Yearly Archives: 2011

چَوندے چَوندے شعر

نقل کرنا چاہتا تھا حبیب جالب کے اشعار جو کل ورق گردانی کرتے ہوئے حسب حال محسوس ہوئے تھے مگر حالات نے دماغ نچوڑ ديا اور جو عرق نکلا اُس کے پسِ منظر ميں يہ موسيقی تھی

وہ ہم سے رُوٹھ گئی ہے
ہے کوئی جو منا کے لائے
وہ چھوڑ کر ہميں چلی گئی ہے
ہے کوئی جو اُسے واپس لائے
وہ ہم سے کيوں ہوتی ہے ناراض
ہم نے کبھی نہ کيا اُس پہ اعتراض

معمول اُس کا يہی ہے کئی سال سے کہ دن ميں چار پانچ بار روٹھ کے چلی جاتی ہے اور گھنٹے ڈيڑھ گھنٹے تک واپس آ جاتی ہے مگر کل سے نجانے اُس نے کس بات کا بُرا منايا کہ بار بار رُوٹھتی رہی مگر آج صبح کی ايسی گئی واپس آنے کا نام ہی نہ لے رہے تھی ۔ کئی بار اُس کے ميکے والوں کو ٹيليفون کيا ۔ مِنت سماجت کی پھر کہيں 12 بجے آئی ہے ۔ اللہ کرے اب نہ روٹھے ۔ کيا سمجھے خواتين و حضرات ؟

حبیب جالب کا کلام

کوئی دم کی رات ہے یہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کوئی پل کی بات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ رہیں گی قتل گاہیں
میں زمین کا آدمی ہوں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کام ہے زمیں سے
یہ فلک پہ رہنے والے [حکمران] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے چاہیں یا نہ چاہیں
نہ مذاق اڑا سکیں گے يہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری مفلسی کا جالب
یہ [زرداری کے] بلند و بام ایواں ۔ یہ [دنياوی پيروں کی] عظیم بار گاہیں

سمجھ سے باہر

اپنے معاشرے ميں جہاں اچھی روايات اور عادات پائی جاتی ہيں وہاں ميرے ہموطنوں کی بھاری تعداد ميں خواہ وہ کتنا ہی پڑے لکھے ہوں چند ايسی عادات پائی جاتی ہيں جو ميری سمجھ ميں آج تک نہ آسکيں

1 ۔ حقيقت کی نسبت افواہيں سننا زيادہ پسند کرتے ہيں ۔ اخباری اور ٹی وی بالخصوص بی بی سی اور اسی طرح کے فرنگی ذرائع ابلاغ پر بلا چُوں و چرا اعتبار کر ليتے ہيں مگر زمينی حقائق کو بغير غور و مطالعہ کے رَد يا نامنظور کر ديتے ہيں ۔ اگر کوئی اُن کی توجہ حقائق کی طرف دلانے کی کوشش کرے تو اُس کا تمسخر اُڑاتے ہيں ۔ بہت رعائت کريں تو کہہ ديں گے “کس دنيا ميں رہتے ہو ؟”

2 ۔ کوئی بات گھڑ کر دوسرے کو سنائيں گے ۔ سُننے والا شخص بغير غور اور تشخيص کے کسی دوسرے کو وہ من گھڑت خبر يا کہانی سنائے گا ۔ کچھ دن بعد ہر سننے اور سنانے والا اس من گھڑت خبر کو حقيقت ماننا شروع کر ديتا ہے

3 ۔ جو چيز ۔ جگہ يا ادارہ ايک شخص نے اندر تو کيا باہر سے بھی نہ ديکھا ہو گا اُس کے متعلق وہ غيرمصدقہ باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کرے گا

