اپنے معاشرے ميں جہاں اچھی روايات اور عادات پائی جاتی ہيں وہاں ميرے ہموطنوں کی بھاری تعداد ميں خواہ وہ کتنا ہی پڑے لکھے ہوں چند ايسی عادات پائی جاتی ہيں جو ميری سمجھ ميں آج تک نہ آسکيں
1 ۔ حقيقت کی نسبت افواہيں سننا زيادہ پسند کرتے ہيں ۔ اخباری اور ٹی وی بالخصوص بی بی سی اور اسی طرح کے فرنگی ذرائع ابلاغ پر بلا چُوں و چرا اعتبار کر ليتے ہيں مگر زمينی حقائق کو بغير غور و مطالعہ کے رَد يا نامنظور کر ديتے ہيں ۔ اگر کوئی اُن کی توجہ حقائق کی طرف دلانے کی کوشش کرے تو اُس کا تمسخر اُڑاتے ہيں ۔ بہت رعائت کريں تو کہہ ديں گے “کس دنيا ميں رہتے ہو ؟”
2 ۔ کوئی بات گھڑ کر دوسرے کو سنائيں گے ۔ سُننے والا شخص بغير غور اور تشخيص کے کسی دوسرے کو وہ من گھڑت خبر يا کہانی سنائے گا ۔ کچھ دن بعد ہر سننے اور سنانے والا اس من گھڑت خبر کو حقيقت ماننا شروع کر ديتا ہے
3 ۔ جو چيز ۔ جگہ يا ادارہ ايک شخص نے اندر تو کيا باہر سے بھی نہ ديکھا ہو گا اُس کے متعلق وہ غيرمصدقہ باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کرے گا
يہ بھولی بسری باتيں مجھے اسلئے ياد آئيں کہ کچھ ماہ قبل ايک بلاگ پر کچھ ايسے دلائل باوثوق طريقہ سے بی بی سی کے حوالے سے کچھ دلائلديئے گئے تھے جو زمينی حقائق سے ميل نہيں کھاتے تھے ۔ جس ادارے کا وہ ذکر کر رہے تھے ميں نے اپنی زندگی کا بہترين حصہ اُسی ادارے کی ملازمت ميں گذارا تھا
شايد جون يا جولائی 1965ء کی بات ہے کہ ميں کراچی ميں ورک سٹڈی ٹيکنيکس کورس کر رہا تھا ۔ ايک شام ميں اپنے ايک بزرگ جو 1947ء ميں حيدر آباد دکن سے ہجرت کر کے آئے تو کراچی ميں رہائش پذير ہو گئے تھے اُنہيں ملنے گيا ۔ اُن کے ساتھ اُن کے کوئی دوست بيٹھے تھے ۔ بزرگ نے ميرا تعارف اُن سے کراتے ہوئے کہا “يہ انجنيئر ہے اور پاکستان آرڈننس فيکڑيز ميں ملازم ہے”۔ موصوف طنزيہ بولے “وہ فيکٹری جو آج تک لِپ سٹک پاؤڈر کے علاوہ کچھ نہيں بنا سکی”
وہ بزرگ تھے اور ميری اُن سے جان پہچان بھی نہ تھی دوسرے ميں بداخلاق نہيں ہوں اسلئے خاموش رہا
بات ہے شروع 1970ء کی دہائی کی ۔ ميں واہ سے کسی ذاتی کام کے سلسلہ ميں راولپنڈی گيا اور واپس ويگن پر آ رہا تھا ۔ ميرے آگے والی نشست پر ايک صاحب بڑے وثوق کے ساتھ پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ويپنز فيکٹری کے متعلق باتيں کر رہے تھے ۔ ميں غور سے سُنتا رہا ۔ وہ صاحب کچھ خود ساختہ خامياں بتا رہے تھے اور کچھ ايسی چيزوں کا وہاں بننے کا ذکر کر رہے تھے جو وہاں کبھی نہيں بنيں تھيں ۔ جب من گھڑتی کی انتہاء ہو گئی تو ميں نے پوچھا “معاف کيجئے گا ۔ آپ ويپنز فيکٹری ميں کام کرتے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کبھی ويپنز فيکٹری کے اندر گئے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کو کوئی دوست يا رشتہ دار فيکٹری ميں کام کرتا ہے ؟”
جواب ملا “نہيں”
اس پر ميں نے کہا “ويپنز فيکٹری جس کا آپ ذکر کر رہے تھے ميں اس کا پروڈکشن منيجر ہوں”
اس کے بعد وہ صاحب چُپ بيٹے رہے
ويسے وہ زمانہ پھر بھی اچھا تھا ۔ آجکل تو لوگ اپنی غلط بات درست ثابت کرنے کيلئے جان لڑا ديتے ہيں
