Yearly Archives: 2011

کیا جموں کشمیر کے لوگ پاکستانی ہیں ؟

میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا

جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں

جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے

پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی

ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی

پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چیونٹی چال

ہر شخص نے ہزاروں چیونٹیاں ادھر اُدھر رينگتی دیکھی ہیں ۔ اللہ نے بچپن سے ہی ہر چیز پر غور کرنے کی عادت مجھے عطا کی ۔ فارغ وقت میں چرندوں ۔ پرندوں اور زمین پر رینگتی چیونٹیوں کو ديکھتا رہتا کہ وہ کیا کرتی ہیں ۔ آج ذکر چيونٹيوں کا

پہلی چیز جو میں نے دیکھی یہ تھی کہ چیونٹی جس راستے سے آتی ہے بالکل اُسی راستے کی لکیر پر چلتی ہوئی واپس جاتی ہے ۔ اگر وہ جاتے ہوئے ایک میز پر چڑھی تھی اور دوسری طرف سے اُتری تھی تو واپسی پر بھی وہ دوسری طرف سے میز پر چڑھے گی اور واپس اس طرف اُتر کر آئے گی جس طرف سے وہ چڑھی تھی ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے یعنی چیونٹی کے دوسری طرف اُتر جانے کے بعد میز ہٹا دی جائے تو چیونٹی پریشانی میں اِدھر اُدھر بھاگ کر اپنا راستہ تلاش کرے گی ۔ میں نے بچپن میں اس کو چیونٹی چال کا نام دیا تھا

سبق

چيونٹی کی حدِ نظر بہت قليل ہوتی ہے اسلئے وہ اپنے راستہ کے نشانات مقرر کر ليتی ہے تاکہ بھٹک نہ جائے
انسان کو بھی اصول بنانا اور اُن پر کاربند رہنا چاہیئے تاکہ آگے بڑھنے کیلئے اُسے خود مشقت اُٹھانا پڑے تو اُٹھا لے لیکن دوسرں کیلئے مشکل کا باعث نہ بنے

میں سب جانتا ہوں

ہمارے مُلک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو کہتے رہتے ہیں “میں سب جانتا ہوں”۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہماری قوم کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جس کے نتیجہ میں لوگ کچھ سیکھتے نہیں یا پھر صحیح طور سیکھ نہیں پاتے ۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا ۔ میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ کی سند حاصل کرنے تک یہ فقرہ نہیں سُنا تھا ۔ 1962ء میں ملازمت شروع کی اور پہلی بار یہ فقرہ میں نے 1964ء میں ایک مستری سے سُنا جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ اُس دور میں اس قسم کے لوگ بہت کم تعداد میں تھے اسلئے کوئی پریشانی نہ ہوئی ۔ 1967ء کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور 1972ء کے بعد تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ فی زمانہ یہ حال ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کا یہی دعوٰی ہے کہ اُنہیں سب کچھ معلوم ہے ۔ حال یہ ہے کہ جس نے عِلم حاصل نہیں کيا یا حاصل کیا تو اسے عملی طور پر استعمال نہیں کیا مگر دعوٰی ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے

اُن دنوں رائفل جی ۔ 3 کا پروجیکٹ شروع تھا ۔ انچارج تھے ورکس منیجر صاحب مگر وہ الیکٹریکل انخنیئر تھے [یہ انگریزوں کا کمال تھا اِن شاء اللہ پھر کبھی بیان کروں گا] اسلئے ساری مغز کھپائی مجھے ہی کرنا پڑتی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے ماتحت فورمین حضرات سمجھدار اور محنتی تھے ۔ متعلقہ فورمین کے مشورے پر میں نے ایک مستری کو جی ۔ 3 پراجیکٹ کا کوئی کام نہیں دیا تھا ۔ اُس نے میرے ورکس منیجر سے شکائت کی تو جواب ملا کہ “بھوپال صاحب سے بات کرو” تو اُس نے میرے جنرل منیجر [جسے اُس دور میں سپرنٹنڈنٹ کہا جاتا تھا] سے کہا کہ اُس کا علم اور تجربہ ضائع ہو رہا ہے ۔ جنرل منیجر صاحب کے کہنے پر میں نے اُس مستری کو بُلایا اور کام سمجھانے لگا تو وہ بولا “صاب ۔ کیا بات کر رہے ہیں مجھے سب پتہ ہے ۔ میرا 25 سال کا تجربہ ہے ۔ بس یہ ڈرائینگ مجھے دے دیں”۔ میں نے اُسے ڈرائینگ دے کر کہا “یہ کام ایک ہفتہ کا ہے لیکن آپ نے ایک ہفتہ بعد مجھے دِکھانا ہے اور پھر دو ہفتہ کے اندر مکمل کرنا ہے”۔