يہ بھولی بسری باتيں مجھے اسلئے ياد آئيں کہ کچھ ماہ قبل ايک بلاگ پر کچھ ايسے دلائل باوثوق طريقہ سے بی بی سی کے حوالے سے کچھ دلائلديئے گئے تھے جو زمينی حقائق سے ميل نہيں کھاتے تھے ۔ جس ادارے کا وہ ذکر کر رہے تھے ميں نے اپنی زندگی کا بہترين حصہ اُسی ادارے کی ملازمت ميں گذارا تھا

شايد جون يا جولائی 1965ء کی بات ہے کہ ميں کراچی ميں ورک سٹڈی ٹيکنيکس کورس کر رہا تھا ۔ ايک شام ميں اپنے ايک بزرگ جو 1947ء ميں حيدر آباد دکن سے ہجرت کر کے آئے تو کراچی ميں رہائش پذير ہو گئے تھے اُنہيں ملنے گيا ۔ اُن کے ساتھ اُن کے کوئی دوست بيٹھے تھے ۔ بزرگ نے ميرا تعارف اُن سے کراتے ہوئے کہا “يہ انجنيئر ہے اور پاکستان آرڈننس فيکڑيز ميں ملازم ہے”۔ موصوف طنزيہ بولے “وہ فيکٹری جو آج تک لِپ سٹک پاؤڈر کے علاوہ کچھ نہيں بنا سکی”
وہ بزرگ تھے اور ميری اُن سے جان پہچان بھی نہ تھی دوسرے ميں بداخلاق نہيں ہوں اسلئے خاموش رہا

بات ہے شروع 1970ء کی دہائی کی ۔ ميں واہ سے کسی ذاتی کام کے سلسلہ ميں راولپنڈی گيا اور واپس ويگن پر آ رہا تھا ۔ ميرے آگے والی نشست پر ايک صاحب بڑے وثوق کے ساتھ پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ويپنز فيکٹری کے متعلق باتيں کر رہے تھے ۔ ميں غور سے سُنتا رہا ۔ وہ صاحب کچھ خود ساختہ خامياں بتا رہے تھے اور کچھ ايسی چيزوں کا وہاں بننے کا ذکر کر رہے تھے جو وہاں کبھی نہيں بنيں تھيں ۔ جب من گھڑتی کی انتہاء ہو گئی تو ميں نے پوچھا “معاف کيجئے گا ۔ آپ ويپنز فيکٹری ميں کام کرتے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کبھی ويپنز فيکٹری کے اندر گئے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کو کوئی دوست يا رشتہ دار فيکٹری ميں کام کرتا ہے ؟”
جواب ملا “نہيں”
اس پر ميں نے کہا “ويپنز فيکٹری جس کا آپ ذکر کر رہے تھے ميں اس کا پروڈکشن منيجر ہوں”
اس کے بعد وہ صاحب چُپ بيٹے رہے
ويسے وہ زمانہ پھر بھی اچھا تھا ۔ آجکل تو لوگ اپنی غلط بات درست ثابت کرنے کيلئے جان لڑا ديتے ہيں

يہ بات 1990ء يا 1991ء کی ہے کہ ميں ايک دوست سے ملنے گيا جو ايم ايس سی انجنيئرنگ ہيں اور انجنيئرنگ کالج لاہور ميں ميرے ہمجماعت تھے ۔ اُن کے پاس ايک جوان بيٹھا تھا ۔ ميرے ساتھ عليک سليک کے بعد ميرے دوست نے اُس جوان سے کہا “تمہاری قسمت اچھی ہے ۔ اجمل صاحب آ گئے ہيں تم ان سے سيکھ سکتے ہو”
اُس جوان نے مايوس سی شکل بناتے ہوئے کہا “يہ نئی ٹيکنالوجی ہے ۔ بڑی عمر کے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے” اور اُٹھ کر چلا گيا
اُس کے چلے جانے کے بعد ميں نے اپنے دوست کو سواليہ نظروں سے ديکھا تو وہ بولے “ہمارے ہمسائے کا بيٹا ہے ۔ بدقسمت ہے ۔ آج کے جوان اپنے آپ کو بہت ذہين اور عِلم والا سمجھتے ہيں ۔ کمپيوٹر کے بارے ميں بات ہو رہی تھی اور کہہ رہا تھا کہ ميں سيکھنا چاہتا ہوں مگر پاکستان ميں اس ٹيکنالوجی کا اُستاد نہيں ہے جو مجھے سمجھا سکے اور ميرے سوالوں کا جواب دے سکے”

