بُشرف ميرے مُلک کا کمانڈو
نظر ميں اُس کی پاکستان تِنکا
کولن پاول نے کيا جو ٹيليفون
گيلی ہو گئی تھی اسکی پتلون
اور وہ زميں پر اَوندھا گر پڑا تھا
بيلسٹک مزائل “غوری ۔ 1” جس کی [range] مار 1500 کلو ميٹر تھی کی تجرباتی پرواز 6 اپريل 1998ء کو ہوئی تھی ۔ اُن دنوں ليفٹنٹ جنرل پرويز مشرف کور کمانڈر منگلا تعينات تھا ۔ اُسے شرکت کی دعوت دی گئی ۔ وہ آيا [نشے ميں دھت تھا] تو ڈاکٹر عبدالقدير خان نے اُسے کہا “ہم قرآن شريف کی آيات کی تلاوت کر رہے ہيں ۔ مکہ مکرمہ ميں حج ادا کيا جا رہا ہے اور آپ کس حال ميں يہاں آ گئے ہيں ؟”
بعد ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو جنرل بنا کر فوج کا سربراہ بنا ديا
12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرويز مشرف نواز شريف کی جمہوری حکومت کو ختم کر کے خود حکمران بن بيٹھا
مئی 2000ء ميں جب دُور مار [Long range] ميزائل “غوری ۔ 3″ پر 50 فيصد کام مکمل ہو چکا تھا تو
جنرل پرويز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدير خان سے کہا ” تُم اسرائيل کو تباہ کرنا چاہتے ہو ؟”
اور کے آر ايل کے فنڈز منجمد کر ديئے جس سے سارا کام بند ہو گيا
جنوری 2004ء ميں پرويز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدير خان سے تمام اختيارات واپس لے لئے اور اسے مع 7 يا 11 دوسرے انجنيئروں کے جن ميں کے آر ايل کے علاوہ پاکستان اٹامک انرجی کميشن کے سلطان بشيرالدين محمود سميت کچھ اور لوگ بھی تھے زيرِ حراست کر ديا گيا
فروری 2004ء ميں پرويز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدير خان کو ٹی وی پر اقبال جُرم کا ايک بيان پڑھنے پر مجبور کيا
بعد ميں ايک سی ۔ 130 ہوائی جہاز تيار کيا گيا جس پر ڈاکٹر عبدالقدير خان کو امريکا کے حوالے کرنا تھا ۔ اس حوالگی کے حُکمنامہ پر اس وقت کے وزير اعظم مير ظفر اللہ جمالی صاحب نے دستخط کرنے سے انکار کر ديا جس سے ڈاکٹر عبدالقدير خان تو بچ گئے مگر پرويز مشرف اور مير ظفر اللہ جمالی صاحب کے درميان بھی اختلاف پيدا ہو گيا ۔ اختلافات بڑھتے گئے ۔ ان اختلافات اور امريکا کے دباؤ کے تحت پرويز مشرف نے اپنے ہی منتخب کردہ وزيرِ اعظم مير ظفر اللہ جمالی کو 26 جون 2004ء کو وزارتِ عظمٰی سے ہٹا ديا
يہ ايک معمولی سی جھلک ہے کاغذ کے بے شمار ٹکڑوں پر ڈاکٹر عبدالقدير خان کی اپنے قلم سے تحرير اپنی يادداشتوں کی جسے ايک لکھاری عبدالجبار مرزا نے مجتمع کر کے 28 مئی 2011ء کو يومِ تکبير کے موقع پر ايک کتاب کی صورت ميں شائع کيا ہے
حوالہ يہاں اور يہاں ہے
Pingback: مُشرف ۔ جمالی اور ڈاکٹر عبدالقدير خان | Tea Break
پرویز مشرف نے پاکستان کے جسد پر وہ زخم لگائے ہیں جن پر آج مرہم رکھیں تو نجانے کتنے عشرے لگیں انھیں بھرنے میں…پرویز مشرف کے لئے میرے جذبات ناقابل بیان اور ناقابل اشاعت ہیں. الله ہی اس سگ ابلیس کو سزا دے تو دے ،دنیا کی کوئی بھی سزا اور کوئی ہولناک اذیت اسکے جرائم کی سزا نہیں بن سکتی.
ہماری تاریخ میں کئی نام میر جعفر اور میر صادق جیسے موجود ہیں ایسے سیاہ کردار لوگوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا چلا جا رہا ہے
مخلص محب وطن مسلمان کم ہی نظر آتے ہیں اور ایسے افراد کو ہم میڈیا کہ ذریعے ہیرو سمجھتے ہیں اور ایسا ہی بنتے جا رہے ہیں
میڈیا اخلاق کی تباہ کاریوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے اور دکھاوے کے طورپر عوام کی آواز اٹھا رہی ہے
سیاست میں انقلاب کا نام لے کر اپنا الو ہر کوئی سیدھا کر رہا ہے
کہیں انقلاب کی آواز ہے تو کوئی تبدیلی کا دعویدار تو کوئی کہتا ہے مجھے حکومت دو تو یہ سب بدل دوں گا جب کے 2 بار بھگت چکے ہین
مشرف صاحب اپنی غلطیوں پر معافی مانگ کر رقاصاؤں اور آرٹ کے نام لے کر ملک میں عریانیت و فحاشی کو پھیلانے والوں کو ساتھ ملا کر پھر سے ملک کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا مقصد تو خدمت ہی ہے پر جانے کس کی آنا چاہتے ہیں
عوام کو کسی سے غرض نہیں
وہ پہلے بھی گالی دیتے تھے آج بھی دیتے ہیں اور شائد یہی ان کا مستقبل بھی ہو
جب تک ہم خود اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکیں گے ہمارے نظام مین بھی تبدیلی نہیں آئے گی
یہ سب بڑھتا ہی جائے گا
تحریم ، ….مخلص محب وطن مسلمان کم ہی نظر آتے ہیں …. معذرت کے ساتھ ، کیا مخلص محب وطن ہونے کے لیے *مسلمان* کے شرط لازم ہے ؟
پرویز مشرف نے ملک پاکستان کو جس ڈگر پر ڈال دیا ہے۔اس سے پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو چکا ہے۔
تحريم صاحبہ
آپ نے درست کہا ہے ۔ اللہ کا فرمان تو کبھی غلط نہين ہو سکتا ۔ اس سلسلے ميں دو آيات ميرے بلاگ کے سرِ ورق پر بائيں حاشيہ ميں نقل کی ہوئی ہيں
مشرف پاکستانی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرف کے کارناموں کی طویل فہرست کے باوجود دی نیوز والے صفحے پر سات میں سے دو تبصرے مشرف کے حق میں ہیں۔ اور ان میں سے ایک میں تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو برا قرار دے دیا گیا ہے۔
آپ درست کہتے ہیں؛ واقعی پاکستانیوں کی یادداشت بہت کمزور ہے۔
اللہ رحم فرمائے، آمین۔
محمد سعد صاحب
ايک تو امريکا نواز ہر حکومت کے غمخوار نجم سيٹھی ہيں ۔ دو تيں اور بھی ہيں