ايہہ پُتر ہٹاں تے نئيں وِکدے ۔ تُوں لَبھدی پھِريں بزار کُڑے
ايہہ سَودا نقد وی نئيں مِلدا ۔ تُوں لَبھدی پھِريں اُدھار کُڑے
سچ ہے کہ بيٹے نہ تو بِکتے ہيں اور نہ کہيں سے مُستعار ملتے ہيں
بيٹے گھر کے اندر ہی پيدا ہوں تو بات بنتی ہے ۔ عزت بنتی ہے ۔ عِفت قائم رہتی ہے اور دُشمن ڈرتا ہے
بيٹا کيا ہوتا ہے ؟
بيٹا وہ نہيں جو
غير لڑکی کو ديکھ کر لٹُو ہو جائے
پستول دکھا کر راہگير کو لُوٹ لے
دولت کی خاطر نشانہ لے کر بے قصور آدمی کو ہلاک کر دے
مسندِ حکومت پر بيٹھ کر قوم کے مال سے گلچھڑے اُڑائے
قوم کے نام پر اپنی تجورياں بھرے
بيٹا ہوتا ہے
ماں کی عظمت کا نشان
بہن کے فخر کا سامان
باپ کے حوصلے کا مقام
قومی غيرت کا پيغام
نظرياتی سرحدوں کا پاسبان
رات کی تاريکی کی بجائے دن کی روشنی ميں بر سرِ پيکار
اپنے لئے سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود دوسروں کا سہارا
کسی کی کوشش کا متمنی نہيں ۔ اپنی محنت پر بھروسہ کرنے والا
دھواں دار نعرے لگانے والا نہيں ۔ عمل اور کردار سے پہچانا جانے والا
اپنوں پر مہربان اور دُشمن کيلئے قہر
اگر کوئی ہے عزت کا خواہشمند ؟ اور عافيت کا طلباگار ؟
تو بن جائے
بيٹا قوم کی ہر ماں کا
بھائی قوم کی ہر بہن کا
مددگار قوم کے ہر باپ کا
محافظ قومی نظريہ کا
جانثار قوم کے وقار کا
زبانی نہيں عملی طور پر کہ زندگی کوئی تمثيل [drama] نہيں ہے بلکہ ايک اٹل حقيقت ہے جو تلخ ہے اور شيريں بھی
ايک بيٹا ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا
سال 1947ء پنجاب اور قربِ جوار ميں جو علاقہ بھارت کا حصہ قرار ديا گيا ہے وہاں جہاں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں راشٹريہ سيوک سنگ ۔ مہا سبھا اور اکالی دَل کے مسلحہ جتھے اُن پر حملے کر رہے ہيں ۔ ايک ايسے ہی شہر ميں ايک محلہ ميں چند مسلمان گھرانے تھے ۔ اکالی دَل کے مسلحہ افراد ايک مکان کا دروازہ پِيٹتے ہيں ۔ يہ مسلمان خاندان مياں بيوی اور جوان بيٹے پر مشتمل ہے ۔ سربراہِ خانہ دروازہ کھولتا ہے تو
ايک گرجدار آواز آتی ہے “کڑے پہن لو ۔ ورنہ مرنے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔
جوان بيٹا يکدم باپ کو پيچھے کر کے دروازے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر ديتا ہے پھر
بازو ہوا ميں لہرا کر دہاڑتا ہے ” لاؤ اپنی بہن کی ڈولی اور پہناؤ مجھ کو کڑا”۔
ايک سکھ غصہ کھا کر نيزے کا وار کرنے آگے بڑھتا ہے
جوان عقاب کی طرح جھپٹ کر اُس سے نيزا چھين کر اُسے ڈھير کر ديتا ہے پھر دوسروں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اکيلا مسلمان جوان پانچوں کے وار سہتا جاتا ہے اور جوابی وار کرتا جاتا ہے حتٰی کہ پانچوں ڈھير ہو جاتے ہيں اور ساتھ ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جوان خود بھی شہيد ہو جاتا ہے
آجکل کےبیٹے انڈین فلموں سے غیرت و بہادری سیکھتے ہیں۔
راہ چلتی شریف زادیوں کو تنگ کرتے ہیں۔
ماں باپ بچوں کے نام انڈین فلموں کے ہیرو اور ہیروئنوں کے ناموں پہ رکھتے ہیں۔
ایک دوست نے بیٹی کا نام رمشا رکھا پو چھنے پہ بولا ذرا ماڈرن ہے نا۔
موت سے ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔پیسے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔
ياسر صاحب
نام رکھنے کی بھی آپ نے خوب کہی ۔ جو بھائی لوگ عرب ممالک ميں رہ آئے ہيں وہ وہاں جو لفظ کانوں کو بھلا لگے بچے بچی کا رکھ ليتے ہيں اور تو اور ايک صاحب نے بچے کا نام رکھا ۔ ميں نے نام کا مطلب پوچھا تو فرمايا “کسی مسلمان بزرگ کا نام ہے”۔ پوچھا آپ نے کہاں سے پڑھا”۔ کہنے لگے فلاں متبرک جگہ بورڈ پر لکھا ہوا تھا ۔
افتخار انکل کہیں اُنہوں نے بیت الخلاء نام تو نہیں رکھ لیا؟
ہمارے لوگ معصوم ہیں یار
افتخار انکل آج ہم لوگوں کو موبائل فون کے استعمال سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ کسی اور بارے میں خبر رکھ سکیں ۔ کتابوں سے ہم دور ہوگئے ہیں۔ آج بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت ماں سے زیادہ سٹار پلس اور کارٹون پروگرام کرتے ہیں اگر کوئی بچہ ڈانس کرے یا کسی کی کوئی نقل کرئے تو والدین خوشی سے اور فخر سے دوسروں کو بتاتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر آج کا جوان اخلاقی تباہی کے دھانے پہ کھڑا ہے تو اس میں کسی حد تک ماں باپ کا بھی قصور اور کوتاہی ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ہوسکتا ہے آپ کو اس سے اختلاف ہو اس کے لیے مذرت
عبدالقدوس صاحب
متذکرہ نام ہمارے مُلک ميں بھی استعمال ہوتا ہے اسلئے توقع بہت کم ہے ۔ ايک مثال “حمير” ہے جو حمار کی جمع ہے اور حمار کا مطلب گدھا ہے
محمد ياسر صاحب
آپ کا خيال درست ہے والدين کا بھی کافی حد تک قصور ہوتا ہے اور ماحول کا بھی