محترم جوانو اور نوجوانو
السلام عليکم
ہر آدمی کسی تحرير کا مطلب اپنے ماحول ۔ تعليم اور تربيت کے زيرِ اثر سوچتا اور سمجھتا ہے ۔ اسلئے ميری آپ سب سے درخوست ہے کہ تحرير يا تبصرہ لکھنے سے قبل يا لکھ کر شائع کرنے سے قبل کم از کم ايک دو بار اسے اس نظريئے سے پرکھ ليا کيجئے کہ کوئی قاری اس کا کيا کيا مطلب لے سکتا ہے ؟
مُنتظم اُردو سيّارہ نے جس بلاگ کو اُردو سيّارہ سے ہٹانے کا اقرار کيا گيا ہے بلا شُبہ اس کی ايک تحرير نے ميرے ذہن ميں بھی ناراضگی پيدا کی تھی ۔ ميں صاحبِ بلاگ کو سمجھانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر گھريلو سخت قسم کی مجبوری کے باعث ميں کچھ دن کمپيوٹر نہ چلا سکا ۔ آج کمپيوٹر چلايا تو معلوم ہوا کہ وہ بلاگ اُردو سيّارہ سے ہٹا ديا گيا ہے
مُنتظم اُردو سيّارہ سے درخواست ہے کہ جس اصول کو نافذ کرنا ہے انصاف اور برابری کے ساتھ نافذ کيجئے ۔ ايک بلاگ ہم مسلمانوں کے دلوں ميں زہر آلود نيزے چبھوتا اور ہمارے سروں پر ہتھوڑے مارتا رہا ۔ اس پر بہت سے بلاگرز اور قارئين پچھلے دو ماہ سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہيں ليکن مُنتظم اُردو سيّارہ پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا
اور پھر مُنتظم اُردو سيّارہ نے ايک بلاگ پر اپنی غيرجانبداری ثابت کرتے ہوئے اپنے رويّئے کو آزادی اظہارِ رائے اور اُردو سيّارہ کو سيکولر قرار ديا ۔ ويسے تو ساری دنيا ہی ميں سيکولر کا عملی مطلب يہی ہے کہ مسلمانوں ۔ اُن کے دين اور اُن کے اسلاف کو رگيد کر کہو کہ يہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے مگر رگيدنے والے کی کسی نامعقول بات يا متشدد عمل پر اعتراض کرنے والے کو انتہاء پرست يا دہشتگرد قرار دے کر اُسے اُس کے گھر ميں گھُس کر قتل کر دو
اللہ ميرے سميت سب کو حقائق کا ادراک نصيب فرمائے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم و دائم کرے
محترم انکل۔۔۔ کچھ لکھنے کو تو ہے نہیں سوائے اس کے۔۔۔ کہ جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔۔۔ اور ہر جگہ کی طرح یہاں بھی “منافقت” عام نظر آ رہی ہے۔۔۔
اللہ ہی جانے کہ لکھنے والوںکی نیت کیا ہوتی ہے۔۔۔ لیکن جب ان سے کسی تحریر کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے اور پھر یہ طنز کرتے نظر آتے ہیںکہ “عقل نہیں اس لیے سمجھ نہیں پاتے”۔۔۔ کیا کریں۔۔۔ کدھر جائیں۔۔۔ اللہ ہی پوچھے ان کو۔۔۔ اگر ہم غلط ہیں تو اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور اگر وہ ناجائز بات کر رہے ہیں تو اللہ انہیں معاف کرے اور ہدایت عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔
محترم افتخار اجمل صاھب، آپکی اس تحریر سے یہ بات سامنے آ گئ کہ آپ سدت پسندوں کے لئے کس قدر نرم جذبات رکھتے ہیں۔ اور آپ انسانوں کی قتل و غارت گری کو مہمیز دینے میں اور اس چیز میں کوئ فرق نہیں روا رکھتے کہ کوئ شخص مختلف فلاسفہ کے پیش کردہ نظریات کو اپنی تحریر میں استعمال کرے۔
اول تو آپ یہ بات کہیں سے ثابت کریں کہ خدا کی ذات کے بارے مٰیں بات کرنا توہین خدا میں آآتا ہے۔ دوسرا آپ یہ ثابت کریں کہ توہین خدا نام کی کوئ اصطلاح کہیں موجود ہے اور خدا اسے نافذ کرنا چاہتا ہے۔ اسلام سمیت دنیا کے کسی قانون میں توہین خدا کی شق موجود نہیں۔ جبکہ توہین انبیاء اور توہین مذہبی کتب کے قوانین بعض جگہ ہیں اور بعض جگہ نہیں۔ اسے کہتے ہیں شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونا۔ خدا کو آپکی اس دکھاوے کی محبت کی اور عقیدت کی کوئ ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ وہ اپنے آپ سے نہیں اپنی مخلوق سے پہچانا جاتا ہے۔ جو مخلوق کو زمین سے مٹا ڈالے اس پہ آپ افسوس کریں اور باقی سب پہ ماتم۔ آ اللہ کو اس ماتم سے ذرا دلچسپی نہیں۔ اللہ کی اس عدم دلچسپی کی وجہ سے کائینات آپکی مرضی کے خلاف اپنی ایک سمت میں چلی جا رہی ہے۔ آپ نے دیکھا جو آپ چاہتے ہیں وہ نہیں ہو رہا اسکے علاوہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