مدد ۔ مدد

ماہرينِ بلاگ ايک 2 جماعت پاس ناتجربہ کار کا مدد کيلئے سوال ہے بابا
جو پہلے مدد کرے ۔ وہ پہلے شکريہ پائے

ميں موزِلّا فائرفوکس براؤزر استعمال کرتا ہوں
دو ايک ماہ سے ميں بلاگسپاٹ پر بنا بلاگ کھول کر اس پر تبصرہ لکھتا ہو ں شائع کرنے سے قبل جن بلاز پر ورڈ وَيری فِيکيشن [word verification] کرنا ہوتی ہے
ان ميں سے کسی پر ورڈ وَيری فِيکيشن نظر ہی نہيں آتی
اور کسی پر اس کا صرف کچھ حصہ نظر آتا ہے اور وہ خانہ نظر نہيں آتا جس ميں ورڈ وَيری فِيکيشن لکھنا ہوتی ہے

مثال کے طور پر ناعمہ عزيز صاحبہ کا بلاگ
مزے کی بات ہے کہ ان کے بھائی شاکر عزيز صاحب کے بلاگ پر ايسا نہيں ہوتا

اگر قصور ميرا ہے تو ميں کيا کروں جس سے ايسے بلاگ مجھے درست نظر آئيں ؟

اگر قصور بلاگر کا ہے تو اُسے کيا کرنا چاہيئے کہ مجھ جيسے بچے اور بوڑھے ۔ اوہ جوان بھی ۔ پريشان نہ ہوں ؟

يہ لوگ

آج مختلف بلاگ پڑھتے ہوئے ميرے ذہن ميں مُلک کے سب سے بڑے شہر ميں بہنے والا عوام کا خون تھا ۔ کئی بلاگرز نے اس پر رنج کا اظہار کيا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے ايک بلاگ پڑھنا شروع کيا مگر زيادہ نہ پڑھ سکا ۔ جو کچھ پڑھا اس کے نتيجہ ميں کالج کے زمانہ کے ايک پنجابی گيت کے بول ذہن ميں گونجنے لگے

دِلاں دِياں مَلِياں نے ۔ اے چَن جہياں صورتاں
ہونٹاں تے مُسکان اے ۔ تے دِلاں وِچ قدُورتاں
ايہناں کولوں چنگياں نے ۔ مِٹی دِياں مُورتاں

پيار کرتے کرتے ۔ ۔ ۔

ميں نے ساری عمر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ محبت کيا ہوتی ہے ؟ اور کہاں پائی جاتی ہے ؟
جہاں محبت کا نام سُنا وہاں انجام دھوکہ ہی نظر آيا ۔ مووی فلميں ۔ افسانے ۔ ناول ۔ قصے کہانياں سب محبت کی بجائے نفرت پھيلاتے نظر آئے ليکن پھر بھی خواہش تھی کہ

پيار کرتے کرتے ميری عمر بيت جائے

کسی لڑکی يا لڑکے کو غلط فہمی يا خوش فہمی ميں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہيں ہے
مجھے کسی لڑکی سے پيار ہونے نہيں جا رہا ہے
بلکہ ميں نے فيصلہ کيا کہ کيوں نا پيار اپنے آپ سے کيا جائے ۔ نہ جنس کا عمل دخل ہو اور نہ ماديّت کا جو ابليس کو راستہ دينے کا مُوجب بنتے ہيں ۔ سو ساری زندگی اپنے آپ سے پيار کيا ہے اور اسی طرح اپنے سے پيار کرتے عمر بیتانے کی خواہش ہے
ايک فلسفی نے کہا تھا

