ايک پرانا مقولہ ہے ” جس نے جوانی ۔ دولت اور طاقت کی گرمی سہہ لی وہ کامياب ہو گيا”
ميرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس “جوانی” کے پيچھے کارساز دور دراصل “لڑکپن” کا ہوتا ہے اور کسی بھی مرد يا عورت کيلئے يہ بہت اہم دور ہے ۔ عام طور پر لڑکا يا لڑکی اسی دور کے حالات و اثرات سے بنتے يا بگڑتے ہيں ۔ لڑکا لڑکی اسی دور ميں اچھی يا بُری عادات اپناتے ہيں جو بعد ميں اُن کی خصلت بن جاتی ہيں ۔ سگريٹ پينا ۔ چوری کرنا ۔ جھوٹ بولنا اسی دور کی عِلتيں ہيں ۔ اسی دور ميں عصمت لُٹنے کا زيادہ خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر اس دور ميں درست رہنمائی مل جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے ۔ بصورتِ ديگر بھٹکنے کا ہر دم احتمال رہتا ہے اور جو بھٹکتے ہيں وہ اس دور کا پھل عام طور پر عمر بھر کاٹ رہے ہوتے ہيں ۔ اللہ جب چاہے کسی کو ھدائت دے دے وہ الگ بات ہے
بيٹی 10 سال کی ہو جائے تو سمجھدار مائيں اُسے اپنے بھائی کے کمرے ميں بھی نہيں سونے ديتيں اور دن کے وقت بھی اگر بہن بھائی کسی کمرے ميں الگ بيٹھے ہوں تو کسی نہ کسی بہانے جھانکتی رہتی ہيں ۔ دو بھائی اس عمر کے اس دور ميں عليحدہ کمرے ميں ہوں تو سمجھدار مائيں اُن پر بھی نظر رکھتی ہيں
استثنٰی تو ہر جگہ اور ہر صورت ميں ہوتا ہے ليکن بات عام طور سے 66 فيصد کے متعلق کی جاتی ہے ۔ مختلف ممالک ميں اور مختلف ادوار ميں جنسی اور نفسياتی لحاظ سے لڑکپن کے دورانيے ميں تھوڑا بہت فرق ہے ۔ ميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق وطنِ عزيز ميں لڑکے کيلئے يہ دور 12 سال کی عمر 18 سال کی عمر تک ہوتا ہے اور لڑکی کيلئے 10 سال سے 19 سال کی عمر تک
اس دورانيے ميں لڑکا سمجھتا ہے کہ سب اُس کی طرف ديکھ رہے ہيں اور اُس کی خواہش بھی يہی ہوتی ہے ۔ لڑکی کا بھی يہی حال ہوتا ہے ايک اضافے کے ساتھ کہ کوئی اُسے محبت کی نظر سے ديکھے ۔ يہ خواہش تو کسی حد تک ہر انسان کے دل ميں ہوتی ہے ليکن لڑکپن ميں يہ خواہش لڑکی کے ذہن پر سوار ہو کر اچھے بُرے يا سچے جھوٹے کی تميز سے اُسے بے نياز کر ديتی ہے ۔ نتيجہ لڑکی کيلئے اچھا نہيں ہوتا
لڑکی کی ايک اور فطری کمزوری يہ ہے کہ ہر 4 ہفتوں ميں چند دن ايسے ہوتے ہيں کہ لڑکی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اگر اس دوران اُسے کسی لڑکے کا قُرب حاصل ہو جائے تو جلد زِير ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ لڑکيوں کو لڑکوں کی نسبت زيادہ متانت ۔ بُردباری اور احتياط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمر کے اسی دور کی لغزش لڑکی کو خود کُشی کی طرف ليجاتی ہے
لڑکے اسی عمر ميں اپنی طرف توجہ مبزول کرانے کيلئے سگريٹ نوشی يا دوسری عِلت شروع کرتے ہيں اور پھر اس عِلت ميں پھنس کر رہ جاتے ہيں
يہ خيال رہنا چاہيئے کہ دودھ زمين پر گر جائے تو اُٹھايا نہيں جا سکتا اسلئے کوشش ہونا چاہيئے کہ دودھ گرنے نہ پائے
لڑکی خواہ کس عمر کی بھی ہو [بلکہ عورت کو بھی] چاہيئے کہ کسی بھی جگہ نامحرم لڑکے يا مرد کے ساتھ اکيلی نہ ہونے پائے ۔ نامحرم لڑکے يا مرد سے کسی دفتری يا اخلاقی مجبوری کے تحت تعلقات بڑھائے تو ايک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر يعنی مناسب جسمانی اور سماجی فاصلہ قائم رکھے
لڑکا بھی اگر احتياط نہ کرے تو بعض اوقات لڑکی کے ہاتھوں خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گو اُسے نقصان لڑکی کی مانند نہيں ہوتا ليکن اُس کے غلط راہ پر چل نکلنے کا دروازہ کھُل جانے کا انديشہ ہوتا ہے يا بعض اوقات وہ نفسياتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ 8 سے 16 سال کے لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ نوجوان لڑکی کے ساتھ اکيلا نہ ہونے پائے
دينی اور سماجی حدود کو غير مسلموں نے ترقی اور آزادی کے نام پر توڑا اور عورت کو چکمہ دے کر مردوں کی جنسی تسکين کا کھلولنا بنا ديا ۔ دُور کے ڈھول سُہانے کے مصداق ہمارے ہاں بھی عورت کی اِس نام نہاد آزادی کا نعرہ کبھی کبھی سننے ميں آتا ہے ۔ حال يہ ہے کہ جنہيں ديکھ کر نقل کی کوشش کی جاتی ہے وہاں آج کے دور ميں سمجھدار عورتيں پرانے ادوار کو حسرت سے ياد کرتی ہيں اور چاہتی ہيں کہ عورت کا اصلی رُوپ واپس آ جائے ليکن عمارت کو گرانا تو آسان ہے مگر اُنہی بنيادوں پر دوبارہ بنانا بہت مُشکل ہوتا ہے
Pingback: لڑکپن ۔ بھَولپن يا ظالم دور | Tea Break
بہت خوبصورت پیرائے میں نئے والدین کیلئے ایک پر اثر تحریر۔ جزاک االہ خیرا
بہت بہتریں مضمون ہے ۔ ۔ اللہ ہم سب کو سمجھ عطا کرے اور اپنی بنیادوں کو دوبارہ بنانے کی ہمت عطا کرے ۔ آمین
محمد سليم اور محمد نور صاحبان
حوصلہ افزائی کا شکريہ
کہتے ہیں کہ اولاد کو سونے کا نوالا کھلاؤ مگر دیکھو شیر کی نظر سے ۔۔۔۔
آجکل جہاں معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں آئیں ہیں وہیںاولاد سے دوستوں جیسا برتاؤ کرنے کا بھی فیشن آگیا ہے۔ بعض اوقات اس طرزعمل کے خوشگوار نتائج بھی نکلتے ہیں تو کئی دفعہ بے جا سختی کی طرح کے نتائج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آپ سختی کریں یا دوستی اولاد کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کیا کام وہ کرسکتی ہے اور کیا وہ نہیں کرسکتی۔۔۔
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
يہ جملہ ميرے والد صاحب کہا کرتے تھے “اولاد کو سونے کا نوالا کھلاؤ مگر دیکھو شیر کی نظر سے”۔