اردو سییارہ نے انہیں ہٹایا۔ غلط کیا۔ انہیں وہاں اسے موجود رہنے دینا چاہئیے تھا۔ تاکہ ایک عام شخص کو پتہ چلتا کہ افتخار اجمل صاحب جس گروہ کے دکھ میں مبتلا ہیں وہ کون ہیں۔ اور جس سے انکے دل و دماغ پہ ہتھوڑے پڑتے ہیں وہ کون ہیں۔ پھر معلوم ہوتا کہ چنگیز خانی طاقتوں کے عشق میں کون مبتلا ہے؟ کون اپنے تکبر میں اتنا مبتلا ہے کہ اپنے علاوہ کسی کو رہنے نہیں دینا چاہتا۔ یہ انہوں نے بہت غلط کیا؟ مجھے بھی افسوس ہے مگر میرے افسوس کی بنیادیں آپ سے الگ ہیں۔
میرے ہاتھ ایک مولوی صاحب کی ایک دلچسپ کتاب لگی ہے۔ جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کسطرح اسلام کے جید علمائ اور انکے پیروکار توہین خدا سے لے کر توہین رسول تک اسلامی روایات کا سہارا لے کر کرتے ہیں اور اکثریت اس پہ یقین کرتی ہے۔ تب بہت سارے لوگوں کے ایمان کی قلعی کھلے گی ایک مولوی صاحب یہ سب کسطرح اور کتنے مزے سے لکھتے ہیں اور ایک مسجد کے کرتا دھرتا اسے چھاپتے بھی ہیں۔
محترم افتخار اجمل صاحب
آپ کی اس تحریر سے میرے دل کو بہت سکون ملا ہے۔۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔آمین
تبصرے کیلئے در شاباش
محترمہ عنيقہ ناز صاحبہ
آپ نے ميری اُوپر کی تحرير کے پہلے فقرے کو درست ثابت کر ديا ہے جس کيلئے ميں آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف نفسياتی مريض آپ کے جذباتی دماغ کی اختراع ہے ۔ اگر آپ ميں رتی برابر بھی سمجھ ہوتی تو معلوم ہو جاتا کہ ميں نے وہ نہيں لکھا جو آپ نے تقرير جھاڑی ہے
مجھے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہيں خاص کر اُس عورت کے سامنے جو بغير قرآن شريف کا مطالعہ کئے بڑے وثوق سے لکھے “ميری نظر سے کوئی ايسی آيت نہيں گذری جس ميں نوح عليہ السلام کی عمر کے بارے ميں لکھا ہو” جبکہ واضح آيت موجود ہے
ميری دعا ہے کہ اللہ کريم آپ کو ذہنی صحت اور عقلِ سليم عطا فرمائے اور عقل کو استعمال کرنے کا طريقہ بھی سُجھائے
Pingback: بلاگرز ۔ مبصّرين اور مُنتظم اُردو سيّارہ کے نام | Tea Break
افتخار انکل
اس وقت بندے کو واقعی کوفت ہوتی ہے جب کوئی ایک ہی بات پہ اڑ جاتاہے۔ مخالفت برائے مخالفت ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔
ایسے وقت جب مرہم کی ضرورت ہوتی ہے ہم مرچیں لے کر حاضر ہوجاتے ہیں۔
کچھ باتیں سیاست سے ہٹ کرہوتی ہیں۔ مذہب سے کھلواڑ اچھا نہیں ہوتا۔
انکل اپ کو پتہ ہوگا کہ میں کس سے مخاطب ہوں۔
مسئلہ خدا کی ذات پہ بحث کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے بحث کرنے کا انداز کیا ہے۔ اگرآپ بحث کرتے ہوئے متانت و سنجیدگی کو تھامے رہتے ہیں ۔ اپنے دلائل سنجیدگی سے دیتے رہتے ہیں دوسروں کے سوالات کا بردباری اور تحمل سے جواب دیتے رہتے ہیں تو بد مزگی پیدا نہیں ہوتی لیکن اگر آپ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے اشتعال انگیز ترکیبیں اور الفاظ استعمال کریں ، آپنے نقطہ نظر سے مطابقت نہ رکھنے والوں گالیاں دیں (عقل سے پیدل اور سفہاء کہنا میرے خیال سے گالیوں کے زمرہ میں آئے گا( تو پھر معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر جاتا ہے اور یہ سنگینی انکے موضوعات کی وجہ سے اتنی نہیں ہے جتنی انکے پرزینٹیشن کے انداز سے اوراپنے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں طرز گفتگو سے ہے
