ملک ميں بہتری اس وقت تک نہيں آ سکتی جب تک کل پاکستانی بالغوں ميں سے کم از کم 50 فيصد کا عمل شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے کلام کے مندرجہ ذيل تراشوں کی زد سے باہر نہ نکل جائے
تربيت عام تو ہے ، جوہر قابل ہی نہيں ۔ ۔ ۔ جس سے تعمير ہو آدم کی ، يہ وہ گِل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں ، الحاد سے دل خوگر ہيں ۔ ۔ ۔ اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
منفعت ايک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ايک ۔ ۔ ۔ ايک ہی سب کا نبی ، دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ايک ۔ ۔ ۔ کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں ۔ ۔ ۔ کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئين رسول مختار ؟ ۔ ۔۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار ؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار ؟ ۔ ۔ ۔ ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں ، روح ميں احساس نہيں ۔ ۔ ۔ کچھ بھی پيغام محمد کا تمہيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصارٰی تو تمدن ميں ہنُود ۔ ۔ ۔ يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو ۔ ۔ ۔ تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے ۔ ۔ ۔ تم مسلماں ہو ، يہ انداز مسلمانی ہے ؟
حيدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے ۔ ۔ ۔ تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم ۔ ۔ ۔ تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
بہت خوب
جزاک اللہ