Yearly Archives: 2011

کامیاب شادی کے پہلے 7 اصول

1 ۔ يقين
شادی کا سب سے اہم عنصر خاوند اور بيوی کا اعتقاد ہے جس کی ہم آہنگی شادی کے بندھن کو مضبوط بناتی ہے ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا خاوند اور بيوی کو ايک دوسرے کا احترام اور محبت کرنے پر اُکساتی ہے

2 ۔ درگذر
کسی کی طرف سے کی گئی زيادتی پر چشم پوشی عام طور پر زيادتی کرنے والے کو دوست بنا ديتی ہے ۔ خاوند اور بيوی اگر ايک دوسرے کی لغزش پر درگذر کا رويہ اختيار کريں تو اُن کی محبت ميں اضافہ ہوتا ہے

3 ۔ بھُلانا
اگر خاوند اپنی بيوی کو يا بيوی خاوند کو اُس کی غلطياں ياد کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ غلطی پر درگذر نہيں کيا گيا ۔ گذری باتوں کو ماضی کے ساتھ ہی دفن کر دينا چاہيئے کيونکہ ان کا دہرانا نئے زخم لگاتا ہے جو مندمل ہونے ميں اصل وقت سے زيادہ مدت ليتے ہيں

4 ۔ صبر و تحمل
صبر و تحمل ايک ايسی خوبی ہے جو انسان کو اعلٰی مرتبہ پر پہنچاتی ہے ۔ بہت سے مسائل اور جھگڑے بے صبری اور چلبلے پن سے پيدا ہوتے ہيں ۔ اسلئے انسان کو صبر اور تحمل سے کام لينا چاہيئے ۔ بہت سی بری لگنے والی باتوں پر صبر اور تحمل کے ساتھ غور کيا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنی بری نہ تھيں جتنا محسوس ہوئی تھيں

5 ۔ رواداری
بہت سے جوڑوں ميں چپکلش کا سبب اُن کا جمود ہوتا ہے يعنی وہ اپنے آپ ميں يا اپنی عادت ميں تبديلی نہيں لا سکتے يا لانا نہيں چاہتے ۔ حقيقت يہ کہ شادی سے پہلے جس زندگی کے خواب ديکھے ہوتے ہيں يا جو کچھ کہانيوں ميں پڑھا ہوتا ہے شادی کے بعد وہ زندگی نہيں ہوتی ۔ شادی کے بعد محبت صرف خوبصورتی اور تعريفوں کا نام نہيں رہ جاتا بلکہ ايک دوسرے کيلئے وقت کے مطابق ہمدردی اور ايثار بن جاتا ہے ۔ رواداری اس بندھن کو قائم رکھنے کيلئے انتہائی ضروری ہے

6 ۔ دوستی
اصل دوستی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ آپس ميں دوستی کو قائم کرنا ۔ ہر آدمی اپنے دوست کی عزت کرتا ہے ۔ اس پر اعتماد کرتا ہے ۔ اس پر بھروسہ رکھتا ہے ۔ اس کا خيال رکھتا ہے باوجوديکہ دوستوں ميں باہمی اختلافات بھی ہوتے ہيں ۔ خاوند اور بيوی ميں دوستی کا رشتہ ہموار ہو جائے تو پھر اُن پر بيرونی عوامل اثر انداز نہيں ہو پائيں گے

7 ۔ دوستانہ نقطہ نظر
دوستانہ نقطہ نظر رکھنے کا مطلب ہے کہ دونوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے سب لوگوں کے ساتھ دوستانہ رويہ رکھا جائے ۔ اس ميں خاوند کيلئے بيوی کے اور بيوی کيلئے خاوند کے والدين اور بہن بھائی اول حيثيت رکھتے ہيں ۔ يہ حقيقت بھولنا نہيں چاہيئے کہ شادی دو افراد کا نہيں دو خاندانوں کو بندھن ہوتا ہے ۔ يہ تعلقات ۔ احترام و محبت ايک دن ميں تو جنم نہيں ليتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پيدا ہونے چاہئيں

احوالِ قوم ۔ ماضی اور حال

سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھيئے قیس و فرہاد ہے یاں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

مجھے سمجھائے کوئی

اس دنيا ميں ميرے جيسا کم عِلم ہونا بھی ايک مُشکل کام ہے ۔ جب محفلِ اجارا داراں جو اپنے آپ کو يو اين سيکيوريٹی کونسل کہتی ہے نے قراداد منظور کی کہ لبيا کو “نَو فلائی زَون” قرار دے ديا گيا ہے تو ميں سمجھا کہ اب ليبيا کی فضا ميں کوئی جہاز نہيں اُڑے گا

