ميرا دماغ سُن ہے ۔ پچھلی 2 راتيں سو نہيں سکا ۔ سوچ سوچ کر درد سے سر پھٹا جا رہا ہے ۔ ميرے رب ۔ يہ زمين کيوں نہيں پھٹ جاتی ؟ کيا قيامت آنے سے قبل اس سے زيادہ بھی کچھ ديکھنا باقی ہے ؟
اخروٹ آباد ميں 2 مردوں اور 3 عورتوں جن ميں ايک 7 ماہ کی حاملہ تھی کے محافظينِ عوام کے ہاتھوں بيہيمانہ قتل کی ابتدائی تحقيقات بھی ابھی مکمل نہيں ہوئيں کہ کراچی کے پُر رونق علاقہ ميں ايک نوجوان کو عوام کے محافظين نے نہائت سفّاکی کے ساتھ قتل کر ديا ۔ ميں سوچتا ہوں کہ کلفٹن کا علاقہ جہاں آدھی رات تک گہما گہمی رہتی ہے وہاں مقتول ۔ 6 وردی والوں اور دلير کيمرہ والے کے علاوہ کوئی انسان موجود نہ تھا کہ اس بے بس نوجوان کی جان بچانے کی کوشش کرتا ؟ کيا ميرے سب ہموطن اپنے جسم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے اہل نہيں رہے ؟ اس لحاظ سے تو لاہوری قابلِ تحسين ہيں کہ اُنہوں نے ريمنڈ ڈيوس کو گھير کر پوليس کے حوالے کر ديا تھا ورنہ وہ دو جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بھاگ گيا ہوتا
اگر کوئی فرد يا ادارہ برائی پھيلاتا ہے تو اس کا يہ مطلب نہ لينا چاہيئے کہ جو کام وہ اچھا کرے اُسے بھی بُرا سمجھ کر اس کی تعريف نہ کی جائے ۔ ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ بلاشبہ بُرائيوں کے فروغ ميں ممد رہے ہيں مگر دورِ حاضر ميں لائقِ تحسين ہے اِن کا ايک کردار کہ صحافی اپنی جانوں کو خطرہ ميں ڈال کر اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے مُلک کے بے سُدھ عوام کو حقائق تک رسائی دے کر نيند يا نشہ سے جنجوڑنے کی ارادی يا غير ارادی کوشش کر رہے ہيں
ميں پچھلی 4 دہائيوں سے ديکھتا آ رہا ہوں کہ ميرے ہموطنوں کی اکثريت اُسے دہشتگرد کہتی ہے جسے امريکا دہشتگرد کہے ۔ نہ کوئی تاريخ ميں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ حقيقت کی جُستجُو کہيں نظر آتی ہے ۔ معاشرہ خود غرضی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے ۔ بُغظ اور تعصب کی عينک پہن رکھی ہے ۔ دو ٹکے زيادہ کما ليتے ہينں تو سمجھتے ہيں کہ انسان بن گئے ۔ انسان بننے کے تقاضے کيا ہيں ؟ اس سے اُنہيں کوئی دلچسپی نہيں ہے ۔ صرف زبانی بيان بازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پھولے نہيں سماتے ۔ اگر طالبان ۔ القاعدہ ۔ مُلا اور ہر مسجد ميں جانے والے کو گالياں اور بد دعائيں دينے کی بجائے موجودہ حالات کے سبب کی تلاش کرتے تو شايد ہمارا مُلک ان حالات سے دو چار نہ ہوتا جيسا اب ہے ۔ کسی نے اتنا بھی سوچنے کی زحمت نہ کی کہ صرف 8 سال قبل ايسا کچھ نہ تھا تو پھر يہ حالات کيونکر پيدا ہوئے کہ انسانی بم انسانوں کی موت کا سبب بننے لگے ؟
سُنا اور پڑھا بھی يہی تھا کہ عِلم آدمی کو انسان بناتا ہے اور عِلم کی ضد آدمی کو وحشی ۔ اللہ کے فرمان اور اس کی نبيوں عليہم السلام کے ذريعہ مہياء کی گئی عملی تربيت سے معلوم ہوا کہ صرف عِلم نہيں بلکہ عِلمِ نافع آدمی کو انسان بناتا ہے ورنہ عِلم آدمی کو درندہ بنا سکتا ہے ۔ اس فلسفہ کی شايد سمجھ نہ آتی اگر ميں دورِ حاضر سے قبل ہی اس دنيا سے چلا جاتا
