Yearly Archives: 2011

جموں کشمیر میں میرا بچپن

ہماری رہائش رياست جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی [صوبہ جموں] کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے دو اطراف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اُوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا

نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ گرمیوں میں بھی ہم 10 منٹ سے زیادہ نہر میں رہیں تو دانت بجنے لگتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔اگر پانی برتن میں نکال کر رکھ دیں تو ریت بیٹھنے کے بعد پانی شفاف ہو جاتا تھا

جموں میں بارشیں بہت ہوتیں تھیں اولے بھی پڑتے تھے مگر برف کئی کئی دہائياں نہیں پڑتی تھی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں

گرمیوں کا صدرمقام سرینگر تھا وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی تھی ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے سر سبز اور برف پوش پہاڑوں کی سیر کرتے ۔ سرینگر میں ہم کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں رہتے تھے جس میں 2 سونے کے کمرے مُلحق غُسلخانے اور ایک بڑا سا بيٹھنے اور کھانے کا کمرہ [Drawing cum Dining Room] ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک Cook Boat ہوتی تھی جس میں باورچی خانہ کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے

لوگ چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں وہ ساتھ نہیں لاتے تھے بلکہ مانگنے پر اُسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے

چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں

میرے والد صاحب کا کاروبار یورپ اور مشرق وسطہ میں تھا ۔ ان کا ہیڈکوارٹر طولکرم [فلسطین] میں تھا ۔ والد صاحب سال دو سال بعد ايک دو ماہ کے لئے جموں آتے تھے اور کبھی ہماری والدہ صاحبہ کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ 1946ء میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ اور 5 سالہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ فلسطین لے گئے اور میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس جموں ميں رہے

میں 10 سال کا تھا جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔ میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اواخر ستمبر 1947ء میں اپنے بزرگوں سے الگ ہو گئے اور پھر 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچنے پر ہماری اُن سے ملاقات ہوئی

پاکستان بننے سے پہلے کے 6 ماہ میں جو کچھ میں گلیوں اور بازاروں میں دیکھ چکا تھا اور بڑوں کے منہ سے سُن چکا تھا اور پھر جدائی کے ڈھائی تين ماہ کے دوران جس دور سے ہم گذرے اُس نے مجھے اتنی چھوٹی عمر میں غور و فکر کا عادی بنا دیا تھا ۔ میں ساری عمر اپنے وطن پاکستان کی بنتی اور بگڑتی صورت پر غور و فکر کر کے حقائق کا ہمیشہ متلاشی رہا

11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک غلام احمد کو گورنر جنرل بنایا گیا تو کچھ متفکر بزرگوں نے ایسا تاءثر دیا تھا کہ حقدار تو مولوی اے کے فضل الحق تھے جنہوں نے 23 مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان پیش کی تھی یا سردار عبدالرب نشتر تھے لیکن خاموشی رہی ۔ پھر جب ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی اور آزادانہ درست طریقہ سے منتخب ہونے والی اسمبلی توڑ دی تو مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ وفا کا جنازہ نکل گیا ہے ۔ اس کے بعد وقفہ وقفہ سے وفا کے جسم پر نشتر داغے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ ماحول ایسا بن گیا کے لوگ جفا کو ہی وفا سمجھنے لگے

ایسے ماحول نے مجھے زندگی میں کئی بار سوچنے پر مجبور کیا کہ “کیا میں اس دنیا کی بجائے کسی اور سیّارے کی مخلوق ہوں ؟” اگر میرا خالق و مالک جو رحمٰن و رحیم اور قادر ہونے کے ساتھ کریم بھی ہے میری رہنمائی نہ فرماتا اور میری حفاظت نہ کرتا تو میں کئی دہائیاں قبل ہی کہيں سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہوتا یا کسی کال کوٹھری کی زینت بن جاتا ۔ اس کیلئے میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے

احوالِ قوم ۔ 10 ۔ خوشامد

خوشامد وہ عِلّت ہے جو دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور قوموں کی تباہی کا اصل سبب ہے ۔ خوشامد عصرِ حاضر ميں ہماری قوم کے اعلٰی اور پڑھے لکھے طبقہ ميں گھر کر چکی ہے ۔ نتيجہ سب کے سامنے ہے

خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے ۔ ۔ ۔ ۔

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے سِينے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جل کے دل خاک ہوا آنکھ سے رويا نہ گيا

ملک کے حُکمران بالخصوص پی پی پی اور ايم کيو ايم ڈرامہ ڈرامہ کھيل رہے ہيں اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہيں اور 12 گاڑیاں جلادی گئی ہیں۔ شہر میں گزشتہ شب سے فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اب تک متعدد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔ فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں شہر کے مختلف علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔لیاری،اورنگی ٹاؤن،کھارادر،گلستان جوہر،شانتی نگر اور قریبی علاقوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آئے جبکہ آٓئی آئی چندریگر روڈ ،ایم اے جناح روڈ، اور اس سے متصل شاہراہوں پر رات گئے دیر تک کھلے رہنے والے چائے کے ہوٹل اور دکانیں بھی بند کروادی گئیں ۔ شہر کی کشیدہ صورتحال کے باعث وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق نے آج تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جامعہ کراچی کے رجسٹرار نے اعلان کیا ہے کہ جامعہ کراچی کے تحت آج ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں، انھوں نے کہا کہ نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا

40 سال پرانے ريمنڈ ڈيوس کی گواہی

امریکی شہری رابرٹ اینڈرسن تقریبا ًچالیس سال پہلے لاوٴس میں اپنے ملک کے لیے وہی خدمات انجام دیا کرتے تھے جن کے لیے ریمنڈ ڈیوس اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو پاکستان میں تعینات کیا گیا ہے۔لہٰذا پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور ان کے ساتھیوں کے کھیل کو سمجھنے کے لیے لاوٴس میں اینڈرسن کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں سے آگاہی انتہائی کارگر ثابت ہوسکتی ہے

خوش قسمتی سے رابرٹ اینڈرسن اپنی کہانی خود ہی منظر عام پر لے آئے ہیں ۔ معروف آن لائن امریکی نیوز میگزین کاوٴنٹر پنچ سمیت ان کی یہ تازہ ترین تحریر متعدد ویب سائٹوں پر موجود ہے ۔رابرٹ کی خواہش ہے کہ ان کی حکومت دوسرے ملکوں میں ایسی حرکتیں چھوڑ دے کیونکہ امریکی قوم کو اس کی قیمت اپنی ساکھ اور اعتبار سے محرومی کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے

کئی دہائياں پہلے لاوٴس میں امریکی جاسوس کا کردار ادا کرنے والے اس امریکی شہری کا کہنا ہے کہ ” ریمنڈ ڈیوس ایک امریکی ہے جو پاکستان میں ہمارے سفارت خانے سے باہر سفارت کار کے روپ میں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس واقعے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بیرونی ممالک ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے اور پورے مشرق وسطیٰ میں لوگ بڑے شیطان کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں”

[رابرٹ اینڈرسن کا مکمل مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے]

اس کے بعد رابرٹ اینڈرسن ماضی کے لاوٴس اور آج کے پاکستان میں پائی جانے والی مماثلت یوں واضح کرتے ہیں ” ویت نام کی جنگ میں لاوٴس کا ملک ویسے ہی جیو اسٹرے ٹیجک مقام کا حامل تھاجیسے آج افغانستان کے حوالے سے پاکستان ہے۔ ہمارے ملک نے پاکستان ہی کی طرح لاوٴس میں بھی سی آئی اے کو استعمال کرتے ہوئے ایک خود مختار قوم کے خلاف خفیہ فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا“

اس تمہید کے بعد رابرٹ اینڈرسن اپنی روداد کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”میں امريکی فضائیہ میں ایک ڈیمالیشن ٹیکنیشین تھاجسے سی آئی اے کے ساتھ لاوٴس میں امریکی آپریشنوں کے لیے ازسرنو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ فوجی شناختی کارڈوں اور وردیوں کی جگہ ہمیں وزارت خارجہ کی جانب سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے اور ہم نیلی جینز میں ملبوس ہوگئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم زندہ پکڑے جائیں تو سفارتی استثنیٰ کا مطالبہ کریں۔ ہم نے لاوٴس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام تمام ملکوں میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی مشن انجام دینے کا کام کیا۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ہم مارے یا پکڑے گئے تو شاید ہمیں تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جائے گی اور وطن میں ہمارے گھروالوں سے کہہ دیا جائے گا کہ ہم تھائی لینڈ میں کسی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں اور ہماری لاشیں دستیاب نہیں ہوسکی ہیں“

