جب میں مسلم ہموطنوں کے طور طریقوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی رہ جاتا ہوں
کھانے کو روٹی ملے نہ ملے مگر ناک اتنی اُونچی کہ ہر وقت کٹنے يا کہيں پھنسنے کا خدشہ
رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا اُمتی ہونے پر فخر مگر اطوار میں مشابہت برہمن سے ۔ کسی کو حقیر بتانا ہو تو تیلی ۔ جولاہا ۔ درزی ۔ کمہار ۔ لوہار ۔ دھوبی ۔ موچی ۔ ترکھان یا مزارع کہہ دیا
سوچتے نہیں کہ
تیلی نہ ہوتا تو مچھلی ۔ پکوڑے ۔ وغیرہ کس میں تل کر مزے لیتے ؟
جولاہا نہ ہوتا تو کیا یہ خود جولاہے بنتے یا ننگے پھرا کرتے ؟
درزی نہ ہوتا تو آئے دن کے بدلتے فيشنوں کے کپڑے کیسے پہنتے ؟
کمہار نہ ہوتا تو کھانا ہتھیلی یا درختوں کے پتوں پر رکھ کے کھاتے ؟
لوہار نہ ہوتا تو پیدل ہی چلا کرتے اور ابھی تک غاروں میں رہ رہے ہوتے
دھوبی نہ ہوتا تو اپنے تمام کپڑے خود ہی دھویا کرتے
موچی نہ ہوتا تو ننگے پاؤں کتنا چل پاتے ؟
ترکھان نہ ہوتا تو پلنگ ۔ صوفے ۔ کُرسیاں اور میز کہاں سے آتے ؟
مزارع نہ ہوتا تو پيٹ کو کيا پتھروں سے بھرتے ؟
جھاڑو لگانے اور کوڑا کباڑ اُٹھانے والے کو تو آدمی ہی نہیں سمجھتے
حالانکہ ہر آدمی روزانہ رفع حاجت کے بعد اپنے جسم سے گندگی اپنے ہی ہاتھ سے صاف کرتا ہے ۔ کیا یہ کام بھی کسی اور سے کراتے ہیں ؟
کچھ ہموطن اپنی بڑھائی جتانے کے لئے اپنے وطن کی اشیاء کو بھی حقیر بتاتے ہیں
بچوں کو انگریزی نام کے سکول میں داخل کرايا جاتا ہے خواہ فیس پوری کرنے کے لئے جان لڑانی پڑے يا حرام کمانا پڑے
انگريزی ضرور بولنا ہوتا ہے خواہ ايک فقرہ بھی درست نہ بول سکيں
اپنے مُلک کی بنی چيز کو کوئی ولائتی کہہ کر بيچے تو دوگنا قيمت پر لينے کو تيار
مکئی کے پھُلے نہیں کھاتے مگر پوپ کورن کھاتے ہیں
بہت لمبی فہرست ہے ۔ کہاں تک سُنيں گے ؟ کیا کیا بتاؤں ؟
اللہ کریم ہم سب کو حقیقت کو سمجھنے اور درُست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ کریم کے فضل اور اُسی کی دی ہی توفیق سے میں نے ہر قسم کا کام ایک بار ضرور کیا ہے ۔ اِس میں تیلی اور جولاہے کے کام [کہ جن کا موقع نہ ملا] کے سوا باقی سب کام شامل ہیں
انکل جی بہت اچھی باتیں لکھی آپ نے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر رجحان ایسا ہی جیب میں بھلے پھوٹی کوڑی نہ ہو لیکن ناک اونچا ہی رکھنا ہے ۔ اور جب اللہ پاک نے تمام انسانوں کو ایک جیسا ہی پیدا کیا ہے تو بڑائی کس بات کی ؟
اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے اور ہمیں ہدایت دے
آمین
آپ ہمارا دھرم نشٹ نہ کریں جی
ویسے مکئی کے پھلے تو نہیں مکئی کے بھنے دانے کھانے کا بڑا دل کر رہا ہے۔
انکل جی میں آپکے قلم سے کچھ خاص کی امید کررہا ہوں لیکن آپ لائٹ موضوعات کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔
کیا آپ آجکل کے ہاٹ ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتے یا اسے کسی قابل نہیںسمجھتے ۔
امید ہے کہ آپ میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہونگے۔ کچھ حوالوں سے بات کیجئے تاکہ ہم آپ سے رہنمائی لے سکیں ورنہ ان دنوں دل بہت دھواں مار رہا ہے۔
ياسر صاحب
مکئی کے دانے اگر خُشک ہوں تو پھْلے بن جانتے ہيں اور اگر تازہ مئی ہو تو پھْلے نہيں بنتے ۔ دونوں ہی مزيدار ہوتے ہيں ۔
Pingback: مسلمانی کیا ۔ پاکستانیت کيا | Tea Break
شازل صاحب
لگتا ہے کہ آپ سے بہت لوگ بلاوجہ ناراض ہين ۔ ورڈ پريس بھی آپ کے تبصرے کو سپيم ميں بھيجے بيٹھا تھا ۔ وہاں سے اسے بچا کر لايا ہوں
آجکل کے جو گرم گرم موضوع ہيں وہ ” خلل ہے دماغ کا ” ۔ ان پر وقت لگانا وقت کے ضياع کے مترادف ہو گا ۔ اور آجکل ايک ميری طبيعت درست نہيں ۔ بيگم ہفتہ بھر سے اچانک شديد بيمار ہوئی پڑی ہيں ۔ بيماری اور گرمی کے ساتھ بجلی اور پانی کی کمی نے تنگ کيا ہوا ہے ۔ يو پی ايس کی بيٹری مر گئی وہ نئی لايا ۔ تين ايمرجنسی لائٹس کی بيٹرياں مر گئيں ۔ وہ لايا ۔ آج واٹر پمپ جواب دے گيا ۔ وہ خريد کر لايا ہوں ۔
اس پر ہماری حکومت ہے کہ ڈاکے پڑيں لوگ مريں ۔ آٹا ۔ چينی چاول پٹرول ملے نہ ملے اُن کی بلا سے ۔ اُنہيں سب کچھ مُفت ملتا ہے
محترم بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔۔سب سے پہلے مسلمانی اور اگر صحیح مسلمانی ہو گی تو انسانیت آئے گی تبھی ہم سے یہ خرافات چھوٹیں گی
آخر میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین