا ہے کہ بڑھ چڑھ کر باتيں کرنے اور بلند پايہ تحارير لکھنے ميں ہم لوگ سب سے آگے ہيں ليکن ميری اس درخواست کو جو ميرا نہيں آج کے جوانوں اور آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے کسی نے قابلِ اعتناء نہ سمجھا ۔ ميرا خيال تھا کہ عبداللہ صاحب مُلک و قوم کے مُخلص خدمتگار اور خير خواہ ہيں وہ ضرور اپنی عمدہ قابلِ عمل رائے سے نوازيں گے مگر شايد وہ کسی اس سے بھی زيادہ اہم کام ميں ہمہ تن گوش رہے

البرٹ آئنسٹائن جس کی ہر بات کو ہمارے مُلک کی اکثريت ہيرے سے زيادہ قيمتی سمجھتی ہے نے کہا تھا

گناہ و جُرم کرنے والوں کی وجہ سے دنيا خطرناک نہيں بنی بلکہ اُن اچھے لوگوں کی وجہ سے خطرناک بنی ہے جو بُرائی کو ديکھتے ہيں اور اس کے سدِ باب کيلئے کچھ نہيں کرتے

کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں ہوں گا کہ ہمارے ملک کی حالت ابتر بنانے ميں جوان نسل بھی برابر کی شريک ہے ؟

بلاگز پر بالخصوص تبصروں ميں کئی بار پڑھ چکا ہوں “ملک کی بہتری کيلئے وڈيرے ۔ سرداروں ۔ نوابوں اور موروثی حکمرانوں سے جان چھڑانا ضروری ہے ” اور يہ لکھنے میں عبداللہ صاحب پيش پيش ہوتے ہيں ۔ باتيں کرنا بہت آسان کام ہے اس کيلئے نہ تعليم کی ضرورت ہوتی ہے نہ عقل کی ۔ “حُکمران وڈيرے لُٹيرے” کا شور آئے دن اُٹھتا رہتا ہے مگر يہ شور کرنے والے خود ايک تنکا توڑنا بھی شايد اپنے آپ پر ظُلم سمجھتے ہيں ۔ جب تک عوام کچھ عملی قدم [توڑ پھوڑ کا نہيں صرف تعميری] نہيں اُٹھائيں گے کچھ نہيں بدلے گا اور حالات مزيد خراب اور ناقابلِ برداشت ہوتے جائيں گے ۔ قوميں تحمل اور بُردباری سے بنتی ہيں ۔ “فلاں جگہ آپريشن کرو” ۔ “فلاں جگہ مارشل لاء لگا دو” کے آوازے عقل اور حُب الوطنی سے عاری ہوتے ہيں

قوم کی بنياديں استوار کرنے کيلئے ذاتيات کو بھُلا کر اجتماعی جد وجہد سے کم کوئی نُسخہ نہيں ہے

وڈيرے اور لُٹيرے حکمرانوں سے چھُٹکارہ کيسے ؟

ميں نے پچھلے قومی و صوبائی انتخابات سے قبل ايک تحرير لکھی تھی جس ميں اس چھٹکارے کيلئے تجاويز ديں تھيں جو صرف ووٹرز کيلئے تھيں ۔ حالانکہ ميرا مشورہ غير جانبدارانہ اور خلوص پر مبنی تھا پھر بھی ميں کہہ سکتا ہوں کہ بلاگرز اور قارئين ميں سے بھی صرف چند ايک ہوں گے جنہوں نے ميرے مشورے پر عمل کيا ہو گا يا وہ خود پہلے سے ہی ايسا کرتے ہوں گے ۔ اگر ووٹر اس پر عمل کرتے تو آزمائے ہوئے لُٹيرے ہمارے حکمران بن کر آج ہمارے لئے سوہانِ روح نہ بنے ہوتے

ابھی چونکہ انتخابات ميں دوسال باقی ہيں اسلئے ميں اپنی متذکرہ تجويز کو مزيد مؤثر بنانے کيلئے تجويز دے رہا ہوں جس کيلئے عوام بالخصوص پڑھے لکھوں کی صدق دل اور صبر و تحمل کے ساتھ کوشش کی ضرورت ہے ۔ پہلے سب اپنے ساتھ عہد کريں کہ وہ اُس جماعت کا سياسی اور معاشرتی بائيکاٹ کريں گے جو ان اصولوں پر عمل پيرا نہيں ہو گی اور صرف اس جماعت کے نيک نام اُميدواروں کو ووٹ ديں گے جو ان اصولوں پر عمل کرے گی

مزيد پڑھنے سے پہلے ميری متذکرہ پرانی تحرير پڑھ ليجئے تاکہ بلاوجہ کے سوال دماغ کو پراگندہ نہ کريں