اس سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن انکشاف کرتے ہیں کہ ”ہماری ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار یا بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے آنے والے ہوں تو ہمیں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپ جانا چاہیے تاکہ ہم سے سوالات نہ کیے جاسکیں“

اس سابق امریکی جاسوس کے بقول عشروں پہلے” امریکی سفارت خانے سے باہر، امریکی فوج اور سفارت کاروں کو استعمال کرتے ہوئے کِیا جانے والا یہ ایک نہایت منظم آپریشن تھا۔ 1968 کی فوجی مہم Tet Offensive کے دوران جب میں وہاں تھا، شروع ہونے والی یہ کارروائی لمبی مدت تک جاری رہی، یہاں تک یہ پوری جنگ ناکامی پر ختم ہوگئی“

اس کہانی کا انتہائی معلومات افزاء حصہ، جس کی روشنی میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور اس کے ساتھیوں کے مشن کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے، وہ ہے جس میں رابرٹ اینڈرسن نے لاوٴس میں اپنی ذاتی سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کے بعض اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں

رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں ” لاوٴس میں جس پروگرام سے میں وابستہ تھا،وہ ان لوگوں کا منظم قتل تھا جو امریکی اہداف و مقاصد سے وفادار نہ
ہونے کے حوالے سے شناخت کیے گئے ہوں۔ اس پروگرام کو Phoenix پروگرام کہا جاتا تھا، اور اس کے تحت انڈو چائنا کے علاقے میں ساٹھ ہزار افراد کو ٹھکانے لگایا گیا“

مگر اس درندگی اور سفاکی کا نتیجہ کیا نکلا؟ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ”ہم نے ملک کے شہری انفرا اسٹرکچر کو حیرت انگیز پیمانے پر تباہی سے دوچار کیا، اس کے باوجود جنگ ہار گئے“

رابرٹ اینڈرسن امریکی سامراج کے انسانیت سوز جرائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتے ہیں : “کرائے کے فوجیوں کی ایک ٹیم کو، جسے میں تربیت دے رہا تھا،اُن مردہ شہریوں کے کانوں کا تھیلا لاکر دکھانے کا حکم دیا گیا جو ان کے ہاتھوں قتل ہوئے ہوں۔ اس طرح وہ ثبوت مہیا کرتے تھے کہ ہمارے لیے انہوں نے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ تاہم بعد میں یہ طریق کار تبدیل کردیا گیا اور کرائے کے قاتلوں سے کہا گیا کہ وہ مرنے والوں کے کان کاٹ کر لانے کے بجائے ․صرف ان کی تصاویر کھینچ کر فراہم کردیا کریں”

یقینی طور پر اسی طریق کار پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو اپنی بندوق سے قتل کرنے کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے بھی اپنے موبائل فون سے ان کی تصویریں بنائی تھیں

اس کہانی کے اگلے حصے میں رابرٹ اینڈرسن بتاتے ہیں کہ لاوٴس اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں ان بہیمانہ کارروائیوں پر مبنی فلم” ایئر امریکا “کے نام سے Mel Gibson نے بنائی تھی۔ اس مووی میں منشیات کے اس کاروبار کا احاطہ بھی کیا گیا ہے جس کا اہتمام امریکی سی آئی اے ان آپریشنوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کرتی تھی کیونکہ ،رابرٹ اینڈرسن کے بقول کانگریس نے ان کاموں کے لیے جو ہم کررہے تھے، فنڈز کے منظوری نہیں دی تھی۔ رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ میں نے ڈرگ آپریشن بھی براہ راست دیکھے ہیں اور ان کی ساری تفصیل الفرڈ مک کائے کی کتاب”دی پالی ٹیکس آف ہیروئین ان ساوٴتھ ایشیا“ میں موجود ہے۔“ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات کو اس وقت تک ایک دوسرے سے مربوط نہیں کرتے تھے جب تک ایران کونٹرا کیس میں اولیور نارتھ اس سلسلے میں جوابدہی کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہوا کیونکہ وہ لاوٴس آپریشن کا ایک لیڈر تھا اور رابرٹ کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی