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ۔ اپنا تو بن

آدمی اپنا بنے گا ہی تو زندگی کے راز کو پائے گا ورنہ خيالاتِ غير ميں بھٹکتا رہے گا اور جب ہوش آئے گا پانی سر سے گذر چکا ہو گا
جس نے اپنے آپ کو پا ليا اس نے اُس خالق کو پا ليا جس کی وہ مخلوق ہے
اپنے خالق کو پا ليا تو سب کچھ پا ليا ۔ اتنا کہ کوئی حسرت باقی نہ رہے

آدمی اگر کسی کی خدمت کرتا ہے تو اپنے پر احسان کرنے کيلئے
کسی کو اچھا مشورہ ديتا ہے تو اپنی زندگی سنوارنے کيلئے
دوسروں کے حقوق دلانے کيلئے کو شش کرتا ہے تو اپنے اطمينان کيلئے
گويا
آدمی سب کچھ اپنے لئے کرتا ہے ۔ کسی پر احسان کيلئے نہيں

اگر يہ خود غرضی ہے تو پھر ميں بھی ايسے خود غرضوں ميں شامل ہوں
تمنا صرف اتنی ہے کہ اللہ اپنے بندوں جيسے کام مجھ سے لے لے اور مجھے اپنا بندہ بنالے
ايسا ہو جائے تو ميں کامياب ہو گيا
يا اللہ سب تيرے اختيار ميں ہے ۔ مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا

ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی

اس موضوع پر ميں ايک سے زيادہ بار مختلف زاويوں سے اظہارِ خيال کر چکا ہوں ۔ اب پروفيسر محمد عقيل صاحب کی تحرير “بيٹا بہتر يا بيٹی” پڑھ کر ايک اور زاويہ سے لکھنے کا خيال آيا

ہند و پاکستان رسم و رواج کی آماجگاہ ہے ۔ نہ کسی کو قوم کی بھلائی کی فکر نہ اپنے خاندان کی ليکن اگر فکر ہے تو صرف رسم و رواج کی کہ اگر فلاں رسم نہ کی گئی تو شايد طوفان آ جائے گا يا فلاں رواج کے مطابق نہ چلے تو شايد تباہ ہو جائيں گے ۔ ہندو تو ہندو رہے اُن کا تو مذہب ہی رسم و رواج کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بھی نام تو اللہ اور رسول کا ليتے ہيں اور عمل غير اسلامی رسم و رواج پر کرتے ہيں ۔ اسلئے بچی کی پيدائش کو کچھ مسلمان گھرانوں ميں بھی اچھا نہيں سمجھا جاتا

بيٹی ہی کسی کی بہن بنتی ہے يا ہوتی ہے اور بيٹی ہی کسی کی بيوی اور بعد ميں ماں بنتی ہے ۔ لڑکی اور عورت کے يہ 4 کردار نہ صرف ہمارے دين کی روح سے اہم رشتے ہيں بلکہ ہمارے آج کے بگڑے معاشرے کی اکثريت بھی انہيں محترم جانتی ہے ۔ پھر صرف اقليّتی واقعات جنہيں ذرائع ابلاغ [بالخصوص غيرمُلکی] ہوا ديتے ہيں اس کی بنا پر رائے قائم کرنا کيا دانشمندی ہے ؟

بيٹے يا بيٹوں کے باپ کا مغرور يا ظالم بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ بيٹی کے باپ کے بُرد باری اختيار کرنے کی زيادہ توقع ہوتی ہے ۔ اسی طرح عام طور پر بيٹے يا بيٹوں کی ماں کی ناک اُونچی ہوتی ہے اور پاؤں ہوا ميں اُچھل رہے ہوتے ہيں جبکہ بيٹی کی ماں سے حِلم اور متانت کی زيادہ توقع کی جا سکتی ہے

