ہمارے موجودہ حکمران اتنے زيادہ عوامی اور حق پرست ہيں کہ ارد گرد وقوع پذير ہونے والے بھيانک مناظر سے عوام کی توجہ ہٹانے کيلئے گھر بيٹھے بٹھائے اُن پر بجلی کے بلوں کے ذريعہ اُنہيں مدہوش رکھتے ہيں تاکہ ان کی صحت پر ارد گرد کے ماحول کا بُرا اثر نہ ہو
اخبارات ميں چھپ رہا تھا مگر جب ہفتہ قبل بجلی کا بل ماہِ جون کا آيا تو يہی سوچتے رہے کہ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کيونکہ حکمران تو غلطی کر نہيں سکتے ۔ يہ الگ بات ہے کہ اُنہيں نہ کوئی کرايہ دينا پڑتا ہے اور نہ گيس ۔ ٹيليفون يا بجلی کا بل اور نہ پٹرول کی قيمت ۔کھانے پينے سميت اُن کے سب اخراجات عوام کی جيبوں سے نکالے پيسوں سے ادا ہو جاتے ہيں ۔ 3 دن مدہوش رہنے کے بعد خيال آيا کہ وجہ پچھلے بِلوں ميں تلاش کی جائے
موازنہ ۔ حال اور ماضی
اطلاع ۔ مندرجہ ذيل قيمتيں بشمول ٹيکس اور سرچارج ہيں
بجلی کے يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 2005ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2008ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2011ء
پہلے 100 يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 284.51 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 354.20 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 533.45 روپے
بعد کے 200 يونٹ ۔ ۔۔ 775.34 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 938.40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1612.10 روپے
بعد کے 400 يونٹ ۔ ۔۔ 2263.20 ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 2838.00 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5005.52 روپے
بعد کے 300 يونٹ ۔ ۔۔ 1697.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2128.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4684.74 روپے
بعد کے 100 يونٹ ۔ ۔۔ 680.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 709.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1561.58 روپے
1100يونٹ کی قيمت ۔ 5700.85۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4968.60۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13397.39 روپے
دوسرا گورکھدہندہ کہ بجلی کی يونٹيں يکدم اتنی زيادہ کيسے ہو گئيں ؟
يونٹوں کی تعداد اسلئے ڈيڑھ گُنا ہو گئی ہے کہ پوٹينشل ڈِفرينس جسے عام زبان ميں وولٹيج کہا جاتا ہے وہ پچھلے ايک ماہ ميں 180 سے 150 وولٹ تک رہی جبکہ 240 سے 220 وولٹ تک ہونا چاہيئے ۔ مطلب يہ ہوا کہ پاور فَيکٹر جو 0.9 ہونا چاہيئے بہت کم رہا ۔ جتنا پاور فيکٹر کم ہو گا ميٹر اتنا ہی تيز چلے گا ۔ سادہ الفاظ ميں اگر کسی نے حقيقت ميں 1000 يونٹ کی بجلی استعمال کی تو 180 سے 150 وولٹيج ہونے کی وجہ سے ميٹر ريڈنگ 1335 سے 1600 يونٹ ہو گی ۔ اس کُليئے کے تحت ہمارے جون 2011ء کے بل ميں جو ہميں ہفتہ قبل موصول ہوا 1535 يونٹ لکھے گئے ہيں ۔ اگر وولٹيج درست يعنی 240 سے 220 تک ہوتی تو ہمارے يونٹ 1000 کے قريب ہوتے
بجلی کم سپلائی کيوں ؟
کيپکو کے ايم ڈی نے بتايا ہے کہ بجلی پيدا کرنے کی صلاحيت طلب کو پوراکر سکتی ہے ۔ پيداوار ميں کمی کا سبب واجبات نہ ادا کرنا ہے جو کہ کھربوں روپے ہيں جس کے نتيجے ميں کيپکو بجلی پيدا کرنے والے اداروں کو ادائيگی نہيں کر پاتی اور بجلی پيدا کرنے والے استداد کے مطابق پيداوار نہيں کر سکتے ۔ ايک عرصہ سے مندرجہ ذيل حکومتوں اور اداروں کے ذمہ 4 کھرب 23 ارب يعنی 423000000000 روپے کيپکو کا واجب الادا ہے جو عوام کی مصيبتوں کا اصل سبب ہے
وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے ۔ 3 کھرب يعنی 300000000000 روپے
حکومت پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ارب ۔ يعنی 9000000000 روپے
حکومت سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
حکومت خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36 ارب يعنی 36000000000روپے
جناب اس گورکھ دھندے کو آسان بنانے کا بہت بہت شکریہ۔ میں بھی حیران تھا کہ ہمارا بجلی کا بل اتنا زیادہ کیوں آرہا ہے۔
منير عباسی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ
ایسی معلومات افزا تحریر لکھنے کا بہت شکریہ
یہ بتائیے کہ کیا کیپکو یا پیپکو قانونا ہمیں 220 وولٹ بجلی فراہم کرنے کی پابند نہیں۔ اگر وہ وولٹیج میں کمی کرتی ہے تو کیا یہ ہمارے اور پیپکو کے درمیان غیر رسمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اسے ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
بارِ دگر شکریہ
غلام مرتضٰی علی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ ۔ آپ نے درست کہا ہے کہ پيپکو صارفين کو کم از کم 220 وولٹ والی بجلی مہياء کرنے کی پابند ہے مگر ۔ ۔ ۔
بجلی کا بل زيادہ کيوں؟
اسلئیے کہ پاکستان جو ہمارا پیارا وطن تو ہے مگر وہاں شریف آدمی اور شریف صارف کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ تو بجلی نہ دے کر بھی بل کا مطالبہ کردیں تو بے چارے عوام انکا کیا بگاڑ لیں گے؟۔
بہت باریک بینی سے نہایت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔بدقسمتی سے اس استحصال کے رکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ خدشہ یہی ہے کہ مستقبل کے حکمران بھی انہی استحصالی حربوں کو جاری رکھیں گے تا وقتیہ کہ عوام اس لوٹ مار کو اپنا مقدر سمجھنا بند کر دیں۔۔