زندگی کے دوسرے مشاہدات کے ساتھ ايک مشاہدہ يہ بھی ہوا کہ مختلف لوگ عبادت کا مختلف تصوّ ر رکھتے ہيں ۔ نامعلوم ہمارے لوگ اس سلسلہ ميں کہی سُنی کی بجائے مستند کُتب سے رجوع کيوں نہيں کرتے ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ميں بہت پڑھا لکھا تو نہيں ہوں ۔ مگر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق سے جو سمجھا ہوں وہ درجِ ذيل ہے
“عبادت” فعل ہے “عبد” کا جو وہ بحيثيت “عبد” کر تا ہے ۔ “عبد” کہتے ہيں “بندہ” يا “غلام” کو ۔ غلام کيلئے لازم ہے کہ اپنے آقا کا ہر حُکم مانے ۔ اگر ايسا نہيں کرے گا تو وہ غلام نہيں ہے يا غلام ہوتے ہوئے باغی ہے ۔ عبادت کو اُردو ميں بندگی بھی کہتے ہيں ۔ چنانچہ عبادت يا بندگی کا مطلب يہ ہے کہ انسان اللہ کے ہر فرمان کے مطابق عمل کرے
عبادت صرف نماز نہيں ہے اور نہ ہی صرف نماز ۔ روزہ ۔ زکات اور حج ہيں
انسان کا ہر وہ فعل جو وہ اس لئے انجام دے کہ يہ اللہ کا حُکم يا فرمان ہے عبادت ہے
ايک آدمی راہ جاتے گِر گيا ہے تو اُسے اس خيال سے اُٹھايا جائے يا اُس مدد کی جائے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ مشکل کے وقت ميں مدد کی جائے تو يہ عمل عبادت بن گيا
اگر يہ سوچ کر اُٹھايا جائے کہ اس طرح يہ آدمی مجھے اچھا سمجھے گا يا ديکھنے والے اچھا سمجھيں گے تو يہ عبادت نہ ہو گی
کوئی اپنی اولاد کی اچھی تعليم و تربيت اس نظريہ سے کرتا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے تو ايک ايسی عبادت کرتا ہے جو اُس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک اس کی اولاد اُس اچھی تربيت کو بروئے کار لاتی رہتی ہے ۔ اس کے ساتھ دنياوی فائدہ يہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر بناتا ہے اور اپنے لئے اطمينان مہياء کرتا ہے
اگر اولاد کی بہتر تعليم و تربيت اس خيال سے کرے کہ بڑا عہدہ ملے گا يا زيادہ مال کمائے گا يا آسائش کی زندگی گذارے گا يا بڑا نام ہو گا تو يہ عبات نہ ہو گی
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عبادت کو ہمارے لئے اتنا آسان بنايا ہے کہ ہمارا ہر فعل عبادت بن سکتا ہے ۔ يہاں تک کہ لباس پہننا ۔ کھانا پينا ۔ چلنا پھرنا ۔ بات کرنا سب عبادت بن سکتا ہے اگر اس فعل کو اللہ کے حُکم کے مطابق ادا کيا جائے
گويا کوئی بھی اچھا عمل عبادت بن سکتا ہے اور نہيں بھی ۔ اگر نيّت خالص تھی کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کی جائے تو عبادت ۔ يہ نيّت نہ ہو تو اچھا عمل دنيا کے لحاظ سے اچھا نظر آتے ہوئے بھی آخرت کا توشہ لانے سے محروم رہتا ہے
يا اللہ ہميں اپنا بندہ بنا لے ۔ ہم سے اپنے بندوں والے کام لے لے
Pingback: عبادت کسے کہتے ہيں ؟ | Tea Break
ماشا اللہ بہت عمدہ اور خیال افروز تحریر ہے۔ اللہ کریم ہماری نیتوں کو درست کر دے ،کہ اعمال کی درستی کا انحصار صرف انھیں کی درستی پر ہے۔
یہاں مردِ مومن کے ایسے ہی معمولاتِ زندگی کے حوالے سے حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کہ یہ شعر یاد آرہا ہے
تابعِ حق دیدنش، نادیدنش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خوردنش، نوشیدنش، خوابیدنش
اور جب بندہ مومن اپنی مرضی کو یونہی مرضئی مولا میں گُم کر دیتا ہے ، تو پھر حدیث شریف کی رو سے اُسے یہ شان عطا ہوتی ہے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ غالب و کار آفریں ، کار کُشا، کار ساز
جزاک اللہ خیر
بھت خوب۔ آپ جیسے ایک محترم نے مجھے یاد دلایا تھا درج ذیل ہے
ھسپتال میں کام اپنی ڈیوٹی کے مطابق کرتے تھے کبھی کبھی ایکسٹرا دیوٹی لگ جاتی تو خوامخواہ ہم چیں بجیں ہو جاتے
کسی نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ جو بھی کریں اپنی ڈیوٹی میں اللہ کی خوشنودی ہی ہوتا ہے تو بجائے بے دلی سے کام کرنے کے آپ یہ کیوں نہیں سوچ لیتے کہ اللہ خوش ہوگا اس کام سے
یقین جانئے اس کے بعد ہم ھر کام میں خوشی محسوس کرنے لگے کیوںکہ آخر ہمارے کام کی نوعیت بھی ایسی ہے پھر ہم نے کبھی ایکسٹرا ڈیوٹی پہ ناک بھوں نہین چڑھایا
آپ کوئ بھی کام کرتے ہوں بس نیت اپنی یہ کرلیجئے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہے یہی بھائی اجمل کی اس تحریر کا مطلب ہے اورہم صرف اپنی نا علمی کی وجہ سے کتنے ہی ثوابوں سے محروم رہتے ہیں
اللہ اجمل بھائ آپ کو مزید توفیق عطا فرمائے