سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد۔ ان میں ۔ تو نکلیں گے تھوڑے جواں مرد۔ ان میں
نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیّت کا
نہ کوشش کی ہمت نہ دینے کو پیسہ ۔ ۔ ۔ ۔ اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا
جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے ۔ ۔ پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خوابِ گراں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو ۔ ۔ ۔ کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
بُرا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے
غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں ۔ ۔ ۔ بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں
مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر
رہو گے یو نہی فارغ البال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
Pingback: احوالِ قوم ۔ جديديت | Tea Break