مگر عملی طور پر اس کا مطلب يہ نکلا کہ امريکا اور اس کے ساتھی دہشتگردوں کے جہاز لبيا کی فضا ميں نہ صرف پرواز کريں گے بلکہ بے شمار مزائل اور بم بھی لبيا کے مختلف علاقوں ميں گرائيں گے ۔ اس دہشتگردی کے نتيجہ ميں جتنے انسان ہلاک ہوں گے اُنہيں ظالم کہا جائے گا ۔ مزيد يہ کہ تباہی اتنی مچائی جائے گی کہ لبيا کا اپنا کوئی ہوائی جہاز برسوں نہ اُڑ سکے

چنانچہ “نَو فلائی زون” کا مطلب يہ نکلا کہ لبيا کا يہ حال کر ديا جائے کہ لبيا کا کوئی جہاز اگلے کئی سالوں تک نہ اُڑ پائے اور پھر کوئی اور الزام لگا کر لبيا کے تيل کے ذخائر پر قبضہ کر ليا جائے جيسے “ڈبليو ايم ڈی [Weapons of Mass Destruction]” کا الزام لگا کر عراق پر قبضہ کيا تھا اور اوسامہ بن لادن [جو شايد عرصہ قبل طبعی موت مر چکا] کا بہانہ بنا کر افغانستان پر قبضہ کيا تھا جو قبضے آج تک جاری ہيں اور ختم ہونے کی کوئی اُميد نہيں ہے

جمہوريت اور انسانی حقوق ؟؟؟؟؟

لیبیا پرمغربی ممالک کے فضائی اور میزائل حملوں سے 48 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے ۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایڈمرل ولیم گورٹنے نے کہا ہے کہ ہفتے کو امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور آبدوزوں سے 110 سے زائد ٹاما ہاک کروز میزائل فائر کئے گئے اور لیبیا میں20 سے زائد دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا یا گیا اور فضائی دفاعی نظام ناکارہ بنادیا گیا

ایڈمرل ولیم گورٹنے کا کہنا تھا کہ میزائل حملہ کثیرالجہتی”آپریشن اوڈیسی ڈان “کا پہلا مرحلہ ہے۔ پپینٹاگون کے مطابق کارروائی میں امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور اٹلی حصہ لے رہے ہیں ۔ اتحادی افواج نے طرابلس کے علاوہ زوارہ، مصراتہ، سِرت اور بن غازی پر بھی حملے کئے

لبيا کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حملوں میں ایک اسپتال اورمصراتہ شہر کے قریب فوجی کالج کو بھی نشانہ بنایا گیا

لیبیا نے طرابلس میں ایک فرانسیسی طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے تاہم فرانس کا کہنا ہے کہ تمام طیارے بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آگئے ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ لیبیا میں امریکی زمینی فوج نہیں بھیجی جارہی

افریقی یونین نے لیبیا کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے حملے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے کہا ہے کہ مغربی طاقتیں لیبیا میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں

پيغام يا سوال ؟؟؟

ويلنٹائن ڈے سے کچھ روز قبل مجھے موبائل فون پر ايک پيغام ملا تھا ۔ يہ پيغام ہے يا ہمارے ماتھے پر ايک سواليہ نشان ؟

کچھ جوان بيٹھے خوش گپياں کر رہے تھے کہ ويلنٹائن ڈے کا ذکر شروع ہوا تو اس کی تياريوں کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔ اچانک ان ميں سے ايک جوان بولا “اوئے ۔ ايک عيسائی نے عيدالفطر بڑے جوش سے منائی”

سب اُس کی طرف ہکا بکا ہو کر ديکھنے لگے مگر وہ بولتا گيا
“سُنا تم نے کہ ايک ہندو نے عيدالاضحٰے پر بکرے کی قربانی دی اور ايک يہودی نے رمضان کے روزے رکھے”

ويلنٹائن کی منصوبہ بندی کرنے والا جوان بولا “کيا ہانک رہے ہو ۔ ايسا ہو ہی نہيں سکتا”

پہلے والا جوان بولا “تو يہ سب کيا ہے ؟ مسلمانوں نے نيو ايئر منايا ۔ بسنت منائی ۔ ايف ايم 90 نے راکھی کی تقريب منعقد کی ۔ تم لوگ ويلنٹائن منانے کی تياری ميں ہو”