يہ بات 1990ء يا 1991ء کی ہے کہ ميں ايک دوست سے ملنے گيا جو ايم ايس سی انجنيئرنگ ہيں اور انجنيئرنگ کالج لاہور ميں ميرے ہمجماعت تھے ۔ اُن کے پاس ايک جوان بيٹھا تھا ۔ ميرے ساتھ عليک سليک کے بعد ميرے دوست نے اُس جوان سے کہا “تمہاری قسمت اچھی ہے ۔ اجمل صاحب آ گئے ہيں تم ان سے سيکھ سکتے ہو”
اُس جوان نے مايوس سی شکل بناتے ہوئے کہا “يہ نئی ٹيکنالوجی ہے ۔ بڑی عمر کے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے” اور اُٹھ کر چلا گيا
اُس کے چلے جانے کے بعد ميں نے اپنے دوست کو سواليہ نظروں سے ديکھا تو وہ بولے “ہمارے ہمسائے کا بيٹا ہے ۔ بدقسمت ہے ۔ آج کے جوان اپنے آپ کو بہت ذہين اور عِلم والا سمجھتے ہيں ۔ کمپيوٹر کے بارے ميں بات ہو رہی تھی اور کہہ رہا تھا کہ ميں سيکھنا چاہتا ہوں مگر پاکستان ميں اس ٹيکنالوجی کا اُستاد نہيں ہے جو مجھے سمجھا سکے اور ميرے سوالوں کا جواب دے سکے”
(ميں نے پوچھا “آپ کبھی ويپنز فيکٹری کے اندر گئے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کو کوئی دوست يا رشتہ دار فيکٹری ميں کام کرتا ہے ؟”
جواب ملا “نہيں”
اس پر ميں نے کہا “ويپنز فيکٹری جس کا آپ ذکر کر رہے تھے ميں اس کا پروڈکشن منيجر ہوں”)
ہی ہی ہی ـ بہت خوب جواب تھا آپ کا ـ
Pingback: سمجھ سے باہر | Tea Break
مزیدار تحریر ہے۔
ویسے آپ آرڈننس فیکٹری میں اتنا عرصہ ملازم رہیں ہیں اس کی تاریخ ، کامیابیوں اور ناکامیوں کے متعلق کیوں نہیں لکھتے؟
شعيب صاحب
يہ ہند و پاکستان ميں جو لوگ بستے ہيں نا ۔ ان کی اکثريت کی ايسی ايسی عادات ہيں کہ کيا بتاؤں ۔ ميں بک بک سے بچنے کيلئے نہيں لکھتا ۔ ايک بار ايک صاحب کسی کو عربی کے فقرہ کا مطلب غلط بتا رہے تھے ۔ کراچی ميں ميرے چھوٹے بيٹے کے نکاح پر نکاح خواں نے گواہ کے طور پر ميرے بڑے بيٹے “زکريا ” کا نام ” ذکريا ” ۔ ميں نے تصحيح کرنا چاہی تو بولے ” آپ نہيں جانتے ۔ يہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اسی طرح لکھا جاتا ہے”۔ اور درست نہ کيا ۔ محترم اُردو دان تھے ۔ اب ميں اُن کو کيسے سمجھاتا کہ يہ لفظ قرآن شريف ميں ” زکريا ” لکھا ہوا ہے اور يہ کہ يہ عربی زبان کا لفظ نہيں ہے
فارغ صاحب
ميں نے يکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ملازمت شروع کی ۔ 53 سال کی عمر ميں 3 اگست 1992ء کو ريٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ پھر 4 اگست 1992ء سے مزيد 2 سال مجھے پاکستان آرڈننس فيکٹريز کے ايک نجی پروجيکٹ کيلئے واپس بُلايا گيا تھا ۔ فيکٹری ميں ميری ناکامياں اور کاميابياں اب قصہ ءِ پارينہ ہو چکا ۔ کاميابيوں کا لکھوں تو قارئين کہيں گے “اپنے مُنہ مياں مِٹھو”۔ ناکاميوں کا لکھوں تو بہت سے پردہ نشينوں کے نام آ جائيں گے اور سوئے ہوئے شيروں کو جگانا عقلمندی نہيں ہے
کیا کریں ۔ ۔ ۔ عادت سے مجبور ۔ ۔ ۔
آپکی بات میں اتفاق کرتاہوں کہ لوگ ایسے ہی ڈینگیاں مارتےہیں لیکن آپ کواپنے ان تجربات کےمتعلق لکھناچاہیے کہ کیسےتھے کیونکہ ان سےہمارے علم میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کی وجہ سےناں لکھنابہت ہی ناانصافی ہے لوگ توبہت کچھـ کہتےہیں آپ پلیزان کے متعلق لکھیں۔
