جو جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو ہوا تھا ميں 24 اکتوبر 2011ء کو لکھ چکا ہوں ۔ اب حسبِ وعدہ پس منظر اور پيش منظر کا مختصر خاکہ
ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی
وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔ یہ فیصلہ مُبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی ۔ بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر پھر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا
قراداد الحاق پاکستان
مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔
جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ “3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے” ۔
تحریک آزادی کا کھُلا اعلان
مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کسی قسم کا جواب نہ ملنے پر جس مسلح تحریک کا نوٹس مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو دیا تھا وہ 23 اگست 1947ء کو جموں کشمير کے مسلمان فوجيوں نے نیلا بٹ سے شروع کی ۔ اس ميں شہری بھی شامل ہوتے گئے ۔ يہ تحريک ستمبر 1947ء میں گلگت اور بلتستان میں پروان چڑھی اور پھر اکتوبر میں مظفرآباد ۔ پونچھ ۔ کوٹلی ۔ میرپور اور بھِمبَر تک پھیل گئی
گلگت بلتستان کی آزادی
گلگت کا علاقہ انگریزوں نے پٹے پر لیا ہوا تھا اور اسکی حفاظت گلگت سکاؤٹس کے ذمہ ہوا کرتی تھی جو سب مسلمان تھے ۔ گلگت سکاؤٹس کے صوبیدار میجر بابر خان آزادی کے متوالے تھے ۔ جموں کشمیر کے راجہ نے گلگت سے 50 کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر چھاؤنی اور ریزیڈنسی بنائی ہوئی تھی جہاں چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کے فوجی تعینات ہوتے تھے ۔ چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کےمسلمان آفیسروں میں کرنل عبدالمجید جو جموں میں ہمارے ہمسایہ تھے ۔ کرنل احسان الٰہی ۔ میجر حسن خان جو کیپٹن ہی جانے جاتے رہے ۔ کیپٹن سعید درّانی ۔ کیپٹن محمد خان ۔ کیپٹن محمد افضل اور لیفٹیننٹ غلام حیدر شامل تھے ۔ پٹے کی معیاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی آزادی معرضِ وجود میں آ گئی اور انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنا شروع کر دیا چنانچہ جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے گھنسار سنگھ کو گلگت کا گورنر مقرر کر کے بونجی بھیجا ۔ یہ تعیناتی چونکہ نہائت عُجلت میں کی گئی تھی اسلئے گورنر گھنسار سنگھ کے پاس علاقہ کا انتظام چلانے کے کوئی اختیارات نہ تھے سو وہ صرف کاغذی گورنر تھا ۔
ہوا یوں کہ چھٹی جموں کشمیر اِنفینٹری کی رائفل کمپنی کے کمانڈر میجر حسن خان کو اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانگی کا حُکم ملا ۔ یکم ستمبر 1947 کو وہ کشمیرسے روانہ ہوا تو اُس نے بآواز بلند پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے اُس کا ساتھ دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے جموں کشمیر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور اس کے باوجود جموں شہر میں آزادی کے متوالے مسلمان جلوس نکال رہے تھے جس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے ۔ میجر حسن خان کی کمپنی جب استور پہنچی تو شہری مسلمانوں کی حمائت سے نیا جوش پیدا ہوا اور آزادی کے متوالوں نے دل کھول کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ اس کمپنی نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اور باقی آزادی کے متوالوں کو ساتھ ملاتے اپنا سفر جاری رکھا ۔ گلگت پہنچنے تک گلگت سکاؤٹس بھی ان کے ساتھ مل چکے تھے ۔