سابق امریکی جاسوسرابرٹ اینڈرسن معترف ہے کہ اس کا ملک دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے اس قسم کی مجرمانہ اور انسانیت دشمن کارروائیوں میں ملوث چلا آرہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس طرح ہم جرمن نازیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم ان جرائم کو سرد جنگ کے دوران جائز قرار دیتے رہے۔ اس نوعیت کی پہلی کارروائی 1953ء میں صدر روزویلٹ کے دور میں تیل کے کنووں پر تسلط کے لیے ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر کی گئی

سی آئی اے کی ایسی دیگر خفیہ مجرمانہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جنہیں امریکی شہریوں سے بھی چھپایا جاتا رہا، رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ماضی میں اس طریقے کے بجائے جس میں نہ اپنے لوگوں پر اعتماد کیا جاتا ہے نہ دوسرے ملکوں کے لوگوں پر ، اس کے بجائے انہیں بے دریغ قتل کیا جاتا ہے، اپنے مسائل کے حل کے لیے مختلف طریق کار اپنایا ہوتا تو ہمارا ملک ان مشکلات سے دوچار نہ ہوتا جو آج پوری دنیا میں اسے درپیش ہیں

کہانی کے آخری حصے میں اس انسانیت سوز کھیل میں اپنی شرکت کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ ویت نام کی جنگ کے ان دنوں میں، وہ نوعمر اور بیوقوف تھے اور ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلندڑے لڑکے کی حیثیت سے اس خفیہ مشن سے وابستگی ان کے لیے بڑی چیز تھی۔ مگر اب وہ پہلے سے بہت زیادہ ہوش مند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کرتوتوں کے نتائج بہت دور رس اور تباہ کن ہوتے ہیں اور انہیں فوری طور پر بند ہوجانا چاہیے

لیکن ان کے بقول، پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت دنیا کے لوگوں کو جھٹلانے کے اپنے پرانے طریقے پر آج بھی کاربند ہے جبکہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ رابرٹ پوچھتے ہیں ”یہ منافقانہ حماقت کب ختم ہوگی؟ ہمارے سیاستدان اس بارے میں کب زبان کھولیں گے ؟ وہ جھوٹی باتوں اور چالوں کا ساتھ دینا کب چھوڑیں گے؟ مزید کتنے ہمارے اور دوسرے لوگ ان احمقانہ منصوبوں کی بھینٹ چڑھیں گے؟“

اس کے بعد وہ امریکا کی موجودہ پوزیشن کو مشرق وسطیٰ اور ڈیوس کے معاملے کے تناظر میں واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ریمنڈ ڈیوس اب برے حال میں ہے کیونکہ دنیا کے بیشتر لوگ ، جیسا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں، اب ہمارے جھوٹ سے واقف ہیں اور ہم پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں․․․ افسوس کہ اس سب کے باوجود صدر اوباما اب بھی جھوٹ کو دہرارہے ہیں“

ماضی کے ریمنڈ ڈیوس کا یہ اعترافِ حقیقت بہت بروقت اور لائق تحسین ہے ۔ یہ ایسی گواہی ہے جو ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے امریکی حکام کے لیے روسیاہی کا سبب اور پاکستان کے قومی موقف کے درست ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ممتا

امريکا کے ايک جنگل ميں آگ لگ گئی ۔ کئی دن بعد آگ بجھا لی گئی تو فاريسٹ رينجر نقصان کا اندازہ لگانے کيلئے گئے ۔ ايک جگہ فارسٹ گارڈ نے ديکھا کہ ايک پرندہ زمين پر پر پھيلائے جل کر کوئلہ ہو چکا ہے ۔ بے خيالی ميں اُس نے اپنی چھڑی سے جلے ہوئے پرندے کو ٹھوکر ماری ۔ وہ ايک دم حيران رہ گيا جب اُس کے نيچے سے پرندے کے ننھے چوزے بھاگتے ہوئے نکلے