بيٹا تو گھر ميں ننگا پھر کر اور گليوں ميں دوڑ بھاگ کر پل جاتا ہے مگر بيٹی کی پرورش خوش اسلوبی سے کرنا ہوتی ہے ۔ اُسے زمانے کی ہوا کے گرم تھپيڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے ۔ باپ گو بچوں سے کم پيار نہيں کرتا مگر بچوں کی پرورش ماں ہی کرتی ہے اور بہت متانت ۔ صبر اور خوش اسلوبی سے کرتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ميں بچی کی ماں کو بہت محترم جانتا ہوں اور اس سے عمدہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں ۔ ايک بار کسی خاتون نے جو اُس وقت ايک بچی کی ماں تھيں مجھ سے کچھ اس طرح کا سوال کيا “آپ ميرے متعلق کيا جانتے ہيں ؟” ميں نے جواب ميں کہہ ديا “ميں جانتا ہوں کہ آپ ايک بچی کی ماں ہيں”۔ اُنہوں نے اس کا بُرا منايا اور مجھے کھری کھری سنا ڈاليں ۔ قصور شايد اُن کا نہ تھا ۔ شايد اُن کے ماحول کا تھا

بالخصوص پانچ درياؤں کی دھرتی ميں کچھ مقولے ببہت معروف تھے

ماواں ٹھنڈياں چھاواں ۔ ۔ ۔ [ماں ۔ ايک خوشگوار سايہ]

بہن درداں والی اے ۔ ۔ ۔ [بہن درد رکھنے والی ہے]
جس پا پٹاری رکھيا ۔ ۔ ۔ [جس نے ميری حفاظت کی]
ميں تِليّر طوطا شہر دا۔ ۔ [مجھ شہر کے نازک بچے کو]

تريمت گھر دی زينت ۔ ۔ ۔ [بيوی گھر کی رونق اور سنگار]

دِھی دُکھ سانبھے ماپياں دے ۔ ۔ ۔ [بيٹی ہی والدين کا دُکھ درد بانٹتی ہے]

مگر ضرب المثل ” کوا گيا سيکھنے ہنس کی چال ۔ اپنی بھی بھول گيا” کے مطابق ہم لوگوں اپنی پرانی اچھی عادات کو تَج کر جديد راہيں اپناتے ہوئے شہر کی طرف جانے کے ارادوں سے جنگلوں کی طرف نکل گئے ہيں

موٹی سی بات يہ ہے کہ بيٹوں کو عام طور پر تعليم کے بعد اُن کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ليکن بيٹيوں کا اُن کی شادی کے بعد بھی پورا خيال رکھا جاتا ہے

ہمارے خاندان اور برادری کو شايد ايک عجوبہ سمجھا جائے کہ ہمارے ہاں تھوڑی سی استثنٰی کے علاوہ بچی کی پيدائش کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری برادری ميں اگر خوشی کی جائے تو پہلے بچے کی پيدائش پر کی جاتی تھی خواہ بيٹی ہو يا بيٹا ۔ جب سے بہت مہنگائی ہوئی ايسا بہت کم ديکھنے ميں آيا ہے ۔ طريقہ يہ ہے کہ پيدائش کے بعد 7 دن کے اندر بچی يا بچے کے سر کے بال اُترواتے ہيں اور لڑکی ہو تو ايک بکرا اور لڑکا ہو تو 2 بکرے ذبح کر کے بجائے گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹنے کے سب کو اپنے گھر دعوتِ طعام ديتے ہيں ۔ اسے عقيقہ کہا جاتا ہے ۔ اگر مہمان زيادہ ہوں تو زيادہ بکرے ذبح کر ليتے ہيں۔ کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقيقہ کے وقت سب اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں تو بکرا ذبح کر کے بانٹ ديا جاتا ہے اور بعد ميں خوشی کيلئے دعوت کی جاتی ہے