امريکا کے عراق ۔ پھر افغانستان اور اُس کے بعد لبيا پر حملوں کا جواز انسانی ہمدردی اور جمہوری ترجيح کو بتايا جاتا ہے ليکن حقيقت ميں يہ سب کچھ صرف مال جمع کرنے کے لالچ سے زيادہ کچھ نہيں اور يہ کوئی نئی بات نہيں امريکا ہميشہ سے ايسا ہی کرتا آيا ہے
ميرے اس خيال کا ايک اور ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالی نے مہياء کر ديا ہے ۔ پڑھنا جاری رکھيئے
امریکا میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے اس روئے زمین کا سب سے زیادہ ”خطرناک اور حساس “ انکشاف قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1930ء میں برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور بمباری کا بڑا منصوبہ بنایا تھا
برطانیہ کے خلاف جنگ کا یہ خفیہ منصوبہ چینل 5 پر پہلی بار ڈاکیو منٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے جسے امریکی فوج کا اب تک کا سب سے خفیہ اور حساس منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ خفیہ دستاویز کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے 570 ملين [5 کروڑ 70 لاکھ] ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی
سُرخ مملکت پر جنگ [General Douglas MacArthur] کے نام سے بنائے گئے اس منصوبے میں کینیڈا اوردیگر اہم جگہوں پر موجود برطانوی فوجی اڈوں اور صنعتی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنانا شامل تھا ۔ دستاویز کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی منصوبے کا حصہ تھا
اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر کسی چھوٹے موٹے فوجی افسر کے نہیں بلکہ اس زمانے کے افسانوی غازی [Legend] سمجھے جانے والے جنرل ڈگلس ميک آرتھر [War on the Red Empire] کے دستخط ہیں
امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 1930ء میں امریکی معیشت کی اَبتری اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کے باعث امریکی حکام ایسا منصوبہ بنانے پرمجبورہوئے
تفصيل يہاں کلِک کر کے پڑھيئے
اس انکشاف پر بچپن کے عاشقانہ مزاج کا کیا تعلق؟ جیسا کہ آپنے ٹائٹل لگایا ہے –
میں سمجھا بزرگوار اپنے بچپن کے دلچسپ واقعات کا تذکرہ کرنے والے ہیں ۔
Pingback: ميرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے | Tea Break
شعيب صاحب
اگر زمرہ “آپ بيتی” ہوتا تو يہ ميرے متعلق ہوتا ۔ يہ ذکر امريکا کے عاشقانہ مزاج کا ہے جسے عشق صرف مال اکٹھا کرنے سے ہے اور نام دوسرے لئے جاتے ہيں جيسے پنجابی کا مقولہ ہے ” روندی ياراں نُوں ناں لَے کے بھراواں دے “۔ آپ نے ہندوستان کی تاريخ تو پڑھی ہو گی ۔ ہميں تاريخ انہی کی لکھی پڑھائی گئی تھی ۔ ہو سکتا ہے آپ نے درست تاريخ پڑھی ہو ۔ انہی کے آباؤ اجداد نے ہندوستان پر کس طرح قبضہ کيا تھا وہ آپ کو معلوم ہوگا
عجیب انکشاف ہوا ہے یہ تو۔ویسے سمجھ میں نہیں ارہا کہ انکی یہ بھوک کب ختم ہوگی؟
لو جی میں تو کچھ اور ہی سمجھ کر آگئی
میں نے سمجھا کچھ پول پٹیاں کھولیں گے اپنی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست پر میں وقت ضائع نہیں کرتی
میرے کچھ کہنے سے نہ کچھ ہو گا نہ ہی کبھی ہوا
کیوں ان لوگوں پر میں وقت ضائع کروں جو کبھی سدھر نہی سکتے
تحريم صاحبہ
اپنا تو بچپن سے يہ خيال ہے “کہتے ہيں جسے عشق ۔ وہ خلل ہے دماغ کا يا کام ہے شيطان کا”