سُنا تھا کہ “ظُلم جب حد سے گذر جائے تو اللہ کا قہر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے”۔ فلک شگاف مہنگائی ۔ بجلی چوری اور غائب ۔ لوٹ مار کا بازار گرم ۔ دھماکے ۔ گولياں ۔ بت وقت بارشيں
کہيں يہ سب اللہ کا قہر ہی تو نہيں ؟
ہمارے کرتوت کيا ہيں ؟ لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک خاتون نے کتے کے آگے کھانا نہ ڈالنے پر 14 سالہ ملازم کو مبینہ طور پروحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ،جس سے بچے کی موت واقع ہو گئی،پولیس نے مقتول کے باپ کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔پولیس کو دی گئی درخواست کے مطابق
چنیوٹ کا رہائشی14سالہ تقی عثمان لاہور کے ایک پوش علاقے میں سعدیہ نامی خاتون کے گھر ملازم تھا ۔ سعدیہ تقی عثمان کو حکم دے کرکتے کو کھانا ڈالنے گھر سے چلی گئی ۔ واپسی پر اسے کتا بھوکا محسوس ہوا تو اس نے تقی عثمان کو کمرے میں بند کرکے مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے تقی عثمان کی موت واقع ہو گئی ۔ ہمسایوں کی اطلاع پر پولیس نے لاش برآمد کرکے اس کے باپ عطا محمدکو بُلا لیا اوراس کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دی ۔ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی
کیا انفرادی عمل پر قہر ہے, جب معاشرے میں سے اس عمل کے خلاف آواز بھی اٹھے؟
میری ناقص رائے میں قہر کا عمل 2005 کے زلزلہ سے شروع ہوا ، جب شہر والوں نے تو امداد شروع کی پر پاکستان کے گاؤں سے آوزیں آنا شروع ہو گئیں کہ وہ تو ہوتے ہی گناہگار ، اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کی گئیں کہ جیسے وہاں ٹکسالی تھی . پھر جب لال مسجد کا سانحہ ہوا تو لبرل اور مذہبی کی لڑائی تو ایک طرف ، دوسرے شہروں کے لوگوں نے مصّوم بچیوں کو “ڈشکریاں” کہ کر اس عمل کی کسی نا کسی حد تک تائید کی . پھر پچھلے سال جب گاؤں اور قصبوں کو سیلاب لے ڈوبا تو شہر والوں نے شروع کردیا یہ تھے ہی پانی چور ، پانی پر لڑتے تھے اب دیکھا نا پانی ہی گلے پڑ گیا . ڈرونز میں جب بے قصور مارے جاتے ہیں تو ہم انکی حالات کا خود ان کو ذمےدار ٹہرا کر خود آنکھ ، کان بند کر لیتے ہیں اور اب کراچی سے باہر کے لوگ وہاں لاشے گرنے پر یہی کہتے ہیں “یہ ہیں ہی اسی قابل ، بھتا خور اور بدمعاش قوم”….
ہم پر اجتمائی قہر کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اجتامی طور پر اجتمائی بہتان بازی جاری رہے گی .
ابو موسٰی صاحب
ميں عالِم فاضل نہيں ہوں مگر ميرے خيال ميں جب اکثريت يا تو گناہگار ہو يا گناہ کو قبول کرنے لگ جائے تو يہ اللہ کے قہر کو دعوت ہوتی ہے
Pingback: ظُلم جب حد سے گذر جائے | Tea Break
چند ماہ پہلے بھی اسی قسم کی خبر سنی تھی کیا یہ وہی ہے جس کا ذکر آپ کر رہے ہیں؟
اور نہ معلوم کتنے ہی اس قسم کے واقعات ہوتے ہوںگے جو آخبار یا پولیس تک نہیں پہنچتے
سچّی بات تو یہ ہے بھائ کہ میں پاکستان کی خبریں پڑھنے سے بہے گھبراتا ہوں بلکہ بیگم کو بھی منع کرتا رہتا ہوں ہمارے دل ایسی باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے ابھی میری آنکھوںمیں وہ سیالکوٹ والے بےقصور بچّون کی تصویر پھرتی ہے
آپ نے قومی ترانہ پڑھنے والی خبر لکھی تو بہتر محسوس کرتا ہوں ورنہ جی نہیں چاہتا آزادی مبارک کہنے کو۔ اتنا ضرور ہے کہ مجھے اپنا وہ جذبہ جو ۱۵ اگست ک یعنی ۱۹۴۷ میں میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا یاد آ جاتا ہے
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
يہ واقعہ کل يا پرسوں کا ہے پرانا نہيں ہے
جناب بھوپال صاحب ایک بات کی طرف ضرور اشارہ کروں گا …
جس وقت علامہ اقبال رح نے یہ لکھا تھا ..
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
تو علامہ ابول حسن ندوی نے بعد میں اس کی تشریح میں لکھا تھا کے یوروپ کا معاشرہ اس وقت تک ترقی کرتا رہے گا جب تک وہاں اجتماعی انصاف کا نظام موجود رہے گا …
اور یہ تو آپ نے خود بھی دیکھا ہے کے یوروپ کے لوگ باہر والوں کے لئے بھلے ہی تعصب رکھتے ہیں لیکن آپس میں مساوات اور انصاف سے رہتے ہیں …
حضرت علی کا قول ہے نہ .. کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں …
پاکستان میں انصاف اور مساوات لے آئین .. چاہے سیکولر نظام سے لی آئین یا اسلامی نظام سے … سب صحیح ہو جاۓ گا
نعمان صاحب
ميری دلی دعا ہے کہ يہ بات ميرے ہموطنوں کی اکثريت کو سمجھ آ جائے کہ انصاف ہونا چاہيئے خواہ مال جائے يا جان جائے
افتخار بھائی، دراصل یہ انفرادی غلطیاں ہی آخر کار اجتماعی بنتی ہے اسکی مثال تو ہمارے سامنے بلوچستان کا مسئلہ ہے کراچی میں خون کی ہولی ہے عذاب در عذاب کی وعید ہے لیکن ہم ابھی تک لمبی تان کے سوئے ہوئےہیں جبکہ ہمیں اس وقت اجتماعی استغفر کی ضرورت ہے۔ کہ اللہ تعالی ہم پر اپنا رحم و کرم کردے۔ آمین ثم آمین
جاويد اقبال صاحب
مثل مشہور ہے کہ ” روم جل رہا تھا اور نيرو بانسری بجا رہا تھا”۔ يہ نيرو ہر دور ميں ہوتا ہے ۔ اس دور ميں ہم ہيں