ميں ايک طوطا تھا
ميں ٹيں ٹيں کرتا تھا
سب سُنتے تھے
ميں ايک چڑيا تھا
ميں چُوں چُوں کرتا تھا
سب سُنتے تھے
ميں ايک کوئل تھا
ميں کُوووو کُوووو کرتا تھا
سب سُنتے تھے
ميں ايک فاختہ تھا
ميں کُکُو کُوو کُکُو کُوو کرتا تھا
سب سُنتے تھے
ميں ايک آدمی تھا
سب بولتے تھے
کوئی نہيں سُنتا تھا
بہت خوب محترم۔۔بڑی گہری بات کی ہے آپ نے ۔۔۔۔
کون سنے گا بھائی جی ۔۔
دماغی بہرے بھی بھلا کسی کی سنتے ہیں
شيخو صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ ۔ ايسے ہی بيٹھا اپنے ہموطنوں پر غور کر رہا تھا تو ميرے دماغ نے يہ کچھ کہہ ديا
واہ واہ واہ ،
کیا کوے کی طرح کائیں کائیں کی ہے!
جس میں سے ایک دوسرے کوے نے گہرائی ڈھونڈی ہے!!!!
عبداللہ
کوے سے زيادہ کائيں کائيں تو تم کرتے رہتے ہو ۔ کسی اور کو اس کی ضرورت ہی نہيں پڑتی
Pingback: بات ہے سمجھنے کی | Tea Break
عمدہ کہا …ہم سب چاہتیں ہیں کہ صرف میں بولوں اور سب سنیں … ہم سب کے اندر ایک امر بیٹھا ہے..
ميں ايک آدمی تھا
سب بولتے تھے
کوئی نہيں سُنتا تھا
مجھے تو یہ ٹی وی پر عوام لگ رہی ہے جو اپنے دکھڑے رو رہی ہے
عبداللہ کی سمجھ مین نہیں آئے گا
اللہ کسی کو کسی سے اتنا بیر نہ دے کہ کچھ سمجھنے والی بات پر بھی کان نہ دھرا جائے
چلو کان دھرنا نہ سہی جب تبصرہ نہیں کر سکتے تو جو سمجھ نہ آئے اس پر کہیں کی ہانکنا بھی نہین چاہیئے
میں مختلف بلاگ پر عبداللہ انک ٹام اور ایک اور ہیں جن کا نام یاد نہین آرہا ہے
بس کہیں کی بات کہیں کر دیں گے جس کا نہ سر ہو گا نہ پیر
سمجھ نہیں آتا یہ لوگ کیا مقاصد لے کر تبصرے کی کوشش کرتے ہیں