بھارتی فوجوں کے 27 اکتوبر 1947 کو جموں میں زبردستی داخل ہونے کی اطلاع گلگت بلتستان میں 30 اکتوبر 1947 کو پہنچی ۔ 31 اکتوبر کو صوبیدار میجر بابر خان نے بونجی پہنچ کر گلگت سکاؤٹس کی مدد سے گورنر گھنسار سنگھ کے بنگلہ کا محاصرہ کر لیا ۔ گورنر کے ڈوگرہ فوجی محافظوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک سکاؤٹ شہید ہو گیا ۔ گھنسار سنگھ کو حسن خان اور اس کے ساتھیوں کی استور میں نعرے لگانے کا علم ہو چکا تھا ۔ اُس نے 31 اکتوبر کوصبح ہی ٹیلیفون پر چھٹی اِنفینٹری کے کمانڈر کرنل عبدالمجید کو ایک سِکھ کمپنی فوراً بونجی بھجنے اور خود بھی میجر حسن خان کو ساتھ لے کر بونجی پہنچنے کا کہا ۔ کرنل عبدالمجید خود بونجی پہنچا اور میجر حسن خان کو اپنی کمپنی سمیت بونجی پہنچنے کا حکم دیا مگر سکھ کمپنی کو کچھ نہ کہا ۔ کرنل عبدالمجید کے بونجی پہنچنے سے پہلے گلگت سکاؤٹس کی طرف سے گھنسار سنگھ تک پیغام پہنچایا جا چکا تھا کہ ہتھیار ڈال دو ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ کرنل عبدالمجید نے میجر حسن خان اور صوبیدار میجر بابر خان سے گھنسار سنگھ کی جان کی ضمانت لے لی اور گھنسار سنگھ نے گرفتاری دے دی ۔
گلگت بلتستان میں آزاد حکومت
میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 کو گلگت اور بلتستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کی اور قائد اعظم اور صوبہ سرحد کے خان عبدالقیّوم خان کو گلگت بلتستان کا عنانِ حکومت سنبھالنے کے لئے خطوط بھجوائے ۔ یہ گلگت اور بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا ۔
3 نومبر 1947 کو بونجی میں گورنر کے بنگلے پر ایک پُروقار مگر سادہ تقریب میں آزاد ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ اس طرح سوا صدی کی غلامی کے بعد گلگت بلتستان میں پھر مسلمانوں کی آزاد حکومت باقاعدہ طور پر قائم ہو گئی ۔ 15 نومبر 1947 کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا ۔
پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی
جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں
بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی
رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی
اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا
پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں
مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی
بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی
Pingback: تحريک آزادی جموں کشمير ۔ چند حقائق | Tea Break
جناب کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریر لکھنے سے پہلے چوہدری ظفر اللہ کی کتاب تحدیث نعمت کے صفحہ 529 تا 550 کا مطالعہ کر لیا ہوتا، تو تحریر کافی حد تک غیر جانبدار رہتی
ملک کريم الدين صاحب