تمام لوگ اپنی اپنی جماعتوں کو انتخابات کے مندرجہ ذيل قوانين بنانے پر مجبور کريں

1 ۔ ہر سياسی جماعت کا باقاعدہ رجسٹر شدہ ايجنڈہ ہو جس پر عمل نہ کرنے والی جماعت پانچ سال کيلئے نا اہل قرار دی جائے

2 ۔ ہر سياسی جماعت مقررہ مدت [جو پانچ سال سے زيادہ نہ ہو] کے بعد اپنی جماعت کے ہر سطح کے انتخابات کرائے

3 ۔ انتخابات کی تاريخ سے 2 ماہ قبل اور انتخابی مُہم شروع ہونے سے پہلے مرکزی اور صوبائی حکومتيں اور اسمبلياں توڑ دی جائيں اور حکومت کا وقتی طور پر کام چلانے کيلئے مرکز ميں عدالتِ عظمٰی اور صوبوں ميں متعلقہ عدالتِ عاليہ آئين کے مطابق ايسے افراد مقرر کرے جو اس کام کے اہل ہوں ا ور ان کا کسی سياسی جماعت سے نہ تو تعلق ہو اور نہ وہ مستقبل ميں کم از کم پانچ سال تک کسی سياسی جماعت کے نمائندہ يا اُميدوار بنيں

4 ۔ انتخابات کی سياست ميں حصہ لينے والا سرکاری ملازم بشمول صدر اور گورنر ہر قسم کے قومی يا صوبائی عہدہ کيلئے نااہل قرار ديا جائے

5 ۔ انتخابی جلسہ ميں ہر اُميدوار اپنی جماعت کے ايجنڈہ کے تحت بات کرے ۔ دوسری جماعت کی برائی کرنا چاہے تو جس کی برائی کی جائے بات اس سياسی جماعت کے ايجنڈہ پر عمل نہ کرنے کی صورت ميں کرے يا ان کے ايجنڈہ پر تنقيد کرے ۔ يونہی کيچڑ اُچھالنے والے کے خلاف تاديبی کاروائی کی جائے

6 ۔ کسی اُميدوار کو سرکاری ٹرانسپورٹ يا کوئی اور سرکاری سہولت استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو ۔ ايسا کرنے والے اُميدوار پر پانچ سال انتخابات ميں حصہ نہ لينے کی پابندی لگا دی جائے

7 ۔ انتخابات کے دن کسی کو ذاتی يا سرکاری ٹرانسپورٹ پر ووٹرز کو لے جانے کی اجازت نہ ہو

8 ۔ ہر رجسٹر شدہ ووٹر کيلئے ووٹ ڈالنا لازمی ہو سوائے اس کے کہ وہ اتنا بيمار ہو کہ کسی صورت ووٹ نہ ڈال سکتا ہو

9 ۔ تمام ووٹرز کو سرکاری طور پر ٹرانسپورٹ مہياء کی جائے جس کے اخراجات اس حلقہ کے تمام اُميدوار برابر برابر قائم مقام حکومت کو پيشگی ادا کريں

ماضی معلوم ہے ۔ مستقبل کيا ہو گا ۔ کوئی بتائے

جمعرات 27 جنوری 2011ء کو امريکيوں کے ہاتھوں 3 پاکستانيوں کے بر سرِ عام قتل کے سلسلہ ميں ڈاکٹر منير عباسی صاحب نے سوال کيا ہے کہ “کیا تین پاکستانیوں کے قتل عمد میں ملوث امریکیوں کو سزا ہو گی؟”
اس سوال کا جواب دينے کيلئے واردات کی مکمل تفصيل اور ماضی ميں ايسے واقعات پر کی گئی حکومتی کاروائی مدِ نظر ہونا ضروری ہے ۔ ميں اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ دونوں کو بالکل مختصر يکجا کروں

واردات کے اجزاء
1 ۔ ريمنڈ ڈيوس نے پوليس کو بتايا تھا کہ وہ امريکی قونصليٹ ميں ٹيکنيکل ايڈوائزر ہے مگر بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ بزنس آفشل کے ويزہ پر پاکستان آيا ہوا ہے ۔ وہ ڈِپلوميٹ نہيں ہے

2 ۔ جہاں ريمنڈ ڈيوس گھوم رہا تھا اُس علاقہ ميں کسی امريکی کو جانے کی اجازت نہيں ہے

3 ۔ ريمنڈ ڈيوس جو کار چلا رہا تھا اُس پر نمبر پليٹ جعلی تھی

4 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس اسلحہ تھا جس کا اُس نے بيدردی سے استعمال کر کے دو پاکستانی جوانوں کی جان لے لی

