تين صوبوں ۔ سندھ [بشمول کراچی] ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اليکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 30 سے 40 فیصد ہيں جس کی بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے
صرف اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا الیکٹرک سپلائی کمپنیاں منافع میں جا رہی ہیں
اس طرح ملک میں بجلی سے متعلقہ مجموعی نقصان 20 سے 25 فیصد ہے جو اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا کی الیکٹرک سپلائی کمپنیوں سے بجلی حاصل کرنے والوں کو بلا قصور برداشت کرنا پڑ رہا ہے
گیس پر چلنے والے بجلی گھر [Power Plants] جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1000 میگا واٹ سے زائد ہے وہ کام نہیں کر رہے ۔ فیصل آباد میں 210 میگا واٹ کا ایک پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑا ہے ۔ مظفرگڑھ ۔ گدو اور کوٹ ادُو میں واقع گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس گیس کی عدم دستیابی اور فاضل پُرزے [Spare Parts] نہ ملنے کی وجہ سے پوری صلاحیت کے مطابق نہیں چل رہے
رقم [cick-backs] کے ملوث ہونے کی وجہ سے رقوم [Funds] اور گیس، رینٹل پاور پلانٹس [Rental Power Plants] اور آئی پی پیز [Independent Power Producing Companies (IPPs)] کو فراہم کی جا رہی ہے
تیل پر چلنے والے دیگر پاور پلانٹس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
حکمران سرکاری بڑے بجلی گھروں کو غيرمعياری [Sub-standard] ایندھن کی فراہمی میں ملوث ہیں اور معیاری ایندھن فراہم نہ کرنے سے مافیا بڑی رقم بنا رہا ہے
متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں ملنے والا 200 میگا واٹ صلاحیت کا پلانٹ حکومت کی عدم دلچسپی اور رشوت [Kick-backs] کے مسائل کے باعث 2009ء سے اب تک فیصل آباد میں نصب نہیں ہو سکا
975 میگا واٹ بجلی کی صلاحیت والے 2 پاور پلانٹ 2008ء میں پی سی ون [P C-1] کی منظوری اور چینی کمپنی کو پیشگی 6 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود چیچو کی ملیاں اور نندی پور میں نصب نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ سرکاری بجلی گھروں [Power Plants] کو رقم [Funds] کی عدم فراہمی ہے ۔ نندی پور منصوبہ کی مشینری 18 ماہ سے بے مقصد پڑی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ کی قيمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ چیچو کی ملیاں منصوبے کی مشینری تاحال درآمد نہیں کی گئی ۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے تو ان سے پیداہونے والی بجلی آئی پیز پیز سے سستی ہوتی
حکومت گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں قومی گرِڈ میں صرف 122 میگا واٹ کرائے کی بجلی [Rental Power Plants] کا اضافہ کر سکی ہے
بہت سے قومی بجلی گھر [Public Sector Power Plants] جو گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑے ہیں رقم [Funds] کی کمی کے باعث کسی دوسرے ایندھن [Feul] پر بھی منتقل نہیں ہو سکتے
وفاقی حکومت نے 56 کروڑ 40 لاکھ ڈالر يعنی تقريباً 48 ارب روپے زرِ مبادلہ کے سرمائے سے کرائے کے بجلی گھر لئے ۔ متعلقہ 8 کمپنیوں کو موبیلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 25 ارب روپے ديئے گئے۔ 3 کمپنیوں سے عدالت نے 5 ارب روپے واپس دلوائے جبکہ 5 کمپنیوں سے ابھی بھی 20 ارب روپے واپس لینا باقی ہیں
کرائے کے بجلی گھروں کے سلسلے ميں عدالتِ عظمٰی ميں ہونے والی کاروائی يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
مزيد پھُرتياں
کے ای ایس سی نے 33 لاکھ روپے واجبات کی عدم ادائیگی پر قصر ناز اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کی بجلی منقطع کر دی
بعدازاں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے عملے نے غیر قانونی طور پر از خود بجلی بحال کرلی
ان دونوں مقامات سے کے ای ایس سی کو گزشتہ سال سے بل کی ادائیگی نہیں کی جارہی تھی
قصر ناز پر 22 لاکھ روپے اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر 11لاکھ روپے کے واجبات ہیں
وزيرِ خارجہ حنا ربانی کھر کے خاوند فيروز گلزار نے اپنے کارخانے گليکسی ٹيکسٹائل ملز واقع جھنگ مادھوکی روڈ کا بجلی کا بل مبلغ 7 کروڑ روپيہ جون 2011ء سے ادا نہيں کيا ہوا تھا تو واپڈا نے ستمبر 2011ء ميں بجلی کاٹ دی جو کہ شديد سياسی دباؤ کے تحت 12 گھنٹے کے اندر بحال کر دی گئی
Pingback: بجلی کی کمی کيوں ؟ | Tea Break
آپ نے پہلے بھی اس سلسلے مین اعداد شمار کے حوالے سے لکھا تھا مجھے یہان یعنی امریکہ میں رہتے ہوءے یہ سب کچھ عجیب سا لگتا ہے مگر جو صورت حال آپ کی تحریر سے واضح ہوتی ہے وہ مجھے گستاخی معاف یہ سوچنے پہ مجبور کر رہی ہے کیا ہم واقعی اس پاکستان کے لاءق تھے؟ کیا محمد علی جناح نے غلطی کی تھی اللہ اس انسان کو جنت میں اعلےا درجے عطا کرے
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
جب کسی قوم کی اکثريت اللہ کی بجائے اپنے جيسے انسان کو اَن داتا اور ناحق کو اپنا حق سمجھنے لگتی ہے اور جو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ سمجھتے ہيں وہ اس کے خلاف جہاد نہيں کرتے تو اللہ ايسی قوم پر ظالم و جابر حکمران مسلط کر ديتا ہے ۔ اللہ ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے
سرجی، سچ بات ہے گو کہ کڑوی ہے کہ ملک کے اندر بجلی کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ کمی پیدا کی جاتی ہے تاکہ عوام مجبور ہوکر سڑکوں پر نکلیں، ملک کے اندر افراتفری پیدا ہوا ، ملک کا معاشی و صنعتی دیوالیہ نکلے اور پھر اکہتر والی صورت حال پیدا کرکے جونا گڑھ، و بنگال کے بعد اب کوئی اور حصہ الگ کردیا جائے۔ لگتا ہے اب کے کراچی پر آنکھ ٹکی ہوئی ہے ان کی۔
افتخار راجہ صاحب
اللہ ہمارے مُلک کی حفاظت کرے ۔ يہ مُلک اُسی کا ديا ہوا ہے جس کی ہم قدر نہيں کر سکے