پچھلے چند ہفتوں ميں منظرِ عام پر آنے والے اخروٹ آباد اور کراچی کے واقعات کو ذہن ميں رکھ کر بلوچستان ۔ مالاکنڈ ۔ سوات اور باجوڑ وغيرہ پر غور کيا جائے تو ايک واضح تصوير سامنے آتی ہے کہ دہشتگرد کيسے اور کيونکر پيدا ہوئے ؟ اگر ايک کمسِن لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائی گھر ميں بيٹھے يا سوئے ہوئے اچانک کسی فوجی کاروائی يا ڈرون سے پھينکے گئے مزائل کے نتيجہ ميں ہلاک ہو جائيں تو کيا وہ بچہ پھولوں کے ہار لے کر دوسروں کو پہنانے جائے گا يا پہلا موقع ملتے ہی جس کسی کو دشمن سمجھے گا ہلاک کر دے گا خواہ اس کيلئے اُسے اپنے جسم کو ہی بم بنانا پڑے ؟
صرف حکومت کو بُرا کہنے سے کوئی آدمی بری الذمہ نہيں ہو جاتا ۔ گو ہمارے ہاں رواج ہو گيا ہے کہ حکومت ميں شامل ہوتے ہوئے عوام کو بيوقوف بنانے کيلئے ذرائع ابلاغ کے سامنے تقارير کی جاتی ہيں کہ “ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہيں ۔ يہ وہ يہ ۔ وغيرہ”۔ [My Foot] ۔ جس عمل کا مطالبہ عوام کے سامنے کرتے ہيں وہ اگر حکومت ميں ہوتے ہوئے پورا نہيں کر سکتے تو حکومت ميں کس لئے شامل ہيں ؟ وزاتيں چھوڑيں اور حزبِ اختلاف ميں شامل ہو کر مطالبات کريں
درست کہ 3 کروڑ 70 لاکھ جعلی ووٹوں کا اندراج کر کے پرويز مشرف نے کيو ليگ ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کو زيادہ نشستيں حاصل کرنے کے قابل بنايا ۔ [ن ليگ ميرے چچا کی نہيں ہے ۔ وہ ان دنوں زيرِ عتاب تھی] مگر سب لوگ تو جعلی ووٹوں سے کامياب نہيں ہوئے ہونگے ۔ جن اصلی ووٹروں نے کامياب ہونے والے حکمرانوں کو ووٹ ديئے وہ بھی موجودہ حالات کے ذمہ دار ہيں ۔ بات صرف اتنی نہيں ہے ۔ جن ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارہ نہيں کی وہ سب سے بڑے مجرم ہيں موجودہ حالات کے کيونکہ وہ اکثريت ميں ہيں
حکومت اور انتخابِ حکومت کے علاوہ بھی تو عوام کے روز مرّرہ کے فرائض ہيں مگر حالت يہ ہے کہ اپنے جائز حقوق اور ناجائز خواہشات حاصل کرنے کيلئے ناجائز ذرائع کو درست سمجھا جاتا ہے مگر دوسرے کے حق کو نہ صرف نظر انداز کيا جاتا ہے بلکہ دوسرے کا حق چھيننے کو ہوشياری اور عقلمندی [Tactfulnees & wisdom] کا نام ديا جاتا ہے ۔ معاشرے ميں بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سامنے ايک آدمی ظلم کا شکار ہو رہا ہو تو اُسے بچانے کی بجائے کھڑے ہو کر اس ظُلم سے محظوظ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ايسی بھيڑ ميں کچھ لوگ ٹھٹھا کرتے بھی ديکھے جاتے ہيں ۔ دوسری طرف حالت يہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ايک تا ايک درجن بسيں جلا دی جاتی ہيں اور دوسری املاک کو بھی نقصان پہنچايا جاتا ہے ۔ مگر دعوے انسان دوستی اور حق پرستی کے کئے جاتے ہيں
يا ميرے مالک و خالق ۔ اے مجھ پر ہميشہ اپنا کرم کرنے والے ميرے اللہ ۔ قبل اس کے کہ ميں ايسے خبيث معاشرے کا حصہ بن جاؤں مجھے اس دنيا سے اُٹھا لينا
تُو رحيم و کريم ہے مگر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت تيرے غلاموں کے اوقات
Pingback: وطن ۔ معاشرہ ۔ اور دہشتگردی | Tea Break