میری چھٹی حِس نے کہا کہ اس کام کا متبادل بندوبست کر لو ۔ کہیں مستری یہ جُوگاڑ [fixture] نہ بنا سکے اور اس کے بعد والا سارا کام رُکنے کی وجہ سے پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہو ۔ میں نے ایک نیم ہُنرمند مزدور [semi skilled worker] جو فارغ تھا کو بھی وہی کام دیا اور کہا “جتنا جتنا میں بتاتا جاؤں اتنا اتنا کرتے جاؤ “۔ ایک ہفتہ بعد اُس نیم ہُنرمند نے کامیابی سے جُوگاڑ بنا لی ۔ میں نے اُسے ایک ترقی کا وعدہ دیا اور اگلے کام پر لگا دیا ۔ پھر میں اُس مستری کے پاس گیا اور کام کا پوچھا تو جواب ملا “صاب ۔ میں نے ڈرائینگ سٹڈی [study] کر لی ہے اور یہ بیس پلیٹ [base plate] بنا لی ہے”۔ میں نے پلیٹ اُٹھا کر دیکھی اور مستری کو چڑانے کیلئے کہا “اس میں تو ٹیپر [taper] ہے”۔ مستری بولا “کتنا”۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا “دو تین تھَو [between 0.002 and 0.003 inch] کا”۔ مستری بولا “کیا کہہ رہے ہیں تھَو آنکھ سے کہاں نظر آتے ہیں ؟” میں نے کہا “نکالو پریسیشن کمپیریٹر [precision comparator] ۔ ناپ لیتے ہیں”۔ کہتے ہیں کہ نیت نیک ہو تو اللہ مدد کرتا ہے ۔ ناپا تو پورے 2 تھَو کا فرق نکلا چوڑائیوں میں ۔ مزيد دو ہفتے تک وہ کام مکمل نہ کر سکا اور ميں نے اُسے واپس بھيج ديا

سو یہ ہے داستان اُس آدمی کی جسے سب کچھ معلوم تھا ۔ اس کے ذہنی انحطاط کا سبب اُس کا غرور اور یہ استدلال تھا کہ وہ سب کچھ جانتا تھا لیکن اللہ نے ایسا کیا کہ اُس دن کے بعد وہ میرے سامنے آنکھ اُونچی نہ کر سکا

اللہ ہمیں اس “میں” سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

کسی کو خبر بھی نہ ہوئی

ہاں جی ۔ قاريات و قارئين ۔ اپ کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ ہم نے 12 فروری کو لاہور ميں رختِ سفر باندھنا شروع کيا اور 14 فروری کو سارا سامان روانہ کرنے کے بعد ہم 15 فروری کو اللہ کے فضل و کرم سے اسلام آباد پہنچ گئے ۔ کل کمپيوٹر وغيرہ کے ڈبے کھولے تھے ۔ آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کہ اپنے ابھی تک زندہ ہونے کی خبر نشر کی جائے

“اتنے دن کيا کرتے رہے ؟”
“جناب ہم آئے تو گيس کی ترسيل بند تھی ۔ پلمبر کو بلايا تو اُس نے سارے گھر کی پائپ لائين کا معائنہ کر کے بتايا کہ ميٹر سے آگے گيس نہيں آ رہی ۔ ہيلپ لائن پر اطلاع کی ۔ ميٹر بدلانے والے آئے تو معلوم ہوا ميٹر کا نمبر کچھ اور ہے اور بل پر ميٹر کا نمبر کچھ اور لکھا ہے ۔ جس پر پہلے اس تفاوت کو درست کروانے کا حکم ملا ۔ فدوی نے دو دن سوئی نادرن گيس پائپ لائنز لمٹڈ کے ہيڈ آفس ميں گذارے ہين اور بغير جنرل منيجر عامر نسيم صاحب کے حکم دينے کے بات آگے نہيں بڑھ رہی تھی ۔ آج ميں جا نہيں سکا ۔ اب پير کو جا کر وہاں سے درست ميٹر نمبر والی بل کی کاپی نکلوا کر لاؤں گا اور پھر ہيلپ لائن والوں سے رابطہ کروں گا”

