ہم لوگ بڑے کرّ و فر سے اپنے جمہوری ہونے کا بيان داغتے ہيں اور سعودی نظامِ حکومت کو آمريت قرار ديتے ہوئے يہ بھی اعلان کرتے ہين کہ وہاں پاکستانيوں کے ساتھ بُرا سلوک کيا جاتا ہے
البتہ جب جمہوريت اور آمريت ميں عملی زندگی کا موازنہ کرتے ہيں تو آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے
بخشو ری بِلی ۔ چوہا لنڈورا ہی بھلا ۔ ۔ ۔ يعنی بخشو ری جمہوريت ۔ آمريت ہی بھلی
پاکستانی شہری فرمان علی خان نے نومبر 2009ء میں جدہ میں ہونیوالی طوفانی بارش کے باعث سیلاب میں گھرے 14افراد کی جان بچائی اور اپنی جان جان آفریں کے سپردکردی تھی ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ نایف بن عبدالعزیز نے فرمان علی کیلئے اعلان کردہ سعودی عرب کا اعلٰی ترین سول ایوارڈ ”کنگ عبدالعزیز میڈل“ اس کے والد عمر رحمان کوپیش کردیا
اس سے پہلے ایک سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر ہزاروں سعودی افراد نے جدہ کی سڑک کو فرمان علی خان کے نام سے منسوب کرنے کی مہم بھی چلائی تھی جس کے بعد شہید فرمان علی کے نام جدہ کی ایک شاہراہ بھی منسوب کردی گئی ہے
سوات سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ فرمان علی خان نے پسماندگان میں بیوہ اور 3 بیٹیاں زبیدہ ۔ مدیحہ اور جریرہ چھوڑیں ہيں ۔ وہ 6 برس تک سعودی عرب میں مقیم رہا اور صرف 2 بار پاکستان آيا تھا
ميں سعودی عرب 5 بار جا چکا ہوں ۔ پہلی بار مئی جون 1978ء ميں اور آخری بار دسمبر 2000ء جنوری 2001ء ميں ۔ حج ميں نے 1985ء ميں کيا جب ميرا قيام 40 دن رہا ۔ باقی 4 بار عمرے کئے اور ہر بار 15 دن قيام رہا ۔ جب حج پر گيا تھا تو مدينہ منورہ ميں قيام کے دوران ميں بيمار ہوا ۔ ميں پاکستان ہاؤس گيا جہاں يہ کہہ کر مجھے کوئی دوائی نہ دی گئی کہ “دوائياں ابھی پہنچی نہيں ہيں”۔ پھر مجھے او آر ايس کی تين پُڑياں دے کر کہا “رکھ لو کام آئيں گی”۔ ميں نے باہر نکل کر ديکھا تو ان کی معياد ايک سال قبل ختم ہو چکی تھی ۔ مجھے ٹيکسی ڈرائيور کہنے لگا ” آپ سعودی ہسپتال کيوں نہيں جاتے ؟” ميں نے بتايا کہ “کہتے ہيں وہاں پاکستانی حاجيوں کا علاج نہيں کرتے”۔ اُس نے ميری بات نہ مانی اور مجھے سعودی ہسپتال لے گيا ۔ ميں نے اندر جا کر چپڑاسی کو بتايا کہ ميں حج کرنے آيا ہوں ۔ اُس نے مجھے عليحدہ بٹھا ديا ۔ مريض جو ڈاکٹر کے پاس تھا باہر نکلا تو اُس نے عام مريضوں سے کہا “يہ عازمِ حج ہے اور زيادہ بيمار ہے اس لئے اسے ميں پہلے بھيج دوں ؟”۔ 3 مريض انتظار ميں تھے اُنہوں نے اثبات ميں سر ہلايا اور مجھے ڈاکٹر کے پاس بھيج ديا گيا ۔ اتفاق سے ڈاکٹر پاکستانی تھا ۔ کہنے لگا “ليبارٹری ٹسٹ اور نسخہ ميں لکھ ديتا ہوں ۔ آپ کو بازار سے کروانا اور بازار سے ہی دوائی لينا ہو گی ۔ جانے سے قبل باہر کھڑکی پر اس نسخہ کا اندراج کروا ديں”۔ ميں نے باہر کھڑي پر جا کر نسخہ دے کر کہا “اندراج کر ليں”۔ وہاں سعودی تھا ۔ اس پر مہر لگا کر کہنے لگا “ليبارٹری بند ہونے والی ہے جلد اندر جاؤ اور خون ٹيسٹ کيلئے دے کر ميرے پاس آؤ”۔ ميں گيا وہاں پر بھی سعودی تھا ۔ پوچھا “ارجنٹ ہے ؟” ميں نے ہاں ميں سر ہلايا تو بھاگ کر ايک جاتی ہوئی خاتون کو واپس لايا ۔ وہ پيٹھالوجسٹ تھی ۔ اُس نے ليبارٹری کا تالا کھولا ۔ اندر سے سامان نکال کر ميرا خون ليا اور مجھے کہ “چار پانچ بجے کے درميان آئين ۔ ليبارٹری تو بند ہو گی ۔ يہاں جو لڑکا ہو گا اُسے کہيں ڈاکٹر فلاں نے جو ٹيسٹ کيا تھا اُس کی رپورٹ دراز ميں ہے دے ديں”۔ اس کے بعد ميں پھر کھڑکی پر پہنچا اور نسخہ اسی سعودی کے حوالے کيا ۔ اُس نے مجھے ساری دوائياں دے ديں اور کہا “آپ کہاں خوار ہوتے ۔ کيا حرج ہے جو آپ کو دوائی دے دی جائے ۔ بہت دوائياں ہين ہمارے پاس”
جناب کس کس دیوار سے سر ٹکرایا جائے۔ عجیب حال ہے اللہ رحم کرے اور ہمیں عقل دے۔
آپکی طبعیت کیسی ہے؟
بہترین
انکل ٹام صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