حضرت آپکے نکتہ نمبر تین سے تو روز میرا واسطہ پڑتا ہے ۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ جو کچھ دوسروں کو کہتے رہتے ہیں وہ تمام برائیاں آپ میں بدرجہ اتم موجود ہیں،ورنہ آپ میرے سوالات کا جواب دیتے اور میرے تبصرے کو ڈلیٹ نہ کرتے
سعيد احمد صاحب
آپ نے تبصرہ کے خانہ سے اُوپر تحرير اصول کو مکمل طور پر نظر انداز کيا تو مصنف نے اپنا واضح کردہ حق استعمال کيا ۔ اب بھی آپ نے ميری ذات پر حملہ کيا ہے
آپ کے حذف شدہ تبصرہ ميں ذاتی حملوں کے علاوہ يہ بھی لکھا تھا کہ ميں نے کسی کے بلاگ پر آپ کے لکھے ہوئے سوالات کا جواب 2 دن ميں نہيں ديا ۔ گو آپ کے سوالات تعصب اور بُغز کی پيداوار تھے ليکن کيا ميں آپ کی ہر جائز و ناجائز بات کا جواب دينے کا پابند ہوں اور وہ بھی 2 دن کے اندر ؟
کيا ميں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ 1984ء ميں آپ کی عمر کيا تھی ؟ ميں 1984ء اور 1985ء ميں کراچی ميں تھا اور جو کچھ الطاف حسين کے چيلوں نے کيا ميں نے اپنی آنکھوں سے ديکھا تھا ۔ ان واقعات کے بعد ميں نے اپنے آپ کو مہاجر سمجھنا بند کر ديا تھا ۔
ایک درستگی
میرا مقصد آپ کو آرڈیننس فیکٹری کی تاریخ کی بابت اور اس کی کامیابی اور ناکامی تھا نہ کہ آپ کی یا کسی اور کی ذاتی کامیابی ناکامی۔
میں 1984 میں 25 سال کا تھا،اور جو جھوٹی داستانیں آپ سناتے ہیں انکے اصل حقائق کا چشم دید گواہ بھی ہوں،
سوالوں کے جواب اب بھی نہیں ملے،
آپ میری ہر جائز اور ناجائز بات کا جواب دینےکے پابند ہر گز نہیں ہیں مگر جو دوسروں کو نصیحتیں فرمایا کرتے ہیں ان پر خود عمل کرنے کے پابند ضرور ہیں،اخلاقی طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر آپ تو مسلمانوں کو صوبوں اور زبانوں میں تقسیم کرنے کے بعد اب اصلی اور نقلی مہاجرمیں تقسیم کرنے کی کاروائیوں میں مصروف ہیں،
ویسے یہ خوب ہے کہ پنجابی مجرموں کو برا کہا جائے تو تعصب،پٹھان دہشت گردوں کی حقیقت بتائی جائے تو تعصب،اور آپ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت جو اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت بھی ہے کے بارےمیں جھوٹ بولیں نفرت کا اظہار کریں تو یہ ہرگز تعصب نہیں بلکہ آپکی حب الوطنی اور مسلمانیت کہلائے یہ بات مجھ کم عقل کی سمجھ سے تو باہر ہے
سعيد احمد صاحب
اگر آپ کا خيال ہے کہ کسی کو آپ سے کسی سند کی ضرورت ہے تو بيشک اس خوش فہمی ميں مبتلاء رہيئے ۔ ميری صحت پر کوئی اثر نہيں پڑے گا ۔ عبداللہ سے آپ سعيد احمد بن گئے ہيں ۔ ويسے آپ کی حقيقت کا اندازہ مندرجہ ذيل معلومات سے ہو جاتا ہے
Behavior from the IP address is consistent with that of a mail server and dictionary attacker. Below is some other data associated with this IP.
Geographic Location: [Saudi Arabia] Saudi Arabia (Riyadh, Ar Riyad)
First Received From: approximately 3 years, 5 months, 5 weeks ago
Last Received From: within 4 months, 3 weeks
Number Received: 105 email(s) sent from this IP
Dictionary Attacks: 12 email(s) sent from this IP
First Received From: approximately 3 years, 3 months, 4 weeks ago
Last Received From: within 3 years, 3 months, 4 weeks