5 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر وائرليس سيٹ رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس وائرليس سيٹ تھا جسے استعمال کر کے اُس نے اپنے قونصليٹ سے مدد منگائی

6 ۔ ريمنڈ ڈيوس کا مؤقف ہے کہ اُس نے اپنے دفاع ميں گولی چلائی ۔ ہسپتال ميں موٹر سائيکل چلانے والے فيضان حيدر کے جسم سے 9 گولياں اور پيچھے بيٹھے فہيم کے جسم سے 5 گولياں نکالی گئيں ۔ کيا اپنے دفاع ميں 14 گولياں چلائی جاتی ہيں جبکہ ريمنڈ ڈيوس کو کوئی گولی نہ لگی اور نہ کوئی گولی باہر سے اُس کی کار کو لگی

7 ۔ فيضان حيدر اور فہيم کو ہلاک کرنے کے بعد ريمنڈ ڈيوس کار سے باہر نکلا اور ہلاک ہونے والوں کی تصويريں بناتا رہا ۔ جس پر ڈاکو حملہ کريں کيا وہ ايسا کرتا ہے ؟

8 ۔ ريمنڈ ڈيوس کو پوليس نے گرفتار کر ليا

9 ۔ ريمنڈ ڈيوس کے وائرليس پر پيغام دينے کے نتيجہ ميں امريکی قونصليٹ کی ايک گاڑی پر ڈرائيور کے ساتھ دو آدمی آئے جو سب امريکی تھے

10۔ اس گاڑی کی نمبر پليٹ بھی جعلی تھی

11 ۔ سڑک پر ٹريفک زيادہ ہونے کی وجہ سے قونصليٹ کی گاڑی کو سُست چلنا پڑ رہا تھا ۔ ڈرائيور جانے اور آنے والی سڑکوں کی درميانی پٹڑی کے اوپر سے گاڑی کو جمپ کرا کے آنے والی سڑک پر ٹريفک کے مخالف گاڑی چلانے لگا جس کے نتيجہ ميں ايک موٹر سائيکل سوار عبادالرحمٰن کو ٹکر ماری جو ہلاک ہو گيا

12 ۔ جب اُس نے بھاگنے کی کوشش کی تو لوگوں نے اُسے روکا جس پر ايک آدمی نے اپنی گن کا رُخ اُن کی طرف کر کے اُنہيں دھمکی دی ۔ لوگ پيچھے ہٹ گئے اور وہ بھاگنے ميں کامياب ہو گيا

ہمارا ماضی کيا بتاتا ہے ؟
لاہور کا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے بہت زيادہ سنگين ہے البتہ ماضی کی کچھ مثاليں يہ ہيں جن ميں ہماری حکومت نے کوئی کاروائی نہيں کی تھی

1 ۔ پچھلے سال اسلام آباد ميں دو ڈچ باشندوں کو اپنی گاڑی ميں اسلحہ بشمول ہينڈ گرنيڈز ليجاتے ہوئے پوليس نے پکڑا ۔ امريکی سفارتخانے کے ايک اہکار سنّی کرسٹوفر نے انہيں چھڑانے کی کوشش کی ۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسے جُرم قرار ديا ۔ سيکريٹيريٹ پوليس نے کيس کا انداج بھی کيا مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے دی

2 ۔ جون 2009ء ميں ايک ڈبل کيبن پک اپ پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے جب گولڑہ چوک چيک پوسٹ پر پہنچی تو اُسے رُکنے کا اشارہ ديا گيا مگر وہ نہ رُکی ۔ پوليس نے وائرليس پر اگلی چيک پوسٹ کو اطلاع کر دی چنانچہ جی ۔ 9 کے پاس انہيں روک ليا گيا ۔ اس ميں تين امريکی جيفری ۔ جفڈک اور جيمز بل کوئين ۔ چارلی بنزک نامی ڈرائيور کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ يہ لوگ شلوار قميضيں پہنے تھے ۔ لمبی ڈاڑھياں رکھی تھيں اور پٹھانوں کا حُليہ بنايا ہوا تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 مشين گنز اور 4 پستول 9 ايم ايم کے تھے ۔ ايس پی کی مداخلت سے ان لوگوں کو جانے ديا گيا