جناب افتخار صاحب بھوپالی،
معذرت چاہتا ہوں ۔ چھوٹا منہ بڑی بات کہ آپ اپنے آزو ۔ بازو نہیں دیکھتے بلکہ صرف بہت دور تک نظر ڈالتے ہیں اور آپ کو وہی اچھا لگتا ہے جو آپ کو اچھا لگے ۔ خدا آپ کو ہدایت دے کہ دوسروں کی پسند کو بھی تھوڑی جگہ دے سکیں ۔
میری شناخت یاد دلانے نیچے دستخط
شعیب، ہندوستان سے
اوپر کا تبصرہ اسلئے بھی کہ آپ اکثر اپنے آس پاس ہونے والے واقعات بلاگ کرتے رہے اور اکثر اچھی نصیحت والی باتیں پوسٹ کیا کرتے تھے مگر آج آپ کی اس پوسٹ سے پتہ نہیں کیوں مجھے غیبت کی بو آ رہی ہے ۔
شعیب
شعيب صاحب
آپ کے دونوں تبصرے ميری تحرير کے پہلے فقرے “ہر آدمی کسی تحرير کا مطلب اپنے ماحول ۔ تعليم اور تربيت کے زيرِ اثر سوچتا اور سمجھتا ہے” کی مد ہی ميں آتے ہيں ۔ کاش آپ نے انہيں شائع کرنے سے قبل پرکھ ليا ہوتا
ہر آدمی کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اور جو دوسروں کی پسند پر انحصار کرے وہ يا بيوقوف کہلاتا ہے يا نقال ۔ پھر آپ کا ميری پسند کو ميری پسند کہنے کا کيا فلسفہ ہے ؟
آپ کی اس دعا پر کہ خدا مجھے ھدائت دے ميں کہتا ہوں اللہ آپ کی يہ دعا فوری طور پر قبول کرے اور اس دعا کيلئے آپ کا شکريہ ادا کرتا ہوں کہ ميں ہردم اسی کا متمنّی رہتا ہوں
رہا دوسروں کی رائے کو جگہ دينے کا معاملہ تو ميں نے اس تحرير ميں کسے جگہ نہيں دی کيا آپ واضح کيجئے گا ؟
اگر ميری تحرير دوبارہ پڑھ ليں تو شائد آپ کو بات سمجھ ميں آ جائے کہ اس ميں نُقطہ کيا اُٹھايا گيا ہے
غيبت کی تعريف يہ ہے کہ کسی کی برائی اُس کی پيٹھ پيچھے کسی دوسرے سے بيان کی جائے تو ميری تحرير غيبت کيسے ہوئی ؟
مجھے ياد ہے کہ آپ دبئی ميں ہوا کرتے تھے اور بنگلور کے رہنے والے ہيں
افتخار اجمل صاحب : بہت دنوں بعد آپ کے بلاگ تک رسائی حاصل کر سکا۔ پی تی سی ایل کے صارفین ایک عذاب میں ہی رہتے ہیں۔ گو کہ اپ نے کافی کوشش بھی کی ہے اس مسئلے کے حل کے لئے مگر کم از کم میرے لئے یہاں آنے کی کوشش ہر مرتبہ کامیاب نہیں ہوتی۔
اس پوسٹ کے بارے میں :
آپ کا شکریہ۔ اپ نے نہایت کم الفاظ کے ساتھ سب کچھ تفصیل سے لکھ ڈالا۔ شائد ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ الفاظ کا چناؤ اس طرح کر سکیں کہ ہماری بات ہمارے مخاطب تک احسن طریق سے پہنچے اسی لئے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی پرابلم ہو جاتا ہے۔ آپ کا شکریہ آپ نے اس مسئلے کو اتنا اہم جانا کہ اس بارے میں لکھنا مناسب سمجھا۔
ایک بات میں عرض کرتا چلوں کہ اظہار رائے اپنی جگہ اور دینی حمیت اپنی جگہ۔ دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ جو چیز غلط ہے وہ غلط ہے۔ اور جو کچھ آج کل لکھا جارہا ہے اس سلسلے میں بلا تخصیص مسلک سارے مسلمان رنجیدہ ہیں کہ کیسے ہمارے سامنے اللہ پاک ، اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں اور اللہ پاک کے کلام کی توہین ہو رہی ہے اور ہم اسے آزادئ ء اظہار رائے کے نام پہ برداشت کر نے پر مجبور ہیں۔
منير عباسی صاحب
دين کے بارے ميں غلط سلط بات کسی روشن خيالی کا حصہ نہيں بن سکتی ۔ مجھے اللہ سُبحانُہُ و تعالِی نے زندگی ميں بہت اُتار چڑھاؤ دکھائے ہين جن کے باعث اللہ نے ايسے معاملات سے نپٹنے کے اسلوب بھی سکھائے ۔ ميں ظاہر اور پردہ ميں بھی کوشاں رہتا ہوں کہ لوگ بھلائی کی طرف راغب رہيں ۔ کاميابی دينا ميرے مالک و خالق کا کام ہے کيونکہ صرف وہی قادرِ مطلق ہے
ان پی ٹی سی ايل والوں کو ہر 6 ماہ بعد ڈوز دينا پڑتی ہے جو دن بدن ميرے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے کيونکہ وہ جونيئر بھی جو جانتے تھے ريٹائر ہو گئے ہيں