اقوامِ متحدہ يا مسلم دُشمن متحدہ ؟

اقوامِ متحدہ جس پر مُسلم دُشمن قوتوں کی اجاراہ داری ہے نے آج تک جو فيصلہ بھی کيا وہ ان اجارہ داروں کی مرضی کے مطابق کيا جو انتہائی خود غرض اور متعصب ہيں

نيچے درج تازہ فيصلہ پڑھنے سے پہلے تصور ميں جموں کشمير کے باشندوں کا جمہوری حق [جد و جہد آزادی] اور بھارتی افواج کے عوام پر کئی دہائيوں پر محيط ظُلم و استبداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کی مُسلم دُشمنی کھُل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ بالخصوص جب جموں کشمير ميں عوام کو اُن کا حق دينے کی قراداديں اسی نام نہاد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھيں جو 63 سال سے عمل کيلئے چيخ رہی ہيں

نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے لیبیا پر فضائی حملے کی منظوری دی ۔ لیبیا کو نو فلائی زون قراردینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ ووٹنگ میں 10 اراکين نے حصہ لیا جب کہ روس اور چین سمیت 5 ارکين نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ سلامتی کونسل کے کسی رکن نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے شہریوں کی حفاظت کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت مخالف قوتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا

لیبیا نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ملکی وحدت اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیدیااور کہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں

امن کی آشا اور بھارت

پاکستانی لوگ معدودے چند بھارتی صحافيوں کو ساتھ ملا کر جتنا چاہے “امن کی آشا” کا پرچار کر ليں جب تک بھارتی حکومت يا بھارتيوں کی اکثريت ظُلم کی دو دھاری تلوار ميان ميں نہيں ڈالے گی “امن” بھارت اور پاکستان ميں انجان کا خواب ہی رہے گا

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سولہواں اجلاس [28 فروری سے 25 مارچ 2011ء] جنیوا ميں جاری ہے جس ميں ساری دنيا سے انسانی حقوق کے کئی نمائندے شريک ہيں ۔ کانفرنس کے ايک اجلاس ميں ایک افریقی انسانی حقوق کارکن مچیلن ڈجوما نے ايک 17 سالہ کشمیری لڑکی انیسہ نبی کو پيش کيا کہ وہ جموں کشمير ميں اپنے پر بيتی روداد سنائے

انیسہ نبی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے اپنے والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روداد سنائی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں موجود سفارتکار اور کارکن اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ انیسہ نبی نے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی ۔ اس موقع پر ایک کشمیری این جی او ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز(کے ایچ اے) کے نمائندے بھی پیلس آف نیشنز، جنیوا میں سفارتکاروں میں لابنگ کررہے تھے ۔کے ایچ اے کے پروگرام ڈائرکٹر الطاف حسین وانی نے کہا کہ انیسہ ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ ہے لیکن آج اس نے ہم سب کو رونے پر مجبور کردیا

اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی تصویروں کی ایک نمائش بھی ہوئی جس نے انیسہ کے کیس کو مزید موثر اور مضبوط کردیا

انیسہ نبی نے اپنی تقریر نارمل انداز میں شروع کی لیکن جب اس نے اپنے والد کا تذکرہ کیا تو اس کی آواز گھٹنے لگی۔ اس کے والد کو 24 جولائی 1996ء کو بھارتی اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس وقت انیسہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کی والدہ نے انیسہ کے والد کی تلاش کے لئے مہم چلائی اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ انیسہ کی والدہ کو بدترین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں

انیسہ کی و الدہ کو اس کی سزا یہ ملی کہ 2003ء میں بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں چلائیں اور انہیں شہید کردیا ۔ اس وقت انیسہ کی والدہ انیسہ کے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے ان کی گود میں اس بچے کی پروا بھی نہیں کی اور وہ شدید زخمی ہوا ۔ اگرچہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن گولیوں سے اس کی ایک ٹانگ معذ ور ہوگئی

جب انیسہ نبی تقریر کے دوران اس واقعہ کے تذکرے پر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انیسہ نے جب اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سائڈ لائن سمیناروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا

انیسہ نبی کی کہانی سن کر ایک بھارتی سفارتکار جو وہاں موجود تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ ایک بھارتی اسکالر ڈاکٹر کرشنا اہوجا نے جو ایک کشمیری ہندو ہیں انیسہ کو اپنی بیٹی کی طرح آغوش میں لے کر تھپکا ۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر افسر نے انیسہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کے ہر فورم میں آواز اٹھائیں گے