3 ۔ اگست 2009ء ميں اسلام آباد پوليس کا انسپکٹر حکيم خان اپنی بيوی کے ساتھ پرائيويٹ کار ميں امريکی سفارتخانے کی قريبی چيک پوسٹ سے گذر رہا تھا ۔ اُسے امريکی سفارتخانے کے سکيورٹی آفيشل جان ارسو نے روکا اور گالياں ديں ۔ جب انسپکٹر حکيم خان نے اُسے کہا کہ وہ شارع عام پر گاڑياں چيک نہيں کر سکتا تو جان ارسو نے پستول نکال ليا اور کہا کہ وہ پاکستان ميں کسی بھی جگہ کوئی بھی چيز چيک کر سکتا ہے ۔ حکيم خان نے اپنے افسرانِ بالا کو اس واقعہ کی باقاعدہ تحريری اطلاع دی ۔ جان ارسو کے خلاف کوئی تاديبی يا قانونی کاروائی نہ کی گئی مگر اسے امريکا واپس بھجوا ديا گيا

4 ۔ اس کے بعد اگست 2009ء ہی ميں ايک پاکستانی جوان جو ڈپلوميٹک اينکليو ميں رہتا تھا دو دوستوں کے ساتھ اپنی کار ميں امريکی سفارتخانے کی چيک پوسٹ سے گزر رہا تھا کہ ايک يو ايس ميرين جو اپنی بيوی کے ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے وہاں سے گذر رہا تھا نے اس کی کار کو روکا اور ٹھُڈا مار کر کار کا سائيڈ کا شيشہ توڑ ديا اور صرف پاکستانی جوان کو ہی نہيں پاکستان کو بھی گالياں ديں ۔ پاکستانی جوانوں کے احتجاج کرنے پر يو ايس ميرين نے سکيورٹی گارڈز کو بلا کر انہيں 40 منٹ زيرِ حراست رکھا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ دوبارہ کبھی اُس سڑک پر گاڑی نہيں چلائيں گے

5 ۔ اگست 2009ء کے ہی آخری دنوں ميں سيکٹر ايف ۔ 6 ميں شيل پٹرول پمپ کے مالک محسن بخاری کو ميريئٹ ہوٹل کے قريب آغا خان روڈ کے ٹريفک سگنل پر 2 امريکيوں نے روک کر اپنی شناخت کرانے کو کہا ۔ پھر اُسے اُس کے پٹرول پمپ پر لے گئے جہاں امريکی سفارتخانے کی سکيوريٹی کی ٹيم بھی پہنچ گئی اور محسن بخاری سے 30 منٹ پوچھ گچھ کی گئی ۔ محسن بخاری سينٹ ميں ليڈر آف دی ہاؤس نيّر بخاری کا بھتيجا ہے

6 ۔ اگست 2009ء کے ہی اواخر ميں امريکی سفارت خانے کی ايک پراڈو اور ايک ڈبل کيبن پک اپ کو کشمير ہائی وے پر پشاور موڑ کے قريب پوليس نے روکا ۔ دونوں گاڑيوں کی رجسٹريشن پليٹيں جعلی تھيں ۔ امريکيوں نے چيکنگ کروانے سے انکار کيا ۔ بعد ميں کچھ افسران آ گئے اور ان سے درخواست کی کہ پوليس کو قانون کے مطابق اپنا کام کرنے ديں ۔ 4 امريکيوں پکل روبن کينتھ ۔ لسٹر ڈگلس مائيکل ۔ کلن ڈينن جيسن رابرٹ اور سٹيل جونيئر نے اپنے آپ کو يو ايس آرمی آفيشلز بتايا ۔ ان کے ساتھ احمد اللہ نامی ايک افغانی بھی تھا جو امريکی سفارتخانہ ميں رہتا تھا اور اُس کے پاس پاسپورٹ يا کوئی ٹريول ڈاکومنٹ نہ تھا ۔ صرف امريکی سفارتخانے کا ايک خط اُس کے پاس تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 رائفليں اور ايميونيشن تھا مگر کسی کے پاس لائسنس يا کوئی اور اٹھارٹی نہ تھی ۔ اُنہوں نے بتايا کہ وہ خيبر پختونخوا کی فرنٹيئر کور کے ساتھ کام کر رہے ہيں مگر اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا

موجودہ صورتِ حال يہ ہے کہ اسلام آباد ميں حکومت پر امريکی دباؤ جاری ہے اور امريکی ان قاتلوں کو بغير کسی کاروائی کے امريکا ليجانا چاہتے ہيں ۔ وزارتِ خارجہ انکار کر چکی ہے مگر وزارتِ خارجہ ماضی ميں بھی قانون کے مطابق انکار کرتی رہی ہے ۔ وزيرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملک کے قانون کے مطابق کاروائی عمل ميں لائی جائے گی

پنجاب حکومت نے امريکی قونصليٹ سے کہا ہے کہ موٹر سائيکل سوار کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرائيور پنجاب حکومت کے حوالے کيا جائے