اقبال مندی
الپ ارسلاں سے یہ طغرل نے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قومیں ہیں دنیا میں جو جلوہ فرما
نشاں ان کی اقبال مندی کے ہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کب اقبال مندان کو کہنا ہے زیبا
کہا ملک و دولت ہو ہاتھ انکے جب تک ۔ جہان ہو کمر بستہ ساتھ انکے جب تک
جہاں جائیں وہ سر خرو ہو کے آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظفر ہم عناں ہو جدھر باگ اٹھائیں
نہ بگڑیں کبھی کام جو وہ بنائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اکھڑیں قدم جس جگہ وہ جمائیں
کریں مس کو گر مس تو وہ کیمیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر خاک میں ہاتھ ڈالیں طلا ہو
محنت پسندی
مگر بیٹھ رہنے سے چلنا ہے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اہلِ ہمت کا اللہ یارو
جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر ۔ ۔ تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھاکے سر پر
یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی ۔ ۔ ۔ ۔ چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی
ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے ۔ ۔ ۔ لیا جس نے پھل بیج بو کر لیا ہے
کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے ۔ ۔ ۔ مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے
یونہی وقت سو سو کے ہیں گنواتے ۔ ۔ ۔ ہو خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے
یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری ۔ جہاں دیکھئے فیض اسی کا ہے جاری
یہی ہے کلیدِ درِ فضلِ باری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
جزاک اللہ افتخار صاحب ۔ ۔ ۔
واقعی میں اللہ تعالی نے ہمارے بزرگوں کو ایک گہری نظر عنایت کی تھی ۔ ۔ ۔ بڑی کارآمد باتیں بتائی ہیں ۔ ۔ ۔ شاید میں نے مولانا طارق جمیل صاحب کی زبانی یہ بات سنی تھی کہ ایک ملک (میرے ذہن میں اس کانام یاد نہیں ہے ( اپنی آزادی کے لئے اس ملک کے نوجوانوں کو ابھارنے کے لئے ‘ جوش دلانے کے لئے علامہ اقبال رح کے اشعار کا ترجمہ کیا تھا اور ان کے ذریعے قوم کے نوجوانوں کو بیدار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے پاس ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔ ۔ ۔ ان بزرگوں کے کلام سے ہم بھی اپنی قوم کو بیدار کر سکتے ہیں ۔ ۔
اللہ ہم سب کی مدد کرے ۔ آمین
Pingback: اقبال مندی اور محنت پسندی | Tea Break