چوہدری ظفراللہ [مرزائی] کا نظريہ غير جانبدار نہيں ہو سکتا کيونکہ وہ خود اس سازش ميں ملوث تھا جو نہرو اور مؤنٹ بيٹن نے تيار کی تھی ۔ لاکھوں مرزائيوں کی طرف سے تاجِ برطانيہ کو دی گئی اُس تحريری درخواست کے نتيجہ ميں ريڈ کلف کو ضلع گورداس پور کو بھارت ميں شامل کرنے کا موقع ملا جس ميں اُنہوں کہا تھا کہ مرزائی اُس اسلام کا حصہ نہيں جو محمد علی جناح کا ہے اسلئے اُنہيں قادياں جو گورداس پور ميں شامل تھا عليحدہ وطن کے طور پر ديا جائے ۔ اس طرح نہرو اپنے منصوبہ ميں کامياب ہوا اور پہلے اس راستہ سے مہاسبھہ ۔ راشٹريہ سيوک سنگ اور اکالی دل کے مسلحہ گروہ جموں ميں داخل ہوئے اور بعد ميں بھارت نے فوجيں داخل کر ديں
جناب آپ کا جواب العجواب ہی اس بات کی عکاسی ہے کہ تحریر کس قدر غیر جانبدار ہے، رہا سوال آپ کی معلومات کا تو تاریغ کا ایک ادنیٰ طالب علم کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے نہ صرف طرفین کے بیانات کا جائزہ لیتا ہے بلکہ غیر جانبدار ذریعوں کے بھی حوالے دیتا ہے، بغیر تاریخی حوالوں اور حواشیوں کے بات کچہ وزن نھیں رکھتی، باقی آپ اور خاکسار کے درمیان بات وہاں آ پہنچی ہے جہاں بات منطق سے نکل کر جذباتیت میں داخل ہو چکی ہے جہاں ڈائلاگ نہیں بلکہ صرف دل کام کرتا ہے۔۔ جزاک اللہ الخیر
ملک کريم الدين صاحب
جس تن لاگے وہ تن جانے آپ نے شايد سنا ہو ۔ تاريخ کی کتاب کی ضرورت اُس وقت پڑتی ہے جب واقعات اپنی نظر سے نہ گذرے ہوں ۔ اور پھر آج کی دنيا ميں اس معاملہ پر کونسی مستند تاريخ ہے جس کا آپ حوالہ دينا چاہتے ہيں ۔ آپ نے اُس شخص کی کتاب کا حوالہ ديا جو خود اور جس کی کميونٹی اس سازش ميں ملوث تھی ۔ کيا يہ غير جانبدار رائے ہوئی ؟ ديگر ميں کسی امقدمے کا فيصلہ نہيں کر رہا جو دونوں طرف کے گواہوں کو سنا جائے ۔ يہ بھی آپ جانتے ہوں گے کہ اس طريقہ سے کئی مجرم بچ جاتے ہيں اور کئی بے قصور سزا پاتے ہيں ۔ آپ کی اطلاع کيلئے لکھ رہا ہوں کہ جب پاکستان بنا تو ميں دس سال کا تھا اور ميرا تعلق جموں شہر رياست جموں کشمير سے ہے
جناب موضوع بہت اہم اور اچھا ہے، میرا خاندان بھی کشمیر کے ساتھ اور تحریک آزادی کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ضخیم کتابوں کے حوالے دینے کی بجائے آپ اپنے مشاہدات بیان کریں، ضروری نہیں ہے کہ جو آپ نے دیکھا ہے وہی بیان کیا جائے بلکہ جو آپ نے سنا جو واقعات اس وقت ہوئے یا اس سے پہلے ہوئے اور آپ کے بزرگوں نے آپ کو بتائے وہ آپ ہمارے ساتھ شئر کریں، وہ بہت سے واقعات جو احاطہ تحریر میں نہیں آسکے اور وہ بہت سے واقعات جو جان بوجھ کا چھپائے گئے۔
کچھ ان کمنام لوگوں کا تذکرہ جو اتنے غنی تھے کہ بس دے ہی گئے اور اپنا نام بھی نہ چھوڑا۔ جن کے بغیر آج کی تاریخ مختلف ہوتی۔
آپ جیسے بزرگ جنکے پاس زندگی کا طویل تجربہ ہے اور وہ دوسروں تک پہنجانے کی ہمت رکھتے ہیں ایک نعمت ہیں اور بہت ہی کم، میرے والد صاحب اس وقت کچھ بھی نہیں لکھ سکتے، مگر جب کبھی انکی صحت اجازت دے تو وہ بہت سے ایسے واقعات سناتے ہیں جو عام کتابوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں اس سے اندازہ لگاتا ہوں کہ نئی نسلوں تک پہنجانے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے، بہت سارا بوجھ جسے ڈھونا اور آگے پہنچانا کار مرداںہوگا۔
افتخار راجہ صاحب
ميں گاہے بگاہے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات لکھتا رہتا ہوں ۔ دراصل اس بلاگ کو شروع کرنے کا مقصد ہی يہ تھا اور ہے کہ اپنے مشاہدات ۔ تجربات اور علم کو اگلی نسل تک پہنچايا جائے کيونکہ جو کچھ اخبارات اور کتب ميں لکھا گيا ہے اور لکھا جا رہا ہے وہ عام طور پر کسی کے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے نہ کہ حقائق کا پرچار