“تو کھاتے پيتے کيا ہوٹل سے ہيں ؟’
نہيں جناب ۔ اتفاق ميں برکت ہے ۔ اللہ خوش رکھے ميرے بہن بھائيوں کو ۔ ابھی تک چھوٹے بھائی کے گھر کھاتے پيتے ہيں ۔ کل تک سوتے بھی وہيں تھے ۔ ابھی صرف ايک رات اپنے گھر مين سوئے ہيں”

اللہ حافظ
پھر مليں گے اللہ کے حُکم سے

دوغلا پن یا منافقت ؟

آج کی دنیا میں قدریں بدل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب کہا جاتا تھا

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

لیکن مادیّت اور دکھاوے نے آدمی کو اتنا گھیر لیا ہے کہ قدریں مٹ چکی ہیں یا خلط ملط ہو کے رہ گئی ہیں۔ آج قابلیت سے زیادہ سندوں کی قیمت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے ڈنگ فیشن اور اثر و رسوخ کی۔ آدمی دوغلا پن یا منافقت کا شکار ہو چکا ہے۔ دین کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آدمی یہ بھول چکا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی اور وہ کسی کے آگے جواب دہ بھی ہے

کئی سال قبل ایک محلہ دار کے ہاں سے میری بیوی کو دعوت ملی کہ بیٹے کی شادی سے ایک دن پہلے قرآن خوانی کرنا ہے اس لئے آپ بھی آئیں ۔ میری بیوی چلی گئی ۔ میری بیوی واپس منہ پھُلائے گھر آئی تو وجہ پوچھی ۔ کہنے لگی ” قرآن خوانی کے اختتام پر چائے کیک مٹھائی وغیرہ سے تواضع شروع ہوئی اور ساتھ ہی اُونچی آواز میں پاپ موسیقی لگا دی گئی ۔ میں تو ایک دم اُٹھ کے چلی آئی”

ایک محترمہ اپنی عزیز خواتین کے ہمرا ایک کھاتے پیتے تعلیم یافتہ گھرانہ میں اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لینے گئیں اور لڑکی کی ماں سے مخاطب ہوئیں”۔ ہم مذہبی لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ کا کسی نے بتایا کہ آپ نیک لوگ ہیں تو آ گئے”۔ پھر باتوں باتوں میں کہنے لگیں ” آپ کی بیٹی جسم اور سر اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہے ۔ اچھی بات ہے لیکن دیکھیں نا ۔ میرا بیٹا افسر ہے ۔ اس نے دوستوں سے ملنا اور پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے ۔ ہائی سوسائٹی میں تو پھر ان کے مطابق ہی کپڑے پہننا ہوتے ہیں نا ”

ہمارا دورِ حاضر کا معاشرہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا نام لینے والوں کو جاہل اور گنوار کا لقب دیتا ہے ۔ مگر کامیاب وہی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے محبت کرتا ہے اور اُسی سے ڈرتا ہے ۔ میں ان لوگوں کی حمائت نہیں کرتا جو بظاہر تو مذہبی ہوتے ہیں نماز روزہ بھی کر لیتے ہیں مگر باقی معاملات میں اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کے احکام کی پیروی نہیں کرتے

نظر آتے نہیں ۔ بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہءِ رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوّسِ شوکتِ دلدائی کر

فروغِ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزمِ عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئےگل کا سُراغ

علامہ اقبال

تعليم

عصرِ حاضر ميں تعليم کا بہت چرچہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تعليم کا معيار بہت بلند ہو چکا ہے ۔ پرانے زمانہ کے لوگ تو کچھ نہيں جانتے تھے ۔ مگر کبھی کبھی سمندر ميں اچانک مچھلی کے اُبھرنے کی طرح عصرِ حاضر کے پردے کو پھاڑ کر پرانی کوئی ياد نماياں ہو جاتی ہے تو ميں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ تعليم وہ تھی جس ميں سے ہم پانچ چھ دہائياں قبل گذرے يا وہ ہے جہاں ايک ايم اے انگلش کو انگريزی ميں ايک صفحہ غلطی سے پاک لکھنا نہيں آتا ؟