رينجر تڑپ کر رہ گيا کہ ماں جل گئی مگر اپنے بچوں کو آخر وقت تک تحفظ ديا ۔ وہ پرندہ اُڑ کر اپنی جان بچا سکتا تھا مگر اُس نے اپنے بچوں کا جلنا گوارہ نہ کيا ۔ کمال يہ ہے کہ ماں آگ سے جلتی رہی مگر سب تکليف برداشت کرتے ہوئے ذرا سی جُنبش نہ کی کہ مبادا اس کے بچوں تک آگ پہنچ جائے

ماواں ٹھنڈيا چھاواں

شہباز بھٹی کا قاتل کون ہے ؟ امريکا يا طالبان ؟

جذبات اور جنون نہیں، جنابِ والا، حکمت و دانش اور تحمل و تدبّر ۔ میر صاحب نے کہا تھا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کی مخالفت ، مذمت اور مزاحمت بجامگر یہ کیسے طے ہوا کہ شہباز بھٹی کے قاتل لازماً وہی ہیں؟

قابلِ اعتماد ذرائع یہ کہتے ہیں کہ پنجابی طالبان کے نام سے پمفلٹ واردات کے بعد گرائے گئے، اسی وقت نہیں ۔ ان پر کلمہ طیبہ اور اللہ کے آخری رسول کا اسم گرامی لکھا ہے۔ طالبان ایسا کیوں کرتے؟ گھنی آبادی والا یہ ایسا علاقہ ہے ، جہاں سے طالبان کے لیے بھاگ نکلنا آسان نہ ہوتا کہ چاروں طرف ناکے ہیں۔ پھر ان کا انداز یہ کبھی نہیں رہا۔ وہ ڈرائیور کو بچا لینے کے لیے کیوں فکر مند ہوتے

شہباز بھٹی کے قتل کا ماتم ہی کیا جانا چاہئے ۔ اس میں دو آراء نہیں لیکن مغربی ممالک اور ان کا پریس اس سانحہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اس قدر بے تاب کیوں ہے؟

اس وقت تو موضوع ریمنڈ ڈیوس ہے اور وہ عوامل ، جس نے اس قماش کی مخلوق کے لیے پاکستان کو چراگاہ بنا ڈالا ہے۔ امریکی قاتل کے قضیے میں اگر کوئی گہرا تاریک راز پوشیدہ نہیں تو صدر اوباما تک کو جھوٹ کیوں بولنا پڑا کہ وہ ایک سفارت کار ہے ؟ امریکی قونصل خانے کے کار تلے کچل کر ہلاک کرنے والوں کو تفتیش سے بچانے کا ایسا فولادی عزم کیوں تھا؟ ریمنڈ ڈیوس کا اصل نام تک کیوں چھپایا گیا؟ کیا اس لیے کہ وہ بے نقاب ہوا تو خطرناک بھید کھل جائیں گے

1979ء سے 1989ء تک دس سالہ افغان جنگ میں ، جو تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ (Covert) جنگ تھی، سی آئی اے کے پچاس سے زیادہ اہلکار اس سر زمین پر کبھی نہ تھے، اب سینکڑوں کی ضرورت کیوں ہے؟ براہمداغ بگٹی کیا امریکی اجازت کے بغیر ہی افغانستان میں پناہ گزین رہا؟ امریکی اخبارات کو اور تو سبھی کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن پاک افغان سرحد کے ساتھ پھیلے بھارتی قونصل خانوں کی قطار کیوں نہیں؟ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے انکل سام کو پاکستانی تعاون کی کسی بھی چیز سے زیادہ ضرورت ہے پھر افغان سر زمین پر بھارت کی نازبرداری ؟

پھر ٹھیک انہی ایام میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے سے دھڑا دھڑ ویزے کیوں جاری ہوتے رہے۔ ہمیشہ چوکس اور مستعد رہنے والے حسین حقانی کی نگراں آنکھوں تلے ، جو پاکستان کے نہیں ، صدر زرداری کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔

امریکی شہریوں کے نام کیسا دلچسپ پیغام جاری ہوا ہے: پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر وہ پاکستان نہ آئیں۔ کیا کبھی کوئی سفری دستاویزات کے بغیر دوسرے ملک میں داخل ہوا کرتا ہے ؟ اگر اس سے پہلے امریکی شہری ویزے کے بغیر نہیں آئے تو اب اس اعلان کی ضرورت کیا تھی

يہ چند اقتباسات ہيں ۔ پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

میں خود کُش حملہ آور ہوں

“اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گیا تھا جب اس شخص نے اپنی منزل پر اُترنے سے پہلے مجھے کہا “میں خودکُش حملہ آور ہوں”۔ آصف نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ “اکتوبر 2005ء کی ایک ڈھلتی شام تھی اور میں تنہا اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا مری روڈ کی طرف آ رہا تھا ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب کھڑے ایک چالیس پنتالیس سالہ شخص نے مجھے روکا اور کہنے لگا کہ مجھے پیر ودھائی موڑ جانا ہے ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد ہماری منزل پیر ودھائی موڑ تھی ۔ میں سٹیڈیم روڈ سے ہوتا ہوا پیر ودھائی موڑ کی طرف جا رہا تھا ۔ میرا ہم سفر ایک خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کا شخص لگ رہا تھا ۔ میں ہمیشہ ڈرائیونگ کے دوران ہم سفر سے بات چیت کرتا ہوں ۔ اس طرح سفر کا پتہ نہیں چلتا ۔ دوسرا یہ کہ مسافر کی باتوں سے کچھ نا کچھ سیکھ لیتا ہوں ۔ یہ شخص ہاتھ میں تسبیح کا ورد کر رہا تھا ۔ اسی مناسبت سے میں نے اس سے کہا کہ کوئی دین کی بات بتائیں ۔ وہ شخص ‘صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی برتری کو ماننا ‘ کہہ کر چُپ کر گیا ۔

“پھر کچھ دیر بعد کہنے لگا ‘ہماری مائیں ۔ بہنیں اور بیٹیاں سر پر اسلحہ رکھ کر رات کی تاریکی میں انتہائی دُشوار گذار راستوں پر چل کر جنگ کے محاذ پر پہنچائیں ۔ ہم خود سوکھی اور باسی روٹیاں کھاتے ۔ اگلے محاذ پر جہاد سے واپسی پر کبھی کبھی ہم اُبلا ہوا خُشک گوشت جو کہ پتھروں میں امانتاً رکھتے تھے کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم افغانوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا ۔ امریکا کے دیئے ہوئے اسلحہ سے ہم نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس جنگ کے بعد دنیا نے ہمیں نظرانداز کیا اور ہمیں دہشتگرد قرار دیا گیا ۔ ایک ایسی لڑائی جس میں لاکھوں افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنا پڑی اور ان لاکھوں انسانوں پر جن میں مرد ۔ عورتیں ۔ بچے اور بوڑھے شامل تھے مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ گرا ۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے ۔ پورا مُلک تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیا آج ان ممالک کے ضمیر مُردہ ہو چکے ہیں جن کی افواج ہمارے مُلک افغانستان میں آگ اور خُون کا کھیل کھیل رہی ہیں ؟ یہ ہم پر جتنی مرضی بمباری کر لیں ہم اتنی ہی شدت سے انتہاء پسند ہوں گے ۔ یہ ہمارے مُلک میں ہیں لیکن ہماری سوچ پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ آج دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہونے کے باوجود بھی یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم انہیں خُودکُش حملوں کے ذریعے ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے اور دُنیا کو اس بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا کہ کسی انسان یا مُلک کو ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ یہاں پاکستان میں میری والدہ ہے جو بیمار تھی اور میں اُس کی تیمارداری کیلئے آیا تھا ۔ اب میں واپس افغانستان جا رہا ہوں ۔ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ ہم افغان فاتح ہوں گے ۔ میں اپنا نام رجسٹر کروا چکا ہوں ۔ میں خُودکُش حملہ آور ہوں’ ”

ٹیکسی ڈرائیور آصف حسین شاہ کی آپ بیتی پر مُشتمل کتاب “فار ہائر” سے اقتباس