ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی ۔ 1984ء کاواقعہ ہے۔ میں غلام اسحاق خان صاحب، صاحبزادہ یعقوب خان ، ایچ یو بیگ صاحب اور جنرل عارف کے ساتھ پنسٹیک [PINSTECH] میں میٹنگ میں حصہ لینے گیا۔ میٹنگ کے بعد ہمیں نیو لیبز [New Labs] کا دورہ کرایا گیا وہاں ہاٹ لیب [Hot Lab] تھی جہاں تابکار اشیاء کا استعمال ہوتا تھا اور حفاظتی شیشے کے اندر ایسی اشیاء رکھی ہوئی تھیں اور باہر سے ایک مینوپلیٹر [Manipulator] کے ذریعے ان اشیاء کو ہلایا جا سکتا تھا ۔ یہ آلہ بس آپ پُتلی کے کھیل کی طرح سمجھ لیں جس میں ڈوریوں کی مدد سے پتلی کو نچایا جاتا ہے جبکہ اس آلہ میں دونوں ہاتھوں میں گرفت ہوتی ہے جن کی مدد سے شیشے کے پیچھے اندر کرین کی طرح اشیاء کو پکڑا جا سکتا ہے اور جائے مقررہ پر رکھا جا سکتا ہے ۔
غلام اسحاق خان صاحب نے اس محکمہ کے سربراہ سے کہا کہ وہ ذرا اس کو چلا کر دکھا دیں ۔ ان صاحب کا رنگ زرد ہو گیا اور کہا کہ وہ نہیں جانتے اور ٹیکنیشن جو یہ کام جانتا ہے اس کو آج آنے سے منع کر دیا تھا۔ غلام اسحاق خان صاحب ششدر رہ گئے اور مسکرا کر کہا کہ انہوں نے لاتعداد مرتبہ کہوٹہ میں ورکشاپوں کا دورہ کیا ہے وہاں تو محکمے کا سربراہ اپنے محکمے کے تمام آلات استعمال کر سکتا ہے۔ یہ میں نے پہلے دن سے ہی ہدایت کی تھی کہ محکمے کے سربراہ کا اپنے محکمے کے آلات سے پوری طرح واقف ہونا لازمی ہے۔تمام سائنسدانوں اور انجینئروں سے درخواست ہے اور نصیحت ہے کہ وہ اپنے محکمے میں استعمال ہونے والے آلات و ایکوپمینٹ سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں اور اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کی نگاہ میں باوقار اور باعزت رہیں۔ آپ کی عزت جب ہی ہوتی ہے جب دوسروں کو علم ہو کہ آپ اپنے کام سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں
Pingback: معمل میں عاملِ بے عمل | Tea Break
محترم، اچھی تحریر ہے۔ آپکی بات کچھ شعبہ جات تک تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسپیشلایزیشن کے اس دور میں ہر افسر و مینیجر سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ تمام آلات کو استعمال کرنا جانتا ہوگا ایک غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہوگا۔
Who provided Pakistan nuclear parts? Israelis!
http://www.youtube.com/watch?v=JbKVvN8-vCA
عدنان مسعود صاحب
آپ نے درست کہا ہے ليکن جس زمانے کی يہ بات ہے اُس زمانے ميں تعليم و تربيت يہی تقاضہ کرتی تھی ۔ ويسے ميری يہ تحرير يہ کسی اور کا خيال پيش کر رہی ہے
حسن صاحب
اصولی طور پر مجھے آپ کا يہ تبصرہ حذف کر دينا چاہيئے تھا
آپ کی اطلاع کيلئے بتا دوں کہ اسرائيل پاکستان پر نيوکليئر بم گرانے کی تو پوری کوشش کرے گا مگر پاکستان کو نيوکليئر پارٹس تو کيا کسی عام سی بندوق کے پارٹس بھی مہياء نہيں کرے گا ۔ اگر آپ پاکستانی ہيں تو کم از کم جھوٹ نہ پھيلايئے
حسن کے لیے
مجھے لگتا ہے کہ تم نے ویڈیو کلپ دیکھے بنا یہ لنک یہاں چسپاں کر دیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اسے پہلے دیکھ لیتے۔ اِس میں تمھارا خود ساختہ محب وطن امریکی ہیرو یہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکیوں کی درخواست پر پاکستان کو ایٹم بم کے پرزے فراہم کیے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن اگر ایک لمحے کے لیے اسے سچ بھی مان لیا جائے تو نیوکلیر پھیلاو کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان یا امریکہ جمع اسرائیل؟؟؟ یقینا پاکستان نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ۔ پھر سزا کسے ملنی چاہیے؟
ہاں اگر امریکہ نے بذریعہ اسرائیل پاکستان کی نیوکلیر مدد کی بھی ہو تو اس کے بدلے میں بہت سوویت یونین کے انہدام میں پاکستان کی کلیدی مدد بھی تو حاصل کی۔ اب یہ تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ضیا الحق مرحوم کے دور میں افغان جہاد کے دوران مکمل ہوا۔ اس سارے عرصے میں امریکہ صدر بڑی باقاعدگی سے امریکہ کانگرس کو سی آئی اے کے خفیہ رپورٹوں کی بنیاد پر یہ جعلی سرٹیفیکیٹ جاری کر تا تھا کہ پاکستان ایٹمی ترقی یا ایٹمی پھیلاو میں ملوث نہیں۔ اور عام طور پر سی آئی اے کی خبر گیری کرنے والی کانگرس بھی اپنے کان اور آنکھیں بند کرکے اس جعلی سرٹیفیکیٹ کو قبول کر لیا کرتی تھی۔
ہاں حسن ، یہ بھی دیکھو کہ اسی کلپ کے نیچےاسی یو ٹیوب چینل کے دو اور کلپوں کے لنک بھی دیے گئے ہیں جن میں تمھارا امریکی ہیرو یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اسامہ بن لادن نائن الیون تک امریکیوں کی ایجنٹی کر رہا تھا۔ اگر تم اسے بھی درست مان لو تو پھر نائن الیون کس نے کیا؟ یقینا امریکیوں نے خود ، یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے۔ پھر یہ وار آن ٹیرر کا سارا ڈرامہ کیوں؟؟؟؟؟؟
مکرمی افتخار صاحب قبلہ ۔۔۔۔ حسن کے تبصرے اور میرے جواب کو برداشت کرنے کا بہت شکریہ
غلام مرتضٰی علی صاحب
ميں مصروف تھا اسلئے زيادہ وقت دينا مناسب نہ سمجھا تھاآپ نے ميرے حصے کا کام کر ديا ۔ جزاک اللہ خيراٌ
ایک کمیرہ اور کچھ یہودی جہاں ہوں اور پاکستان کا ذکر کردیا جائے تو انکا نزلہ پاکستان میں سب سے زیادہ انکے من پسند موضوع پاکستانی قوم کے جوہری پروگرام پہ گرتا ہے۔
پاکستان کے مرزائین اسے پھیلانے اور پاکستان کے خلاف اپنا زہریلا پروپگنڈہ کرنے کا کام ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اور جب انکی جائز طور پہ گوشمالی کی جاتی ہے تو پھر ساری دنیا میں مطلومیت کیش کروانے کے لئیے اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