نقل کرنا چاہتا تھا حبیب جالب کے اشعار جو کل ورق گردانی کرتے ہوئے حسب حال محسوس ہوئے تھے مگر حالات نے دماغ نچوڑ ديا اور جو عرق نکلا اُس کے پسِ منظر ميں يہ موسيقی تھی
وہ ہم سے رُوٹھ گئی ہے
ہے کوئی جو منا کے لائے
وہ چھوڑ کر ہميں چلی گئی ہے
ہے کوئی جو اُسے واپس لائے
وہ ہم سے کيوں ہوتی ہے ناراض
ہم نے کبھی نہ کيا اُس پہ اعتراض
معمول اُس کا يہی ہے کئی سال سے کہ دن ميں چار پانچ بار روٹھ کے چلی جاتی ہے اور گھنٹے ڈيڑھ گھنٹے تک واپس آ جاتی ہے مگر کل سے نجانے اُس نے کس بات کا بُرا منايا کہ بار بار رُوٹھتی رہی مگر آج صبح کی ايسی گئی واپس آنے کا نام ہی نہ لے رہے تھی ۔ کئی بار اُس کے ميکے والوں کو ٹيليفون کيا ۔ مِنت سماجت کی پھر کہيں 12 بجے آئی ہے ۔ اللہ کرے اب نہ روٹھے ۔ کيا سمجھے خواتين و حضرات ؟
حبیب جالب کا کلام
کوئی دم کی رات ہے یہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کوئی پل کی بات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ رہیں گی قتل گاہیں
میں زمین کا آدمی ہوں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کام ہے زمیں سے
یہ فلک پہ رہنے والے [حکمران] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے چاہیں یا نہ چاہیں
نہ مذاق اڑا سکیں گے يہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری مفلسی کا جالب
یہ [زرداری کے] بلند و بام ایواں ۔ یہ [دنياوی پيروں کی] عظیم بار گاہیں
Pingback: چَوندے چَوندے شعر | Tea Break
اسلام آباد میں ہمارے گھر میں سنا ہے صرف صبح اور شام ایک ایک گھنٹہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب اچھے اشعار کا انتخاب ہے میڈم بجلی اور مسٹر زردآری کے لیے
ياسر صاحب
يا تو يہ پرانی بات ہے ۔ اگر نہيں تو وہ کسی خوش قسمت علاقے ميں رہتے ہيں يعنی اُس علاقے ميں وڈی بھاری کوئی شۓ رہندی اے