ميں نے پنجاب يونيورسٹی لاہور سے 1953ء ميں دسويں کا امتحان اول آ کر نہيں صرف ايسے پاس کيا تھا کہ مجھے دو سال وظيفہ حکومت کی طرف سے ملتا رہا تھا ۔ ہمارے انگريزی کے پرچہ ميں ايک اُردو کے بند کو بامحاوہ [ideomatic] انگريزی ميں ترجمہ کرنا تھا اور اسی طرح بورڈ کے بارہويں کے امتحان ميں بھی تھا

دسويں کا اُردو ميں بند [paragraph] جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]

دودھ والا دودھ لئے چلا آ رہا ہے ۔ دودھ کم پانی زيادہ ۔ پوچھو تو کہتا ہے “صاحب ۔ قسم کرا ليجئے جو دودھ ميں پانی ڈالا ہو “۔ ٹھيک ہی تو کہتا ہے ۔ وہ دودھ ميں پانی نہيں پانی ميں دودھ ڈالتا ہے ۔ مگر کيا کريں يہ چائے کی جو لت پڑ گئ ہے ۔ اسے بھی تو نبھانا ہوتا ہے ۔ چائے بھی کيا چيز ہے ۔ جاڑے ميں گرمی اور گرمی ميں ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ہميں دودھ ملا پانی دودھ کے بھاؤ خريدنے پر مجبور کرتی ہے

بارہويں جماعت کا اُردو کا بند جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]
“اسم شريف ؟”
“ناچيز تنکا”
“دولتخانہ ؟”
“جناب ۔ نہ دولت نہ خانہ ۔ اصل گھر جنگل ويرانہ تھا مگر حال ہی ميں احمدآباد ميں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئ تو يہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی انگليوں ميں دبا ہے ميرا موجودہ ٹھکانہ ہے”
“مگر آپ کا نام تو ؟”
” جی ہاں لوگ مجھے ديا سلائی کہتے ہيں اور ميں بھی ان کی خوشی ميں خوش ہوں”

ريمنڈ ڈيوس کون ہے ؟

ريمنڈ ڈيوس کے قاتل بننے کے بعد سے امريکی سفارتخانہ اور امريکی حکومت شور مچا رہے ہيں کہ ريمنڈ ڈيوس سفارتکار ہے جبکہ ريمنڈ ڈيوس کے قاتل بننے سے قبل امريکی سفارتخانے کی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو بھيجی گئی دستاويزات ريمنڈ ڈيوس کو سفارتکار ثابت نہيں کرتيں

امریکی سفارت خانے کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس سے متعلق وزارت خارجہ کو فراہم کردہ دستاویز میں واضح طورپر غیرسفارتی شناختی کارڈ کے اجرا کی درخواست کی گئی تھی

20جنوری 2010ء کوامریکی سفارت خانے کی طرف سے وزارت خارجہ کو بھیجی گئی دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی امریکی سفارت خانے میں ذمہ داری انتظامی اور تکنیکی سٹاف کی ہے

ريمنڈ ڈيوس 18 اکتوبر 2009ء کو پاکستان پہنچا اور امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہوا

پاکستان کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس کو سرکاری ملٹی پل ویزا جاری کیا گیا ہے جس کی میعاد 14 جون 2010 ء تا 6 جون 2012ء ہے

دستاویزکے مطابق امریکی سفارت خانے کی طرف سے 25 جنوری 2011ءکو وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی سفارت کاروں کی فہرست میں ریمنڈ ڈیوس کا نام شامل نہیں تھا

فہرست میں امریکی سفارت خانے کے شناختی کارڈ میں ریمنڈ ڈیوس کو ڈی او ڈی ۔ ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کا کنٹریکٹر ظاہر کیا گیا ہے

اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس پشاور میں امریکی قونصلیٹ کے اہلکار کے طور پر کام کرتا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں جاری شدہ کارڈ میں اسے امریکی ڈپارٹمنٹ آف ویٹرن افیئرز [Department of Veteran Affairs] کا اہلکارظاہرکیاگیا تھا

بشکريہ ۔ جنگ اخبار